محدثین کے حیران کن واقعات

0

امام زہریؒ سے متعلق علمی خصوصیات تین بیان کی جاتی ہیں:
(1) تدوین حدیث: حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کے حکم سے اس کارِ عظیم کو آپ نے انجام دیا۔
(2) اسناد: آپ کی شخصیت وہ پہلی کڑی ہے جس نے اسناد کو جاری کیا اور اہتمام سے بیان کیا۔
(3) متن حدیث کا وافر حصہ: ایک اچھا خاصا حصہ ذخیرئہ حدیث کا آپؒ کے پاس تھا، جو دوسرں کے یہاں موجود نہیں تھا، چنانچہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ: امام زہری نوے کے قریب ایسی احادیث روایت کرتے ہیں، جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔
اگر امام زہریؒ کی زندگی کے اوراق پلٹیں اور قصر خلافت کے حالات کا جائزہ لیں تو ہرمنصف مزاج یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ امام زہریؒ نے قصر خلافت کی آمدورفت سے اپنا مفاد وابستہ نہیں کررکھا تھا، بلکہ ان کے بگڑے حالات اور درآنے والی بدگمانیوں کو دور کرنے کی یہ واحد کوشش تھی کہ تعلقات استوار کرکے ان کے ذہن ودماغ کے میل کو صاف کیا جائے۔
امام زہریؒ اور خلیفہ ولید:
العقد الفرید میں اسی قسم کا ایک واقعہ یوں درج ہے کہ امام زہری ولید کے پاس تشریف لے گئے۔ ولید نے پوچھا: اہل شام کیا حدیث بیان کرتے ہیں؟ امام زہری نے کہا وہ کیا ہے؟ ولید نے پوری حدیث سنائی کہ اہل شام کہتے ہیں:
حق تعالیٰ جس بندے کو رعایا کے کام کے لیے مسلط کرتے ہیں تو اس کیلئے نیکیاں تو لکھی جاتی ہیں، سیئات نہیں لکھے جاتے۔
امام زہریؒ نے کہا یہ حدیث باطل ہے اور اے امیرالمؤمنین یہ بتائیے کہ کیا نبی خلیفہ افضل ہے یا غیر نبی خلیفہ؟ ولید نے کہا نبی خلیفہ۔ امام زہریؒ نے کہا کہ دیکھئے حضرت داؤدؑ کے متعلق قرآن پاک کا کیا ارشاد ہے:
’’اے داؤد ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا، لہٰذا لوگوں کے مابین ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیجئے اور خواہشات کی اتباع نہ کیجئے کہ آپ خدا کے راستہ سے بھٹک جائیں، یقیناً جو لوگ خدا کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں، ان کے لیے دردناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ یوم حساب سے غافل ہوگیا۔‘‘ (سورئہ ص: 26)
پس اے امیرالمؤمنین! یہ وعید ہے نبی خلیفہ کے لیے، تو آپ کا کیا خیال ہے، غیر نبی خلیفہ کے حق میں۔ (العقد الفرید:1/60)
دینی حمیت کا واقعہ:
ایک دوسرا واقعہ ابن عساکر نقل کرتے ہیں، جس سے ان کی جرأت ایمانی کی خوب سے خوب تصویر کشی ہوتی ہے، ایک موقع پر ہشام بن عبد الملک نے سلیمان بن یسار سے قرآن کریم کی ایک آیت کا مصداق پوچھا کہ اس سے کون مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابی ابن سلول (رئیس المنافقین) ہشام نے کہا غلط ہے۔ پھر اس نے اس کا مصداق ایک صحابیٔ رسولؐ کو قرار دیا۔ سلیمان نے کہا امیرالمؤمنین کو زیادہ معلوم ہے، پھر جب امام زہریؒ ان کے پاس گئے تو اس نے امام زہریؒ سے بھی پوچھا: انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ اس سے مراد ابی ابن سلول ہے۔ ہشام نے کہا کہ غلط ہے، اس سے مراد تو فلاں صحابی ہیں۔ امام زہریؒ بالکل آگ بگولا ہوکر بولے:
’’کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ تیرا ستیاناس ہو! خدا کی قسم اگر مجھ کو آسمان سے پکارنے والا پکار کر کہے کہ خدا نے جھوٹ کو حلال کر دیا ہے تو بھی میں جھوٹ نہیں بولوں گا، مجھ سے فلاں نے اور فلاں سے فلاں نے بیان کیا کہ اس سے مراد ابی ابن سلول ہی ہے۔‘‘
امام زہریؒ کی دینی حمیت اور ایمانی جرأت کا جب یہ حال ہے تو کیا تصور کیا جاسکتا ہے کہ بقول مستشرقین، چند ٹکوں کی خاطر انہو ں نے وضع حدیث کا ناپاک بیڑا اٹھایا ہو، جب کہ دنیا کا حال ان کی نگاہوں میں یہ تھا کہ عمروبن دینارؒ بیان کرتے ہیں: ’’درہم و دینار ان کے نزدیک مینگنی کے برابر تھے۔‘‘
اور ناموری و شہرت کا حال یہ ہے کہ بقول گولڈ زیہری کہ مسلمانوں کے یہاں ایک معروف ومشہور شخصیت تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More