تحریک لبیک سے لاتعلقی کے حلف پر21کارکن رہا

0

کراچی(اسٹاف رپورٹر)تحریک لبیک سے لاتعلقی کا حلف دینے والے 21 افراد کو گزشتہ روز رہا کر دیا گیا ہے، تمام افراد کا تعلق سنی تحریک سے ثابت ہونے پر رہا کیا گیا۔ رہائی پانے والے افراد کی تعداد دو درجن ہو گئی۔ حکومت سندھ نے وزارت داخلہ کی ہدایات پر تحریک لبیک کے گرفتار کارکنان کی رہائی حلف نامے سے مشروط کر دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ باقی 120 کارکنان کے ورثا محکمہ پچھلے دو ہفتوں سے محکمہ داخلہ کے دھکے کھا نے پر مجبور ہیں، کوئی ان کی فریاد سننے کے لئے تیار نہیں۔ورثا کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان پر جیل میں تشدد کیا جا رہا ہے، بیماری کے باوجود انہیں علاج میسر نہیں ۔ تفصیلات کے مطابق آئی جی سندھ سے رپورٹ موصول ہونے کے بعد ایم پی او کے تحت گرفتار 21 افراد کا تعلق سنی تحریک سے ثابت ہونے پر گزشتہ روز رہا کر دیا گیا ۔محکمہ داخلہ نے ان افراد کی نظر بندی کے احکامات واپس لئے تاہم تحریک لبیک سے لاتعلقی کا حلف نامہ لیا گیا ہے۔ دوسری جانب وزارت داخلہ نے تحریک لبیک کے کارکنان کی رہائی حلف نامے سے مشروط کر دی ہے ،جس میں گرفتار شدگان اور ان کے ورثا کو لکھ کر دینا ہوگا کہ ان سے غلطی ہوئی وہ آئندہ کسی ریاست مخالف سرگرمی اور مظاہروں میں شریک نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے ان کے خلاف کسی بھی تھانے پر مقدمہ درج نہیں ہے اور ان کا تحریک لبیک یا کسی بھی جماعت سے تعلق نہیں ہے اور نہ ہی تعلق رکھیں گے۔ ذرائع کے مطابق اس حلف نامے کے ساتھ انہیں کسی معزز کی ضمانت بھی دینی ہوگی۔ وزارت داخلہ سے موصول ہونے والی ہدایات کی روشنی میں حلف نامے موصول ہونے کے بعد محکمہ داخلہ سندھ کی طرف سے 2 درجن سے زائد کارکنان کو رہا کیا جا چکا ہے ،جبکہ دیگر 120 سے زائد کارکنان سے متعلق آئی جی سندھ اور دیگر سیکورٹی اداروں سے رپورٹ طلب کر لی ہے، جس میں یہ دیکھا جائے گا کہ گرفتار شدگان کے خلاف مزید مقدمات درج ہیں کہ نہیں۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ کے حصول کے لئے محکمہ داخلہ کی طرف سے پولیس حکام کو متعدد مرتبہ خطوط لکھے جا چکے ہیں ،لیکن کوئی جواب نہیں دیا جا رہا ،تاہم ورثا سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے طور پر تھانے سے رپورٹ لے کر پیش کریں ۔ اس سلسلے میں ورثا کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے عوض تھانوں پر بھاری رشوت طلب کی جا رہی ہے اور ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ محکمہ داخلہ کے ایک ذمہ دار آفیسر نے گرفتار شدگان کے ورثا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری داخلہ نے اس حوالے سے رپورٹ طلب کی ہے ،جس کے موصول ہوتے ہی وہ ورثا کو طلب کر لیں گے۔ تاہم ورثا نے محکمہ داخلہ کے افسر کے اس موقف پر عدم اطمنان کا اظہار کیا۔ ورثا نے ‘‘ امت ’’ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دن بھر محکمہ داخلہ کے دھکے کھانے کے بعد شام کو انہیں کہا جاتا ہے کہ صبح رپورٹ موصول ہو جائے گی۔ اورنگی ٹاؤن ایک نمبر کے فیاض حسین ولد ممتاز کی والدہ بیبل خاتون کا کہنا تھا کہ وہ دل کی مریضہ ہیں ،میرا بیٹا پچھلے 18 روز سے گرفتار ہے ۔ وہ پچھلے کئی روز محکمہ داخلہ کے چکر کاٹ رہی ہیں ،لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کچھ لکھ کر دینے کے لئے تیار ہیں ،لیکن اس کے باوجود تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں ۔ بیبل خاتون محکمہ داخلہ کے ایک ایک افسر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑا تی رہی ،لیکن ان کی فریاد سننے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔ نیو کراچی کے شہباز ولد محمد جاوید کے والد محمد جاوید کہا کہنا تھا کہ وہ یہاں روز چکر لگا رہے ہیں اور ہر بار انہیں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ کل آئیں کبھی تھانے اور کبھی ایس پی آفس سے رپورٹ طلب کرنے کے بات کی جا تی ہے اور آج کہہ رہے ہیں کہ آئی جی سے رپورٹ طلب کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار شدگان پر جیل میں سخت تشدد کیا جا رہا ہے اور کچھ قیدی بیمار ہو گئے ہیں ،لیکن انہیں اسپتال منتقل نہیں کیا جا رہا ۔ان سے ملاقات کے لئے ہم سے بھاری رشوت طلب کی جاتی ہے۔ ایوب گوٹھ کے محمد یوسف نے کہا کہ ان کے گھر کے 4 افراد فیضان ولد حبیب، جاوید ولد محمد حسین، دانش ولد رزاق، سلمان ولد محمد عثمان کو بے گناہ اٹھا کر جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اعلیٰ حکام کو درخواستیں ارسال کر چکے ہیں ،لیکن ہماری کوئی مدد نہیں کر رہا ۔ لانڈھی سے گرفتار محمد اسرافیل اور ماڈل کالونی کے رانا راشد کے ورثا نے کہا کہ جس دروازے پر فریاد لے کر جاتے ہیں وہ دروازے ہم پر بند کر دئیے جاتے ہیں ۔ سیکریٹری محکمہ داخلہ قاضی کبیر نے ‘‘ امت ’’ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مجموعی طور پر 120 افراد بند ہیں ،جن کے ورثا سے حلف نامے طلب کر لئے گئے ہیں ،جن کے حلف نامے موصول ہونگے اور پولیس سے مثبت رپورٹ موصول ہونے پر رہا کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد کو مظاہروں جلاؤ گھیراؤ اور ہنگامہ آرائی میں ملوٹ ہونے پر اور نادرا کی طرف سے تصدیق کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More