س: اسلامی نظریاتی کونسل میں آنے کے بعد مولویوں کے ساتھ تجربہ کیسا رہا؟
ج: میری تو جماعت اسلامی والوں نے بدتعریفی کی۔ سنو ان جماعتوں کا حال۔ میں کہتا ہوں اس ملک کو کہاں لے جائیں گے۔ جماعت والوں نے کہا، ہمارے دو ممبر بنادو۔ فضل الرحمن نے کہا، چار ہمارے بنادو۔ مولوی سمیع الحق نے کہا میرے کم از کم چار۔ ساجد نقوی نے کہا، دو بندے ہمارے بنا دیں۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے کہا، دو ہمارے بنوادیں۔ میں نے سارے گن کے انہیں کہا، اتنی تو سیٹیں بھی نہیں۔ آئین میں ترمیم کروا دیں، تاکہ سیٹیں بڑھ جائیں اور آپ کے یہ بندے بھی کونسل کے ممبر بن جائیں۔ میں نے کہا، میرے کون سے اختیار میں ہے۔ اسی ممبر شپ کے سلسلے میں مولوی سمیع الحق نے مجھے ایک کاغذ دیا، فوٹو کاپی۔ اس پر دستخط تھے آصف زرداری کے اور آفتاب شیر پاؤ کے۔ ساتھ مولوی صاحب نے کہا کہ یہ فاروق لغاری صاحب کی موجودگی میں ایگریمنٹ ہوا تھا۔ میں نے لغاری صاحب سے پوچھا، سردار صاحب وہ کہتے ہیں آپ کی موجودگی میں ایگریمنٹ ہوا تھا۔ مجھے فاروق لغاری کہتے ہیں، انہوں نے رکھا ہوا ہے سنبھال کے کاغذ! میں نے کہا، انہوں نے فوٹو کاپی مجھے دی ہے۔ کہنے لگے۔ ہے گا تو میں پاس تھا۔ اب کیا کریں۔
ایک پیر ہے گابڑا سا۔ وہاں بی بی دعا مانگنے جاتی رہی ہے۔ اس کا گدی نشین سندھ کا ممبر بن گیا۔ اس کا بھائی ایف آئی اے میں بن گیا۔ وہ مجھے کہانی سناتے ہیں۔ پیر صاحب کہتے ہیں اس کی ٹرانسفر کراچی کرادیں۔ میں نے کہا، میں کراچی ٹرانسفر کرا دیتا ہوں۔ پوسٹنگ بھی کروا دیتا ہوں۔ مجھے کہتا ہے، ڈپارچر لاؤنج میں کروا دیں۔ میں نے ڈپارچر لاؤنج کا کسی سے پوچھا۔ وہ کہتا ہے جی تقریباً تیس لاکھ روپیہ مہینے کی آمدنی ہے۔ ڈپارچر لاؤنج میں۔
س: ڈپارچر لاؤنج میں!
ج: ڈپارچر لاؤنج کراچی۔
س: ڈپارچر لاؤنج میں تو کوئی نہیں ہوتا پاسپورٹ…۔
ج: سنو نا، میں نے پوچھا وہ کاہے کی بنتی ہے۔ کہتا ہے ILLEGAL IMMIGRANTS (غیر قانونی تارکین وطن)۔ میں نے پیر سے کہا، پیر جی، میں نے زندگی میں سفارشیں بہت کی ہیں۔ جہاں رشوت کا معاملہ ہوگا وہاں مجھے اپنے آپ سے شرم آتی ہے کہ جس سے سفارش کروں گا وہ میرے متعلق کیا سوچے گا۔ کہتا ہے، نہیں رشوت کی بات نہیں ہے۔ میں نے کہا، پھر تنخواہ کم ہے۔ کہنے لگا ’’اچھا پھر پاسپورٹ میں لگوادیں‘‘۔ میں نے ایک کو ٹیلی فون کیا۔ وہ بندہ مجھے کہتا ہے کہ پاسپورٹ میں تو آپ کو مشکلات ہوں گی۔ میں نے پوچھا، کیوں بھائی۔ وہ کہتا ہے، وہاں آپ کا بندہ لگا ہوا ہے۔ اس نے نام لیا کہ اسے ہماری پارٹی کے فلاں آدمی نے لگوایا تھا۔ کہتا ہے وہ پھر آپ کے گلے پڑیں گے۔ پیر صاحب کا آدمی کراچی ٹرانسفر ہوگیا۔
س: اچھا! یہ حضرات آپ کے پیچھے پھرتے رہے کہ ہمارے ممبر بنا دو۔
ج: یہ سارے میرے پیچھے پھرتے ہیں کہ ہمیں ممبر بنا دو۔ میں نے کہا ’’اسے جاکے کہو جس نے بنانا ہے۔ میرے تو اختیار میں ہی نہیں ہے گا ممبر بنانا۔ وہاں جاتے نہیں آپ‘‘۔
س: وزیر اعظم کے پاس؟
ج: وزیر اعظم اور صدر کے اختیار میں ہے۔ میرے تو اختیار میں نہیں۔ ہماری کنٹرولنگ منسٹری ہے مذہبی امور۔ سمری منسٹری مذہبی امور تیار کرتی ہے۔ فیصلہ پرائم منسٹر کرتی ہیں۔ صدر صاحب دستخط کرتے ہیں۔ دو جج ہمیں چاہئیں کونسل میں۔ میں نے انہیں کہا، بی بی جب تک جج نہیں بنتے کونسل قانونی طور پر مکمل نہیں ہوتی۔ مجھے کہتی ہیں، تو سیعد حسن کو بنادیں۔ ایک محمود بھٹی ہے گا بہاولپور کا۔ جس نے استعفا دیا تھا ججی سے، کسٹم والوں سے مال مانگنے کے جرم میں۔ بھٹو نے آخری دنوں میں تین چار جج بنائے تھے۔ سعید حسن، محمود بھٹی، خالد محمود، ایک آدھ کوئی اور تھا۔ مارشل لا لگا تو کچھ نکال دیئے گئے۔ کچھ چھوڑ کے چلے گئے۔ ان میں محمود بھٹی بھی تھا۔ میں نے کہا، بی بی، کوئی گستاخی میں نے آپ کی نہیں کی۔ کوئی میں نے جرم نہیں کیا۔ آپ یوں کہہ دیں اطمینان کے ساتھ خاں صاحب آپ استعفا دے دیں۔ میں استعفا دے دیتا ہوں۔ یہ جو جج بیٹھے ہوں گے کونسل میں تو میں کیا لوگوں کو جواب دوں گا کہ کونسل ہے کیا؟ بس پھر تنخواہ لینے کا مسئلہ ہے۔ مجھے کہتی ہیں، وہ جج رہ چکے ہیں۔ میں نے کہا، جج رہ چکے ہیں دو دو، تین تین مہینے۔ بھٹو صاحب نے بنائے تھے۔ پھر چھٹی ہوگئی۔ کہتی ہیں، جج تو ہیں نا۔ میں نے کہا، تھے۔ اگر آپ انہیں بنائیں گی تو پھر میں یہ کام نہیں کروں گا۔ دوسرے تیسرے دن کسی سے کہنے لگیں، جج بنانے ہیں، خاں صاحب ہی پروٹیسٹ کئے پھرتے ہیں۔ میں کیا کروں۔ خیر، وہ جج ابھی تک (16 جولائی 95ء) نہیں بنے۔ اٹارنی جنرل صاحب سے کہا، انہوں نے ایک دو بندوں کے نام دیئے۔ میں نے کہا، بندے دے پتر چاہئیں۔ وہ بھی میں نے ریکارڈ پر رکھ لئے۔ اٹارنی جنرل (قاضی محمد جمیل) جتنا نالائق وکیل، جھوٹا اور منافق وکالت کے پیشے میں اور کوئی نہیں۔ لیکن پرائم منسٹر کا BLIND FAITH (اندھا اعتماد) اس پر۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post