قمر زمانی کی ایک جھلک دیکھنے دلگیر بریلی پہنچ گئے

0

ترتیب و پیشکش/ ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی نے دلگیر کو ایک مفصل خط نو دسمبر کو روانہ کر دیا تھا، لیکن یہ خط دلگیر کو بارہ دسمبر کو ملا۔ قمر زمانی کا خط مکتوبہ 9 دسمبر دیکھتے چلئے۔
بریلی9 دسمبر 1916کرتے ہیں جور و جفا، مہر و فا کہتے ہیںیہ بھی کیا لوگ ہیں کیا کرتے ہیں کیا کہتے ہیںدلگیر: اے سبحان اللہ، اپ دلگیر ہو کے دلنواز نہیں بنتے ہیں اور دلنوازی پر مجھ سے شرم و حجاب کی شکایت ہے۔ کاش، آپ میری جگہ ہوتے اور میں آپ سے پوچھ سکتی خیر…
حد چاہئے سزا میں ، عقوبت کے واسطےآخر گناہ گار ہوں، کافر نہیں ہوں میںچلئے آپ سچے میں جھوٹی، اقرار جرم پھر دلگیر کے سامنے، میں اس پر کیوں نہ ناز کروں۔ آپ کی بے مہری کی شکایت اور میرے لب سے، توبہ توبہ، کیونکر ممکن ہے۔ خوب کیا جو کچھ کیا، اگر قسمت میں ملنا لکھا ہے تو پوچھوں گی اور پوچھ لوں گی کہ قصور کس کا تھا اور گناہ گار کون تھا۔ اپنی مجبوریوں کو کوستی ہوں کہ اطمینان سے خط لکھنا نہیں نصیب ہوتا۔ اول تو مجھ دل گرفتہ کے لئے میری تباہیاں ہی کچھ کم نہیں۔ اس پر رسوائی کا خوف اور گھر بھر کا ڈر کیونکر لکھوں۔ صبر کرتی ہوں۔ کبھی تو اس صبر کی داد ملے گی۔ دیکھئے کوشش کر رہی ہوں کہ آپ سے آخیر دسمبر میں دلی میں ملاقات کی صورت نکل آئے۔ موقع اچھا ہے۔ کانفرنس میں ہمارے یہاں کے لوگ سبھی جاتے ہیں۔ اگرچہ آپ، وہاں جانے سے محروم جائوں گی، تو پھر مجھ سے شکایت ہوگی۔ مگر قیامت تو یہ ہے کہ سوائے اس کے اور تدبیر تو سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ تشریف لایئے گا تو کنیز پر اور احسان ہو گا۔ آخر عبادت بھی تو فرض ہے۔ دیکھئے میں نے کس یقین سے سمجھ لیا کہ آپ ضرور تشریف لائیں گے…
تم یہاں آ کر تو دیکھو ہجر میں کیا حال ہےدل کے ہاتھوں آج سو سو حشر ہیں ٹوٹے ہوئےماشاء اللہ خدا نظر بد سے بچائے، کیا پیاری تحریر ہے اور کیا بے ساختہ انداز ہے، کیوں نہ رشک کروں، مگر میں کیوں رشک کروں۔ آخرکار۔ آپ کی قابلیت میری اپنی قابلیت نہیں…
مجھ میں اتنا سما کہ تو نہ رہے اور پھر کوئی گفتگو نہ رہےخیر درد ظاہر کرنے کے لئے میری قابلیت بھی بری نہیں۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہیں دیکھئے جو اثر ہو…
فریاد کی کوئی لے نہیں ہےنالہ پابند نے نہیں ہےمیں پھر کہتی ہوں اگر میری شرم نے آپ کو دلگیر بنا دیا ہے تو بلا سے مجھ پر کچھ ہی گزرے، میں حضور کے حکم کی تعمیل کروں گی اور ضرور کروں گی۔
یہاں تنہائی میں جی بہت گھبراتا ہے، کتابیں بھی ساتھ نہیں لا سکی۔ اگر زحمت نہ ہو تو نقاد کے سارے پرچے بھیج دیجئے۔ اس پر پتہ صرف لفافے کا ہونا چاہئے، میرے نام کی ضرورت نہیں۔
خطا وار(ق ۔ ز)دلگیر نے غالباً اسی خط کے جواب میں اپنا خط قمر زمانی کے نام اس طور پر روانہ کیا:
لکھنئو 26 دسمبر 1916ءسرکار، تحفہ نیاز، آپ کا روح نامہ مجھے 24 دسمبر کو ملا تھا، جس کا جواب اسی روز لکھ کر خود ڈاک میں ڈالا تھا۔ غالباً نظر کیمیا اثر سے گزرا ہوگا۔
میں کل 25 دسمبر کو لکھنؤ پہنچا اور بڑے دن کی تعطیل ڈاک خانہ میں نہ ہوتی تو کل یہ خط پوسٹ کر دیتا۔ آج سب سے پہلے یہ خط لکھ رہا ہوں اور اپنے خط کے جواب کا نہایت شوق اور بے صبری سے منتظر ہوں۔ خدا کے لئے جلد روانہ فرمایئے۔ میں یہاں 30 دسمبر تک جواب کے انتظار میں قیام کروں گا۔
اپنا پتہ خط میں لکھ دیا ہے۔ اب پھر لکھتا ہوں، ممکن ہے میرا پہلا خط نہ ملا ہو۔ اس لئے مختصراً پھر لکھتا ہوں کہ میں یہاں سے پہلی یا دوسری جنوری کو صرف ’’آستان بوسی‘‘ کے لئے بریلی آنا چاہتا ہوں اور میں ضرور آئوں گا۔ اگر آپ چند منٹ کے لئے مجھ سے مل سکتی ہوں تو اس کی تدبیر بتایئے اور مجھے مفصل لکھئے، ورنہ میں یہ کروں گا کہ بریلی حاضر ہو کے کسی جگہ مقیم رہوں اور آپ کے بھائی صاحب سے ملنے کے لئے در دولت پر آئوں اور طواف خانہ کر کے ناکام و نامراد لوٹ آئوں۔
اب جلانا یا مارنا صرف آپ کے اختیار میں ہے۔ اگر در دولت کی حاضری میں کچھ رسوائی کا اندیشہ غالب ہو تو فوراً مطلع فرمایئے، ورنہ میں ضرور چوکھٹ کو سلام کرنے آئوں گا۔
’’ میرا پتہ،دفتر دلگداز، کڑہ بزن بیگ خان لکھنئومعرفت مولیٰنا عبدالحلیم صاحب شرربجز اشتیاق قدم بوسی اور کیا لکھوں …
منتظر جوابآپ کا’’دل‘‘دلگیر نے یہ خط لکھنؤ سے پوسٹ کیا تھا۔ دو تین دن جواب کا انتظار کیا۔ آخر قمر زمانی سے ملنے کے لئے لکھنؤ سے بے تابانہ بریلی کو روانہ ہوگئے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More