امت رپورٹ
موسم سرما شروع ہوتے ہی کراچی میں مانگ بڑھنے پر مچھلی کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیا گیا۔ سرکاری نرخ مقرر نہ ہونے سے مچھلی فروشوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ سمندری مچھلی کی قیمت میں فی کلو 200 روپے تک اضافہ کر دیا گیا ہے، جبکہ دریائی مچھلی ڈیڑھ سو روپے اور فش فارمز کی مچھلی 100 روپے تک مہنگی فروخت کی جا رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی سمندری حدود میں بڑی لانچوں کی پکڑ دھکڑ سے شکار میں خاصی کمی آئی ہے۔ جبکہ میٹھے پانی اور فارم ہائوسز کی مچھلی بھی شہریوں کیلئے کم پڑ رہی ہے۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ٹھٹھہ اور بدین کی فشری سے باسی مچھلیاں بھی کراچی لاکر فروخت کی جارہی ہیں۔ دوسری جانب ٹھیلوں اور پتھاروں پر تلی ہوئی مچھلی فروخت کرنے والوں نے بھی اپنے ریٹ معمول سے دگنے کر دیئے ہیں۔ کراچی، ٹھٹھہ اور بدین کے ساحلوں پر شکار کر کے لائی جانے والی مختلف اقسام کی مچھلیوں کے ریٹ مقرر نہ ہونے کا ساحلی وڈیرے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اچھی قسم کی مچھلی بیرون ملک بھیجی جارہی ہے۔
تازہ مچھلی کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ آج کل مچھلی کی ڈیمانڈ میں 85 فیصد، جھینگے کی 10 فیصد، کیکڑے اور دیگر سی فوڈز کی ڈیمانڈ میں 5 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ جبکہ ماہی گیروں کو پاکستان کی پوری سمندری حدود میں شکار کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ ڈیپ سی پالیسی معطل کئے جانے کے باوجود بلوچستان فشریز کے اہلکار کراچی کی لانچوں کو شکار کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ دوسری جانب سمندری سیکورٹی ادارے ممنوعہ جال سے شکار کرنے والی بڑی لانچوں کو پکڑ رہے ہیں۔ ایک ہفتے میں تقریباً آٹھ بڑی لانچوں کو پکڑا جاچکا ہے۔ ذرائع کے بقول ان تمام عوامل کی وجہ سے کراچی میں کم مچھلی آرہی ہے۔ اس وقت لانچیں ٹھٹھہ اور بدین کے ساحلی علاقوں اور کراچی کے قریب سمندری علاقے کاجر کریکس تک شکار کر رہی ہیں۔ بڑی مقدار میں اے اور بی کیٹیگری کی مچھلی ایکسپورٹ کی جارہی ہے۔ جبکہ سی کیٹیگری کی مچھلی شہر میں فروخت ہورہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کی جھیلوں اور دریاؤں کے علاوہ فش فارموں کی مچھلی بھی کراچی کی کھپت پوری کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ کراچی، ٹھٹھہ اور بدین سیابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ اور دیگر علاقوں میں قائم پولٹری فیڈز بنانے والی فیکٹریوں میں روزانہ ہزاروں ٹن ناقص مچھلی بھیجی جاتی ہے۔ تاہم بعض منافع خور تاجر فیڈز بنانے والی مچھلی بھی شہر میں فروخت کررہے ہیں۔ تازہ مچھلی کی قیمت میں اس قدر اضافہ کردیا گیا ہے کہ یہ غریب کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے۔ کراچی میں فش ہاربر، ابراہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ کے علاوہ یونس آباد، شمس پیر، چشمہ گوٹھ اور لٹھ بستی میں مچھلی منڈیاں لگتی ہیں اور وہاں سے مچھلی شہر کی مارکیٹوں میں آتی ہے۔ کراچی میں 50 سے زائد اقسام کی مچھلی زیادہ فروخت ہوتی ہے۔ ہیرا مچھلی فشری میں 300 تا 400 روپے کلو ملتی ہے۔ جبکہ شہر میں دکانوں پر کچی اور فرائی 5 سو سے 6 سو روپے کلو فروخت ہوتی ہے۔ سارنگ مچھلی فشری میں تین سے ساڑھے تین سو روپے کلو ملتی ہے۔ شہر میں اسٹالز پر 4 سے ساڑھے 4 سو روپے کلو، جبکہ فرائی 5 سے 7 سو روپے کلو تک فروخت ہورہی ہے۔ دھوتر مچھلی فشری میں 4 سو تا 5 سو روپے کلو بک رہی ہے اور شہر میں دکاندار 6 سو سے ساڑھے 6 سو روپے بیچ رہے ہیں۔ جبکہ فرائی کا ریٹ 8 سو روپے کلو تک ہے۔ شارک کے بچے، منگرا اور مندرہ مچھلی زیادہ مہنگی ہے، جو زیادہ تر فنگر فش میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ فشری میں 7 سو سے 9 سو روپے کلو تک مل رہی ہے۔ شہر میں سرمئی، گولی، کالی پاپلیٹ، سفید پاپلیٹ، ددان، دندیا، مشکا، سول، بھنجھور، سوا، گوہر، پھاڑ، چھوڑی، سم، پٹن، کھکھا اور گرم سمیت دیگر اقسام کی مچھلی فروخت ہورہی ہے۔ گرمی ہو یا سردی کراچی میں مچھلی کی اقسام کے حساب سے سرکاری نرخ جاری نہیں کئے جاتے، جس کی وجہ سے مچھلی فروش من مانے ریٹ پر مچھلی فروخت کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق فوڈ انسپکٹر اور علاقے پولیس کچی اور تلی ہوئی مچھلی فروخت کرنے والوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔ سیزن میں سڑی ہوئی، باسی اور مضر صحت مچھلی بھی فروخت ہوجاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فشری سے ’’گند‘‘ مچھلی پولٹری فیڈ والوں کو بمشکل 9 روپے سے 11 روپے کلو فروخت ہوتی ہے۔ لیکن یہی مچھلی کچی آبادیوں میں من مانے ریٹ پر فروخت کردی جاتی ہے۔ ذرائع کے بقول ندی، نالوں اور جوہڑوں سے شکار کی گئی مچھلی بھی کراچی میں فروخت ہوتی ہے۔ کراچی، ٹھٹھہ اور بدین کے فش فارمز میں جو مچھلیاں مرجاتی ہیں، منافع خور تاجر ان کو ’’سی کیٹگری‘‘ کے طور پر فروخت کرتے ہیں۔ مردہ سڑی گلی، مضر صحت مچھلی فروخت کرنے والا ایک مافیا بھی کام کر رہا ہے، ان میں زیادہ تر باگڑی افراد ہیں، جو فٹ پاتھوں پر اور بازاروں میں ناقص مچھلیاں سستی فروخت کرتے ہیں۔ کچی آبادیوں میں اس نیٹ ورک کے 200 سے زائد اسٹالز لگتے ہیں۔ لیکن شہر میں ایسی مضر صحت مچھلیوں کی چیکنگ اور ان کی فروخت روکنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سردی کے سیزن میں غیر معیاری اور ناقص مچھلی بھی فروخت ہوتی ہے۔ شہری کچی یا فرائی مچھلی دیکھ بھال کر خریدیں۔ ناقص مچھلی معدے اور جگر پر فوری اثر انداز ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭