خدا کی لاٹھی (آخری حصہ)

0

ڈیڑھ گھنٹے کی جدوجہد کے بعد شافع کو باڑہ مارکیٹ کے کچرا کنڈی پر ایک بوری نظر آئی، وہ تڑپ کر آگے بڑھا۔ بوری میں بڑا سوراخ تھا۔ جس میں پانی بھرا ہوا تھا۔ مگر اسی سوراخ سے دبی دبی میائوں میائوں کی معصوم سی آوازیں ان کی زندگی کی نوید سنا رہی تھیں۔ شافع نے گیلی بوری کو اٹھا کر بڑی آہستگی سے اس میں سے پانی نکالا، جو برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ پانی بوری میں سے نکال کر اس نے اس بوری کو اتنے پیارے سے سینے سے لگایا جیسے اس کی کل کائنات اس میں محفوظ ہو۔ بوری میں ہاتھ ڈال کر اس نے تینوں بچوں کو ٹٹولا۔ تینوں بچوں کو محفوظ پا کر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ بوری کو سینے سے لگائے، وہ اسی طرح درود شریف چاروں قل اور آیۃ الکرسی پڑھتا ہوا آہستہ آہستہ اپنے فلیٹ تک پہنچ گیا۔ بلی اسی طرح تڑپ تڑپ کر اوپر سے نچے چکر لگا رہی تھی۔ سامعہ فلیٹ کے دروازے پر بیٹھی مسلسل رو رہی تھی۔ وہ کبھی اندر جا کر فرش پر سوئے ہوئے اپنے تینوں بچوں پر کمبل اور لحاف کو اچھی طرح لپیٹ دیتی۔ پھر باہر آکر شافع کا انتظار کرنے لگتی۔ اس کی بے قراری بھی بلی کی بے قراری سے کم نہ تھی۔ دل ہی دل میں جتنی سورتیں اور آیتیں یاد تھیں، وہ دہرا رہی تھی۔ اچانک بلی تیزی سے نیچے سے بھاگتی ہوئی آئی اور سامعہ کی گود میں آکر بیٹھ گئی۔ جیسے اس کے دل میں اطمینان سا آگیا ہو۔ شافع بوری کو سینے سے لگائے آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر آیا اسے دیکھ کر سامعہ بلی کو سینے سے لگا کر تڑپ کر کھڑی ہو گئی۔
’’بچے مل گئے۔‘‘ اس نے بے چین سے پوچھا۔
’’ہاں، مگر انہیں گرمی کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ شافع نے بلی اور بوری دونوں کو اندر فلیٹ میں لے جاکر رکھ دیا۔ یہ دیکھے بغیر کہ چھوٹا سا فلیٹ ان جانوروں کے لیے مکان ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں، ان کو سردی سے بچانے کے لیے اس نے اسٹور میں رکھے ہوئے میلے کپڑوں کا بڑا سا ڈھیر بچوں کے نیچے جمع کر دیا۔ ایک ایک بچے کو بوری سے نکال کر خشک کرتا گیا اور بلی کے قریب لٹاتا گیا۔ تینوں بچوں کو دیکھ کر ماں کی چیختی چنگھاڑتی آواز ممتا کے پیارے سروں میں بدل گئی۔ وہ ایک ایک بچے کو اپنی زبان سے چاٹ چاٹ کر ان کے زندہ ہونے کا احساس کررہی تھی۔ ممتا کے پیار نے بچوں کو جلدی گرما دیا اور وہ ماں کے سینے سے اپنی غذا کشید کرتے کرتے جلد ہی سو گئے۔ شافع نے اپنی بھیگی ہوئی پلاسٹک کی تھیلی اتار کر جھاڑی۔ سامعہ نے اس کے لیے تیزی سے کپڑے نکالے، تاکہ وہ خشک کپڑے بدل لے۔ جتنی دیر میں شافع نے کپڑے بدلے اتنی دیر میں موم بتی جلا کر سامعہ نے اس کے لیے گرم کافی اور ایک انڈا ابال کر دیا۔ بلی اور اس کے بچے انہی کپڑوں کے ڈھیر پر بے خبر سو گئے۔ سامعہ نے اپنا پرانا کمبل دہرا کر کے ان سب پر ڈال دیا اور خود بھی اپنے بچوں کے پاس آکر لیٹ گئی۔ فجر میں کچھ دیر باقی تھی۔ اس لیے اسے یہ لیٹنا اچھا نہ لگا۔ تہجد کی نماز ادا کر کے شکرانے کے دو نفل ادا کئے۔ مسجد میں فجر کی اذان شروع ہو چکی تھی۔ نماز پڑھ کر اس نے بلی کو آکر جھانکا۔ بلی کے منہ پر سے کمبل اٹھایا تو وہ چونک کر غرائی۔ شاید خوف زدہ تھی۔ سامعہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دوبارہ کمبل اٹھا دیا اور خود ناشتے کی تیاری میں مصروف ہو گئی۔ ابھی صبح ہونے ہی والی تھی۔ بارش کا زور ٹوٹ چکا تھا، مگر شدید سردی کی وجہ سے اس کا ارادہ بچوں کو اسکول بھیجنے کا نہ تھا۔ لائٹ بھی نہیں تھی، جس کی وجہ سے ٹی وی سے چھٹی کا انائونسمنٹ سن سکتی۔
کوئٹہ کی برف باری سے کراچی کا موسم وابستہ ہے۔ وہاں سردی ہوتی ہے تو کراچی بھی ٹھنڈک کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ چنانچہ کوئٹہ کی برف باری تھمی تو کراچی میں بھی چمکتے سورج نے حسن دوبالا کیا۔ شہری حکومت تو ہمیشہ کی طرح اپنی کارکردگی میں صفر رہی۔ انڈرپاس میں بھرا ہوا متعفن زدہ پانی صاف نہ کیا جا سکا۔
کراچی والے بے چارے اسی لیے بارش کی دعائیں نہیں کرتے، کیونکہ اس باران رحمت سے ان کو شہری حکومت جن جن اذیتوں میں مبتلا رکھتی ہے، وہ ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، ٹوٹی ہوئی سڑکیں، ان سڑکوں پر جمع پانی، دفاتر جانے والوں کے لیے سفر کئی کئی گھنٹوں پر محیط ہو جاتا ہے اور ان سڑکوں پر آئے دن کے حادثات بے انتہا تکلیف دہ ہوتے ہیں۔
سامعہ نے اپنی بلی اور اس کے بچوں کو گیلری میں تختہ لگا کر چھوٹا سا کونہ ان کے لیے محفوظ گھر بنا دیا، اب بچے اسی منی سی تین فٹ کی گیلری میں پلنے لگے۔ طوطوں کے پنجرے، کبوتروں کا باجرہ اور پانی کی کٹوری بھی اسی گیلری میں تھی۔ مگر نہ تو بلی اور اس کے بچے طوطوں پر بری نظر ڈالتے، نہ کبوتر باجرہ کھانے اور پانی پینے میں بلی کی موجودگی میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس کرتے۔ ایک ہی گھاٹ پر سب پانی پیتے اور اس گیلری میں خوشی ہلورے لیتے، کیونکہ سامعہ اور شافع کے بچے بھی اپنے والدین کی طرح ان تمام جانوروں سے محبت کرتے تھے، بلی بھی اس حادثے کے بعد سمجھ دار ہو گئی تھی کہ جب اسے حاجت محسوس ہوتی، وہ اپنے بچوں کے ساتھ نیچے اتر جاتی اور تھوڑی دیر میں واپس آجاتی۔ کبھی انہوں نے گھر کے کسی کونے کو آلودہ یا ناپاک نہیں کیا۔
سامعہ نے راہداری کی دیوار سے لگائے ہوئے سارے گملے کریم الدین کی طرف سے ہٹا کر اپنے دروازے پر رکھ لیے تھے۔ حالانکہ جگہ بہت کم تھی، مگر جھگڑے فساد سے بچنے کے لیے اس کو یہ قدم اٹھانا پڑا۔ موسم میں تبدیلی آچکی تھی۔ کریم الدین اب بھی دفتر جاتے ہوئے سیڑھیوں پر انتظار میں کھڑے سامعہ کے بچوں کو پیار کرتا ہوا جاتا۔ بچے بھی کریم انکل کے پیار کا جواب مسکرا کر دیتے۔ اس دن بھی بچے اپنی گاڑی کے انتظار میں سیڑھیوں پر کھڑے تھے کہ کریم الدین اپنے دروازے سے نکلا، بچوں کو پیار کیا اور تیزی سے سیڑھیاں اترتا چلا گیا۔ ماں نے تیزی سے آواز دی: ’’بیٹا ناشتہ تو کر لے۔‘‘
’’امی آج مجھے بہت دیر ہو گئی ہے۔ ایک گھنٹے کا راستہ ہے۔ ناشتہ کرنے میں اور دیر ہو جائے گی۔ دفتر میں کچھ کھالوں گا۔‘‘ اس نے نیچے جا کر اپنی موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور تیزی سے نکل گیا۔ تقریباً صبح کے دس بجے تھے کہ کریم الدین کے گھر سے ایک نسوانی چیخ سنائی دی اور وہ چیخ اتنی دردناک تھی کہ اوپر سے نیچے ہر فلور کے فلیٹ کے دروازے خود بخود کھلتے چلے گئے۔ ہر فلیٹ کا مکین تھرڈ فلور پر دوڑ پڑا۔ یہ کریم الدین کی ماں کی آواز تھی، جو دردناک
آواز میں بین کر رہی تھی: ’’نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ وہ بری طرح چیخ رہی تھی۔ سامعہ سب سے پہلے دوڑ کر ان کے پاس پہنچی: ’’آنٹی کیا ہوا؟ آپ کیوں رو رہی ہیں؟‘‘
کریم الدین کی ماں نے بھیانک چیخ ماری: ’’میرا کریم، میرا بیٹا!‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ سب خواتین گھبرا گئیں، جو آس پاس اور اوپر نیچے کے فلیٹوں سے جمع ہوئی تھیں۔
’’میرے کریم کو بس نے کچل دیا، ہائے میں کیا کروں۔‘‘
’’آپ کو کس نے بتایا؟‘‘ ایک خاتون نے پوچھا۔
’’اس کے موبائل سے کسی نے اطلاع دی ہے۔ دفتر کے قریب اس کے اسکوٹر کو بس نے ٹکر مار دی۔ وہ نیچے گرا تو اس کو وہی بس کچلتی ہوئی گزر گئی۔ ہائے میرا بچہ۔‘‘ وہ راہداری میں بیٹھی اپنے آپ کو پیٹ رہی تھی۔ سر جھاڑ منہ پہاڑ نہ دوپٹے کا ہوش۔ کبھی بے قرار ہو کر اٹھتی، سیڑھیوں سے تیزی سے نیچے اتر جاتی، پھر عورتیں پکڑ کر لاتیں تو دیواروں سے سر ٹکرانے لگتی۔ اس کی بے قراری اور نالہ و فریاد پر ہر عورت رو رہی تھی۔ سامعہ کا تو برا حال تھا۔ اسے رہ رہ کر بلی کی وہی کیفیت یاد آرہی تھی، جو اس کے بچوں کے بچھڑنے پر تھی۔ وہ بار بار کریم کی ماں کو سینے سے لگانے کی کوشش کرتی، مگر ماں کی بے قراری اور بڑھ جاتی۔
تین بجے سہ پہر کو کریم کی میت ایمبولینس میں آئی تو اس کے چہرے اور سر کی ہڈیاں چورا چورا ہو چکی تھیں۔ پورا جسم چہرے سمیت پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ ماں کی چیخیں زمین آسمان ہلا رہی تھیں۔ وہ بار بار اپنے بیٹے کی میت کو چھوتی اور پھر چیخ مارتی۔ اے خدا مجھے معاف کر دے۔ مجھے معاف کر دے۔ سامعہ کے دروازے کی لوہے کی گرل کے پیچھے بیٹھی بلی اور اس کے تینوں بچے کریم کی ماں کی بے قراری کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ شاید انہیں بھی یہ اطمینان تھا کہ ممتا کی فریاد سننے والے رب نے ان کی فریاد سن لی۔ بلی اپنی زبان سے ہر ہر بچے کو چاٹ کر اپنی محبت اور چاہت کا اظہار کر رہی تھی۔ جنازہ اٹھنے پر بلی دروازے سے باہر نکلی اور کریم کی ماں کے ساتھ تیزی سے سیڑھیاں اتر گئی۔ جو اپنے بیٹے کے جنازے کے ساتھ بے قراری سے جانا چاہتی تھی۔ اب کریم کی ماں کی چیخوں کے ساتھ بلی کی دردناک آواز بھی شامل تھی، جو اس کے غم میں برابر کی شریک تھی۔ اس کی بھی آنکھیں اسی طرح برس رہی تھیں، جس طرح آپا زیب النساء رو رہی تھیں۔ زیب النساء نے جو بے زبان ممتا پر ظلم ڈھایا تھا، وہی بے زبان ممتا آج ظالم کے دکھ میں پوری طرح شریک تھی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More