سانحہ ماڈل ٹائون کیس میں نواز شریف سے بھی تفتیش کا امکان

0

نجم الحسن عارف
سانحہ ماڈل ٹائون کی تحقیات کیلئے تیسری جوائنٹ انوسٹی گیشن کمیٹی پیر کے روز سے کام شروع کردے گی۔ جے آئی ٹی کے سربراہ اے ڈی خواجہ نے اسے عام تفتیش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کیلئے مخصوص قسم کے ٹرمز آف ریفرنس کی ضرورت نہیں۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی طرف سے اس جے آئی ٹی کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ امکان پیدا ہوا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں زخمی ہونے والوں، عینی شاہدین اور جاں بحق ہونے والے تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کے اہل کے علاوہ میاں نواز شریف سے بھی تفتیش ہوسکے گی۔ جبکہ پہلی دونوں جے آئی ٹیز نے سانحے کے متاثرین اور عینی شاہدین کو سرے سے سنا ہی نہیں تھا۔ جبکہ میاں نواز شریف، جن پر تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے وزیراعظم ہوتے ہوئے بطور خاص پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس کو تبدیل کرکے ان کی جگہ مشتاق سکھیرا کو ہنگامی طور پر پنجاب بھیجا تھا، تاکہ وہ ماڈل ٹائون میں آپریشن کر سکیں۔ لیکن اس سے پہلے نواز شریف کو کسی تحقیقاتی کمیٹی نے اس سلسلے میں شامل تفتیش نہیں کیا تھا۔ اب جبکہ مرکز اور پنجاب میں بھی نواز لیگ کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور نواز شریف جیل میں ہیں، تو امکان ہے کہ انہیں بھی شامل تفتیش کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اور سابق وزیر قانون پنجاب راناء ثنا اللہ بھی ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن کمیٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔ جبکہ سابق انسپکٹر جنرل پنجاب مشتاق احمد سکھیرا سمیت 114 اہلکاروں کے خلاف سانحہ ماڈل ٹائون کیس میں فرد جرم بھی عائد ہوچکی ہے۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گزشتہ برس پانچ دسمبر کو ایک لاجر بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جس پر صوبائی محکمہ داخلہ پنجاب نے عدالت عظمی کے اس حکم پر تین جنوری کو جے آئی ٹی کے نام فائنل کر کے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس جے آئی ٹی میں علامہ طاہر القادری کے مطالبے کے مطابق پنجاب پولیس سے کوئی افسر شامل نہیں کیا گیا ہے۔ طاہر القادری نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ جس طرح پہلی دونوں جے آئی ٹیز میں شامل پولیس آفیسرز نے پنجاب پولیس سے تعلق کے باعث اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کی کوشش کی اور سانحہ ماڈل ٹائون کے مبینہ اصل ذمہ داروں کو کلین چٹ دی، اب کی بار بھی اگر پنجاب پولیس کے افسران کو اس کمیٹی میں شامل کیا گیا تو غیر جانبدارانہ تحقیقات کا امکان نہیں ہو گا۔ اس مطالبے کے سبب محکمہ داخلہ پنجاب نے اس کمیٹی میں پنجاب پولیس کے کسی افسر کو نہیں لیا اور تمام پولیس افسر دوسرے صوبوں سے ہیں۔ جبکہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے علاوہ آئی بی کے نمائندے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس جے آئی ٹی کی سربراہی آئی جی موٹر وے پولیس اے ڈی خواجہ کو سونپی گئی ہے۔ دیگر ارکان میں آئی ایس آئی کے لیفٹیننٹ کرنل محمد عتیق الزمان، ایم آئی کے لیفٹیننٹ کرنل عرفان مرزا، ڈپٹی ڈی جی انٹیلی جنس بیورو محمد احمد کمال اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر گلگت بلتستان قمر رضا جسکانی شامل ہیں۔ مسلم لیگ کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر قا نون رانا ثنا اللہ نے شروع میں ایسی کسی کمیٹی کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ لیکن اب مسلم لیگ نواز کی طرف سے اس کمیٹی کے ساتھ تعاون کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ 17 جون 2014ء کو پیش آنے والے سانحہ ماڈل ٹائون کے محض چند ہفتے بعد ہی پہلی جے آئی ٹی صوبائی حکومت نے قائم کر دی تھی۔ اس کمیٹی کا سربراہ ڈاکٹر مشتاق عارف کو مقرر کیا گیا۔ لیکن اس کمیٹی میں کسی بھی عینی شاہد اور سانحے کے متاثرہ شخص کو سنا نہیں گیا تھا۔ اس حوالے سے عوامی تحریک کے ترجمان نور اللہ صدیقی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اس کمیٹی نے تو فائلوں اور ریکارڈ کی ضرورت کیلئے متاثرین سانحہ اور عینی شاہدین کو نوٹس بھی جاری کیے، لیکن یہ نوٹس کسی متعلقہ فرد کو مل ہی نہ سکے۔ نتیجتاً کمیٹی نے یکطرفہ طور پر رپورٹ مرتب کرلی۔ ان کے بقول ماہ اگست میں رپورٹ تو مکمل ہو گئی مگر عوامی تحریک کی طرف سے تیار کردہ تقریباً ایک سو عینی شاہدین اور متاثرین کی فہرست میں سے کسی ایک کو بھی نہیں سنا گیا۔ الٹا جن لوگوں کو کمیٹی نے سننا تھا، ان کے خلاف مزید مقدمات درج کرا دیئے گئے۔ نوراللہ صدیقی کے مطابق دوسری جے آئی ٹی پولیس افسر عبدالرزاق چیمہ کی قیادت میں بنائی گئی۔ اس نے میاں شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ خان کو سنا، مگر انہیں کلین چٹ دیدی۔ وجہ صاف تھی کہ کوئی بھی ایسا افسر، جس کی ملازمت کا بیشتر وقت پنجاب میں گزرا ہو، وہ کیونکر شریف برادران کے خلاف انکوائری اور تحقیقات کرسکتا ہے۔ لیکن اب امید پیدا ہوئی ہے کہ غیر جانبدارانہ تحقیقات ممکن ہو سکے گی۔ نور اللہ صدیقی کے بقول ان گواہان اور متاثرین یا ان کے عزیزوں کے علاوہ جن اہم شخصیات کو جے آئی ٹی بلاکر غیر جانبدارانہ تحقیات کر سکے گی، ان میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بھی شامل ہوں گے۔ اسی طرح شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ سمیت پولیس کے اعلی افسران بھی باقاعدہ تفتیش سے گزر سکیں گے۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں جے آئی ٹی کے سربراہ اے ڈی خواجہ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا ’’ہماری کمیٹی انشااللہ پیر کے روز اپنا پہلا اجلاس کرے گی۔ اس کے بعد ہی کوئی بات کر سکوں گا‘‘۔ کمیٹی کے ممکنہ ٹی او آرز کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’ٹی او آرز کا کیا مطلب۔ یہ ایک تفتیش ہے، اسے تفتیش کے طور پر ہی دیکھا جائیگا‘‘۔ ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن بار بار فون کرنے کے باوجود فون اٹینڈ نہ ہو سکا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More