شہباز شریف کے مقتدر حلقوں سے رابطے استوار

0

نجم الحسن عارف
مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ لیگی صدر اور قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف مقتدر حلقوں کے ساتھ ایک مرتبہ پھر رابطوں میں ہیں۔ حالیہ آٹھ سے دس دنوں کے دوران سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی ایک سے زائد اہم ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔ تاہم تہمینہ درانی کے ذریعے این آر او کی باتیں محض باتیں ہی ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق شیخ رشید راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے پرانے کھلاڑی ہیں، اس لئے ان کا دعویٰ کلی طور پر غلط نہیں۔ البتہ انہوں نے تہمینہ درانی کا نام ایک آڑ کے طور پر استعمال کیا، تاکہ بننے والی نئی صورت حال اور رابطوں کا اظہار بھی ہو جائے اور ان کے ذرائع پر بھی حرف نہ آئے۔ لیگی ذرائع کے بقول سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک مرتبہ پہلے بھی میاں شہباز شریف کو مقتدر حلقوں سے رابطوں کی اجازت دی گئی تھی، اگرچہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ان کے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ اب بھی میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف کو مقتدر حلقوں کے ساتھ سلام و پیام اور رابطوں سے روکا نہیں ہے۔ البتہ میاں شہباز شریف کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی عجلت کا شکار نہ ہوں اور نہ ہی معاملات کو کسی حتمی صورت حال کی طرف لائیں۔ دوسری جانب اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقے موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔ یہی سبب ہے کہ شہباز شریف کو گرفتاری کے بعد سہولتیں دی گئی ہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق ان رابطوں کے نتیجے میں فوری نتائج نواز لیگ چاہتی ہے نہ اسے کوئی توقع ہے۔ اسے 24 دسمبر تک میاں نواز شریف کے بارے میں العزیزیہ اسٹیل کیس کے امکانی فیصلے سے قبل ان رابطوں کے نتائج کی کوئی توقع نہیں ہے۔
ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا میاں نواز شریف فی الحال فوری مفاہمت نہیں چاہتے، بلکہ کچھ وقت عمران حکومت کو ہر صورت دینا چاہتے ہیں، تاکہ اس کی اہلیت سے عوام اچھی طرح آگاہ ہو سکیں۔ ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کی یہ بھی کوشش ہے کہ معاملات میں اس وقت تک کسی حتمی فیصلے گریز کیا جائے جب تک مقتدار ادارے کی موجودہ قیادت کی الوداعی ملاقاتوں کی تیاری شروع نہیں ہوجاتی۔ تاکہ نواز لیگ کو دب کر فیصلے قبول کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔ ان ذرائع کے بقول جوں جوں وقت آگے جارہا ہے اور پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کا بھانڈا پھوٹ رہا ہے، عمران خان کو اقتدار میں لانے والوں کی پوزیشن بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس لئے لیگی قیادت عجلت میں فیصلے کرکے تحریک انصاف کی گرتی ہوئی پوزیشن یا ساکھ کو سنبھلنے کا موقع نہیں دینا چاہتی۔ دوسری جانب نواز لیگ کے ذرائع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میاں شہباز شریف کو نیب میں زیر حراست ہونے کے باوجود قومی اسمبلی میں آنے جانے سے لے کر تمام تر سیاسی سرگرمیوں کی کھلی اجازت بھی ہے اور منسٹرز کالونی میں قیام کا موقع دیا گیا ہے۔ یہ انہی رابطوں کے سبب ہوا ہے، کہ دونوں اطراف میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ رابطوں اور اعتماد کی فضا میں بہتری رہے۔ ان ذرائع کے مطابق میاں شہباز شریف نے اب قومی اسمبلی کے فلور پر نیب کے خلاف گفتگو سے بھی گریز کی حکمت عملی اختیار کرلی ہے۔ یہ بھی انہی وجوہات کے سبب ممکن ہوا کہ ان سے توقع کی گئی تھی کہ وہ نیب سے متعلق معاملات اور اپنے خلاف تحقیقات کو قومی اسمبلی میں زیر بحث نہیں لائیں گے۔ اس حوالے سے نواز لیگ کے ذرائع نے یہ بھی کہا کہ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے میں تاخیر کی وجہ بھی یہی بنی ہے کہ ان سے تقاضا کیا جا رہا تھا کہ وہ نیب کے بارے میں قومی اسمبلی میں لب کشائی نہیں کریں گے۔ لیکن خواجہ سعد رفیق اس پر تیار نہیں تھے۔ اب انہیں قومی اسمبلی کے اجلاس کے اختتامی مرحلے پر پروڈکشن آرڈر جاری کئے گئے ہیں، تاکہ پارلیمانی روایت بھی جاری رہے اور نیب کے بارے میں بھی زیادہ بات نہ کر سکیں۔
ذرائع کے مطابق لیگی قیادت اور پیپلز پارٹی دونوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ مقتدر ادارے کو ہدف بنانے سے گریز کریں، البتہ کسی ایک فرد کو نشانہ بنانے کی بات ہو تو اس کے فیصلوں پر تنقید کی جائے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی اس سلسلے میں لحاظ کرنے کی حمایت نہیں کرتے تھے۔ اسی لئے مولانا فضل الرحمان کی اے پی سی اور ممکنہ تحریک کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ ذرائع کے مطابق نواز لیگ کی قیادت سمجھتی ہے کہ مقتدر حلقوں میں قیادت کی تبدیلی سے حکمت عملی کی تبدیلی کا امکان بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس امکان کے بروئے کار آنے تک تحمل سے انتظار کرنا چاہتے۔
ایک سوال کے جواب میں اسلام آباد میں موجود ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں یہ بات ڈسکس ہو رہی ہے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے والے بھی اس کی عدم صلاحیتوں اور ناتجربہ کاری سے سخت مایوس ہیں۔ اس لئے انہیں ملک کو چلانے خصوصاً اگلے بجٹ سے پہلے ہی کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی خواہش ہے کہ موجودہ معاشی صورت حال مقتدر حلقوں کے لئے بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی پس منظر میں شہباز شریف کے ساتھ ایک مرتبہ پھر روابطہ کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے۔ ایک اور استفسار پر ان ذرائع نے کہا 24 دسمبر کو فیصلہ کیا آتا ہے، یہ کہنا تو مشکل ہے۔ تاہم میاں نواز شریف کے حامیوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جو گرفتاری کو میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کی مظلومیت کے تناظر میں دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ نیب عدالت سے سزا ہو بھی گئی تو اعلیٰ عدالتوں میں کلی نہ سہی، جزوی ریلیف کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ ادھر نواز لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح نواز لیگ مقتدر حلقوں کو اپنے ساتھ "INGAGE” رکھنے کی آرزو مند ہے۔ اسی طرح مقتدر حلقے بھی نواز لیگ کو "INGAGE” رکھنے کی ہی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہوں۔ تاکہ اب تک ناکام پی پی ٹی آئی حکومت کو بھی سخت اپوزیشن سے کچھ دیر محفوظ رکھا جاسکے۔ لیکن یہ طے ہے کہ دو طرفہ رابطے موجود ہیں اور فریقین اپنے اپنے پتے اور اپنا اپنا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق ان رابطوں میں قومی حکومت اور اسمبلی کے اندر سے تبدیلی کی بات بھی سامنے آئی ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کی خواہش ہے کہ ایک معلق پارلیمنٹ کی بنیاد پر کسی تبدیلی کے بجائے، نئے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آنے کی کوششش کی جائے۔ تاکہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی بلیک میلنگ سے محفوظ رہ کر کام کیا جا سکے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More