درآمد کنندگان نے آئی ڈیز کو’’کرائے‘‘ پر دینے کا دھندہ شروع کردیا

0

کراچی( رپورٹ:عمران خان)درآمد کنندگان نے آئی ڈیز کو کرائے پر دینے کا دھندہ شروع کر دیا ہے۔ان آئی ڈیز ٹیکس فراڈ اور اسمگلنگ میں بے تحاشا اضافے کا سبب بن گئیں۔گڈز ڈیکلیریشن کیلئےکمپنیوں کی سیلف آئی ڈیز غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کیلئے استعمال کی جانے لگی ہیں ۔بھاری ٹیکس چوری کیلئے قیمتی سامان اورچھالیہ کی اسمگلنگ کی وارداتیں بے نقاب ہو چکی ہیں۔یہ اشیا لائسنس یافتہ کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کی خدمات حاصل کئے بغیر امپورٹرزکی سیلف آئی ڈیز پرجی ڈیز کاغذات داخل کرکے کلیئر کرائی جا رہی تھیں۔کراچی کسٹم ایجنٹس ایسوسی ایشن نے صورتحال پر تحریری تحفظات سے ممبر کسٹم کو آگاہ کر دیا ہےکہ کلیئرنگ ایجنٹوں پر نافذ قواعد سیلف آئی ڈیز پر سامان کی کلیئرنس کیلئے بھی لاگو کئے جائیں۔امپورٹرز اپنی آئی ڈیز پر سامان کلیئر کراتے وقت در اصل کلیئرنگ ایجنٹ کا ہی کردار ادا کررہے ہوتے ہیں ۔ذرائع نے بتایا کہ کسٹم ہاؤس کے اطراف اور دفاتر میں ایسے غیر لائسنس یافتہ ایجنٹس سرگرم ہیں ، جن کے پاس مختلف رجسٹرڈ امپورٹرز کمپنیوں کی آئی ڈیز دستیاب ہوتی ہیں اور وہ کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کے مقابلے میں کم فیس اور کم ٹیکس پر سامان کلیئر کرانے کی پیشکش بھی کرتے نظر آتے ہیں۔حالیہ عرصے میں تاجروں نے بھی ایجنٹس کو فیس ادائیگی و تمام دستاویزات کی فراہمی کے جھنجھٹ سے خود کو آزاد کرتے ہوئے چلتے پھرتے ایجنٹوں کے ذریعے اپنا سامان کلیئر کرانا شروع کردیا ہے ، جس سے اسمگلنگ اور ٹیکس فراڈ کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ذرائع کے مطابق گزشتہ عرصے میں ایسی کئی وارداتیں سامنے آئیں ۔ جن میں سیلف جی ڈیز پر سامان کلیئر کرانے والی کمپنیاں ہی ٹیکس چوری اور اسمگلنگ میں ملوث پائی گئیں۔تحقیقات سےمعلوم ہوا کہ منگوایا گیا سامان اصل ان کمپنیوں کا تھا ہی نہیں ،کمپنی کا نام اور آئی ڈیز دیگر تاجروں کے لئے سامان منگوانے کے کام آ رہی تھی ۔اس پرماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ کو احکام جاری کئے گئے کہ ایسی کمپنیوں کی جی ڈیز اور سامان کی فزیکل اسکروٹنی سخت کردی جائے ، جو کہ کلیئرنگ ایجنٹس کی خدمات لئے بغیر سامان کلیئر کراتے ہیں۔روایتی طور پر کسی کھیپ میں اسمگلنگ یا ٹیکس چوری پکڑے جانے پرکسٹم حکام تحقیقات کے پہلے مرحلے میں ہی کلیئرنگ ایجنٹس سے تفتیش شروع کرتے ہیں ، جو لائسنس یافتہ ہونے اور دفاتر رکھنے کی وجہ سے کہیں بھاگ نہیں سکتے ۔تحقیقات میں ایجنٹس افسران کو امپورٹر کمپنی کی پوری معلومات اور فراہم کردہ دستاویزات کا ریکارڈ مہیا کرتے ہیں ، جس سے انہیں تحقیقات میں آسانی رہتی ہے۔سیلف جی ڈیز پر وارداتیں سامنے آنے کے بعد چلتے پھرتے ایجنٹ غائب ہوجاتے ہیں ۔ جب آئی ڈیز کے استعمال پر کمپنی کے مالکان کو پکڑا جاتا ہے تووہ معاملے سے لاعلمی کا اظہار کردیتے ہیں ، جس سے اصل ملزمان تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ذرائع کے مطابق حالیہ ملکی تاریخ کے ٹیکس چوری کے سب سے بڑے فراڈ میں جس کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔ اس کے سامان کے کنٹینرز بھی لائسنس یافتہ ایجنٹس کی خدمات حاصل کئے بغیر کمپنی آئی ڈی استعمال کرکے کلیئر کرانے کی کوشش کی گئی ۔تحقیقات میں کمپنی مالکا ن اور ذمے داروں نے اربوں کی اسمگلنگ میں خودکو بری الزمہ قرار دیااورآئی ڈی کے غلط استعمال کا الزام 2 سابق اور موجودہ ملازمین پر عائد کردیا تھا۔کراچی کسٹم ایجنٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ارشد خورشیدنے 3ہفتے قبل ممبر کسٹم آپریشن ڈاکٹر جواد اویس آغا کو خط تحریر کیا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ سامان کی کلیئرنگ کیلئے ایجنٹس پر نافذ قواعد اور ایس آر اوز سیلف جی ڈیزکرانے والوں پربھی لاگو کئے جائیں۔کسٹم میں جی ڈیز داخل کرنے کیلئے نافذ کمپیوٹرائزڈنظام ”پیکس“ کے نصب ہونے سے قبل 99فیصد درآمدی سامان کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کے ذریعے ہی کلیئر کرایا جاتا تھا ۔صرف ایک آدھ فیصد سامان امپورٹرز خود ہی کلیئر کراتے تھے۔ اسی وجہ سے کلیئرنگ ایجنٹوں کے حوالے سے کسٹم قوانین میں 5سے 6صفحات پر مشتمل دفعات اور ایس آراوز نافذ تھے ، جس کی پاسداری لازمی ہے۔از خود سامان کلیئر کرانے والوں کیلئے اس کے مقابلے میں 5فیصد قوانین بھی لاگو نہیں۔پیکس سسٹم اور وی بوک آئی ڈیز کا نظام آنے کے بعد اب امپورٹرزاپنی آئی ڈیز کے ذریعے سامان کلیئرکرانے کے لئے جی ڈیز یعنی دستاویزات سسٹم میں داخل کرا سکتے ہیں۔ اس لئے رجحان میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد سیلف جی ڈیز پر بھی تما م قوانین اور ایس آراوز کا اطلاع ضروری ہے۔ذرائع کے مطابق اب تک اس معاملے پر کسٹم حکام نے اعلیٰ سطح پر کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا تاہم کلکٹوریٹس کی سطح پر اور جی ڈیز پروسیس کرنے والے ماتحت افسران کے درمیان یہ معاملہ اہم مسلہ بن چکا ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More