یورپ کے کلیسا فروخت کے لئے پیش کردیئے گئے

0

ضیاء الرحمٰن چترالی
گزشتہ چند روز کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں مسیحی عبادت خانوں کی فروخت کے کئی اشتہار شائع ہوئے ہیں۔ جس سے ایک مرتبہ پھر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیا دنیا کے سب سے بڑے مذہب ہونے کی دعویدار عیسائیت اپنا وجود کھو رہی ہے یا اس کے وابستگان کا مذہب سے لگائو برائے نام رہ گیا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یورپ میں رجسٹرڈ گرجا گھروں کی تعداد 60 ہزار ہے، جن میں سے صرف 4 ہزار میں باقاعدہ عبادت ہوتی ہے، باقی 56 ہزار کلیسے بھوت محل بنے ہوئے ہیں، جن کے تالے پورے سال نہیں کھلتے۔ اب گرجا گھروں کو دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ بعض گرجے خنزیروں کے فارم اور گھوڑوں کے اصطبل میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جبکہ ان سابقہ گرجوں کو تجارتی مراکز، ہوٹل سمیت دیگر کئی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ اس حوالے سے ہالینڈ سرفہرست ہے۔ ہالینڈ میں گرجا گھروں کی کل تعداد 1600 ہے۔ مذہبی قیادت کا کہنا ہے کہ اگلے دس برسوں کے دوران ان میں سے دو تہائی بند ہو جائیں گے۔ چار برسوں میں ہالینڈ کے پروٹسٹنٹ فرقے کے چار سو چرچ بند ہوچکے ہیں۔ یہی حال امریکہ کا بھی ہے کہ جہاں ہر سال اوسطاً 20 گرجا گھر بند ہو رہے ہیں۔ برطانیہ میں کرسچن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1960ء کے بعد اب تک 10 ہزار گرجا گھر بند ہو چکے ہیں اور 2020ء تک مزید 4 ہزار گرجا گھر بند ہو جائیں گے۔ ڈنمارک کی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیاہے کہ 2015ء کے بعد ایک سال میں 200 چرچ بند ہوئے، جبکہ جرمنی میں حالیہ چند برسوں کے دوران 515 گرجا گھروں کو تالے لگائے گئے۔ گزشتہ دنوں فرانس کے مشہور اور تاریخی چرچ St. Jules Catholic کو بھی فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ چرچ رانس شہر میں واقع ہے، جسے 22 جنوری کو نیلام میں فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا۔ تاہم چرچ کے نئے مالک کے لیے یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ وہ اس چرچ کو کسی اور مقام پر منتقل کرے گا۔ فروخت کے عمل کی نگرانی کرنے والے فلپ رویاک کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی چرچ کو نیلام میں فروخت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ رویاک کے مطابق ابتدائی قیمت صرف 5000 یورو ہوگی۔ اس چرچ کو 1890ء سے 1892ء کے درمیان تعمیر کیا گیا۔ چرچ کا موجودہ مالک اس کی مرمت اور تزئین کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہے۔ جبکہ ڈنمارک کی چرچ انتظامیہ نے بھی خالی پڑے 10 عبادت خانوں کو بیچنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈنمارک میں عیسائیوں کی تعداد 82 فیصد ہے، جن میں سے صرف 8 فیصد چرچ آتے ہیں۔ چرچ انتظامیہ کے جنرل سیکریٹری کائی بولمان کا کہنا ہے کہ جب لوگ عبادت کیلئے نہ آئیں تو مناسب ہے کہ چرچوں میں خنزیر پالے جائیں اور انہیں گھوڑوں کا اصطبل بنایا جائے۔ چرچوں کی فروخت کے اشتہار میں یہ نوٹ بھی واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’ناٹ فار مسلمز‘‘۔ یعنی مسلمان یہ عبادت خانے نہیں خرید سکتے۔ ڈنمارک کے مذہبی پیشوائوں کا کہنا ہے کہ انہیں مسلمانوں کو اس لئے نہیں بیچ سکتے، کیونکہ وہ انہیں خرید کر مساجد میں تبدیل کر دیں گے۔ الجزیرہ نے ایک جرمن ٹی وی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ مسیحیت کا اپنے پیرکاروں کو روحانی تسکین دینے سے تہی دست ہونا ہے۔ وہ قلبی سکون اور روحانی غذا کے حصول کیلئے چرچ آتے ہیں، مگر وہاں یہ گوہر ناپید ہے۔ فرانسیسی عیسائیوں کی نسبت آئرش عیسائی زیادہ مذہبی ہیں، جو 49 فیصد ہفتہ وار چرچ میں حاضری دیتے ہیں۔ ان کی نسبت اطالوی کم مذہبی ہیں، مگر اس کے باوجود اٹلی میں 39 فیصد عیسائی گرجا گھروں میں جاتے ہیں۔ اسی طرح اسپین میں 25، برطانیہ میں 21، جرمنی میں 11 اور ڈنمارک میں 6 فیصد لوگ چرچوں میں جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یورپ کے علاوہ آسٹریلیا میں بھی یہی حال ہے۔ گزشتہ دنوں آسٹریلیا میں رئیل اسٹیٹ کا کام کرنے والی ایک کمپنی نے ’’55 گرجا گھر برائے فروخت‘‘ کا اشتہار اپنی ویب سائٹ پر چلایا تو سوشل میڈیا میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی۔ جب چرچ انتظامیہ سے پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ وہ ان بے مصرف پڑی عمارتوں کو بیچ کر ان بچوں کو معاوضہ ادا کریں گے اور ان کا علاج کریں گے، جنہیں چرچوں میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کلیسائوں کی فروخت سے بیس ملین ڈالر حاصل ہوں گے۔ بکنے والے گرجا گھروں میں Saint Martinez نامی مشہور چرچ بھی شامل ہے۔ آسٹریلیا میں چرچوں کی تعداد تین ہزار ہے۔ جبکہ صرف بیس فیصد مسیحی کبھی ان کا رخ کرتے ہیں۔ العربیہ کے مطابق عراق میں بھی مسیحی عبادت گاہوں کا برا حال ہے۔ عراق کو مختلف قدیم تہذیبوں کا مرکز کہا جاتا ہے۔ ملک میں بڑی تعداد میں عیسائی آباد ہیں اور ان کے صدیوں پرانے گرجا گھر موجود ہیں۔ مگر اب عیسائیوں کے گرجا اور عبادت گاہیں اپنا وجود کھو رہی ہیں۔ عراق کے گرجا گھر ویران ہونے کے بعد دکانوں اور تجارتی مراکز میں بدل رہے ہیں۔ بہت سے گرجا گھروں کو سرمایہ کاری، فروخت اور کاروبار کے لیے کھولا جا رہا ہے۔ عراق کے سابق عیسائی رکن پارلیمنٹ جوزف صلیوا کا کہنا ہے کہ مسیحی وقف بورڈ اور پادری دونوں عراق میں گرجا گھروں کی فروخت اور انہیں تباہ کرنے میں ملوث ہیں۔ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں صلیوا کا کہنا تھا کہ بغداد میں شورجہ کے مقام پر واقع کیتھولک سریانہ چرچ کو کاروباری مراکز کے لیے فروخت کیا جا رہا ہے۔ ایسا کرنا خلاف قانون اور مسیحی وقف بورڈ کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہ گرجا گھر کسی دوسری املاک میں بدلا تو جا سکتا ہے، مگر اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں صلیوا کا کہنا تھا کہ مسیحی وقف بورڈ کے زیر انتظام بہت سی املاک کو فروخت کیا گیا، مگر کوئی نہیں جانتا کہ ان سے حاصل ہونے والی رقم کہاں گئی۔ اس رقم کا گم ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وقف بورڈ اور پادری دونوں کرپشن میں ملوث ہیں۔ عراق میں عیسائی برادری کا کہنا ہے کہ وہ ایک عشرے سے قتل، اغوا، جبری ہجرت اور کئی دوسرے جنگی حربوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ عرصہ داعش کے تسلط کے دوران دیکھا، جب نینویٰ صوبے کے عیسائیوں کو بدترین مظالم اٹھانا پڑے۔ اس سے قبل القاعدہ کے ہاتھوں بھی عراق کے عیسائیوں بالخصوص بغداد، بصرہ اور بابل میں عیسائیوں کو خون ریز انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جوزف صلیوا نے گرجا گھروں کی خرید و فروخت پر حکومت کی مجرمانہ خاموشی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق کے دارالحکومت بغداد سمیت کئی دوسرے شہروں میں کئی گرجا گھروں کو فروخت کر دیا گیا۔ خرید و فروخت کے اس حربے میں مذہبی رہنما اور سرکردہ کیتھولک پادری لوس ساکو سمیت کئی دوسرے اہم مذہبی لیڈروں کا ہاتھ ہے، جنہوں نے گرجا گھروں کی خرید و فروخت میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔ خیال رہے کہ الشورجہ کے مقام پر کیتھولک چرچ 1834ء میں قائم کیا گیا تھا۔ حال ہی میں اسے تجارتی مرکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب وہاں لوگ عبادت کے لیے نہیں، بلکہ خرید وفروخت کے لیے آتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مختلف ممالک میں بکنے والے گرجا گھروں کو مسلمان بڑھ چڑھ کر خرید رہے ہیں، تاکہ انہیں مساجد میں تبدیل کر دیا جائے۔ اٹلی کا شہر وینس یورپ کے ان شہروں میں سے ایک مانا جاتا تھا، جہاں مسلمانوں کو نماز کے لیے مناسب مقام دستیاب نہیں تھا۔ تاہم اب پانی کے اوپر بسے اس شہر میں ایک سابق کیتھولک چرچ کو مسجد کی شکل دی گئی ہے۔ کیتھولک چرچ سانتا ماریا ڈیل ابازیہ ڈیلا میسریکورڈیا کی 10 ویں صدی کی عمارت کو مسلمانوں نے خرید کر مسلمان بنا دیا ہے۔ یہ چرچ گزشتہ چالیس برسوں سے بند پڑا تھا۔ جرمنی میں ’’ڈور تمونڈ یوھانس‘‘ نامی مشہور چرچ کو ترک اسلامی یونین خرید کر اسے ’’جامع مسجد ڈور تمونڈ‘‘ کا نام دیا۔ 700 مربع میٹر رقبے پر مشتمل اس مسجد میں 1500 افراد با جماعت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ 2012ء میں کویت کے تعاون سے جرمن ریاست ہیمرگ کے ’’کابیر نایوم‘‘ مسلمانوں نے خرید کر مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More