بورڈنگ کارڈ ہاتھ میں آتے ہی سیلانی نے سکھ کا سانس لیا، اس کی پرواز چھوٹتے چھوٹتے بچی تھی۔ پی آئی اے نے آٹھ بجے اسلام آباد ایئر پورٹ سے فضا میں چھلانگ لگانی تھی اور سیلانی بمشکل بیس منٹ پہلے پی آئی اے کے کاؤنٹر پر پہنچا تھا۔ کاؤنٹر بس بند ہونے کو تھا، بمشکل اس کے ہاتھ میں بورڈنگ کارڈ آیا، جس کے بعد ہی اس کی دھڑکنیں اعتدال پر آئیں۔ اب جب اس کی پرواز بھی یقینی ہوگئی تو اس نے آس پاس کا جائزہ لیا اور اسی جائزے میں اسے زرد پگڑی والا دراز قامت سردار جی دکھائی دیا۔ سکھ مت کے ماننے والے اپنی وضع قطع سے ہجوم میں بھی پہچانے جاتے ہیں۔ وہ زرد پگڑی والا نوجوان ایک کرسی پر بیٹھا اپنے سیل فون کے ساتھ مصروف تھا۔ وہ سیلانی کو کچھ شناسا شناسا لگا۔ سیلانی اسے دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ اس نے سردار جی کو کہاں دیکھا ہے۔ وہ ذہن پر زور دینے لگا، لیکن یاد نہیں آرہا تھا۔ ایسی سچویشن میں سیلانی کو بڑی کوفت ہوتی ہے۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی، لیکن کوشش ناکام رہی۔ ادھر سردار جی کو بھی احساس ہو گیا کہ وہ کسی کی نظروں کے ریڈار میں ہے۔ دونوں کی آنکھیں ملیں اور پھر سیلانی کی نظریں سردار جی کی داڑھی سے پھسل کر گود میں رکھے کیمرے کے بیگ پر پہنچیں تو ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ اسے یاد آگیا کہ یہ کینیڈین شہری لکبیر سنگھ ہے، جس سے سیلانی کی ملاقات پشاور کی مسجد مہابت خان میں ہوئی تھی۔ ادھر سردار جی کے لبوں پر بھی مسکراہٹ تھی، لیکن اس میں شناسائی کے رنگ نہ تھے۔ سیلانی اس بے رنگ مسکراہٹ میں رنگ بھرنے کے لئے اس کے پاس چلا آیا۔
’’لکبیر سنگھ؟‘‘ سیلانی نے مسکراتے ہوئے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
ایک اجنبی کی زبان سے اپنا نام سن کر لکبیر سنگھ کچھ حیران اور پریشان سا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔
’’ہم پشاور میں مل چکے ہیں، یاد آیا مسجد مہابت خان…‘‘
’’اوہ، یس اوہ یس…‘‘ سردار جی کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی، ساتھ ہی سیلانی کے ہاتھ پر سردار جی کی گرفت بھی مضبوط ہو گئی۔ اسی وقت مسافروں میں ہلچل سی مچی۔ یہ بے ترتیب ہلچل اس بات کا اشارہ تھی کہ طیارے میں چلنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
’’تسی کراچی جا رہے ہو؟‘‘ سیلانی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’ارادہ تے ایہو ہی اے، لیکن میں سوچ ریا واں ہوں لاہور اتر جاؤں…‘‘ سردار جی کی بات پر سیلانی حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ سردار جی ہنس پڑے اور کہنے لگے ’’یہ فلائٹ کراچی ہی جا رہی ہے ناں تو میں بھی کراچی جاؤں گا۔‘‘
’’اوہ‘‘ سیلانی کھسیانی ہنسی ہنس پڑا اور طیارے تک پہنچانے والی فولادی سرنگ میں سے ہوتا ہوا فولادی پرندے کے پیٹ میں جا پہنچا۔ طیارے میں عمر رسیدہ فضائی میزبان نوخیز پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ مسافروں کا استقبال کر رہی تھی۔ سردار جی نے سیلانی سے اس کا سیٹ نمبر پوچھا اور فضائی عملے سے درخواست کی کہ وہ سیلانی کے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہے۔ ایئر ہوسٹس نے سردار جی سے کہا کہ آپ ابھی تو اپنی سیٹ پر تشریف رکھیں، بعد میں ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ سیلانی کی سیٹ جہاز کی دم میں تھی۔ اس نے چھت سے متصل بالائی خانے میں اپنا سامان رکھا اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ساتھ والی نشست ایک نوجوان نے سنبھال لی۔ سیلانی نے اس سے سیٹ بدلنے کی درخواست کی اور سردار جی کو لے آیا۔ لکبیر سنگھ بڑا خوش ہوا اور سیلانی سے کہنے لگا:
’’آپ کی میموری بڑی زبردست ہے، آپ نے فوراً پہچان لیا۔‘‘
’’میں نے آپ کو آپ کی پگڑی سے پہچانا ہے۔‘‘
وہ مسکرا دیا اور بتانے لگا کہ وہ کراچی میں دو دن قیام کے بعد وہیں سے کینیڈا پرواز کر جائے گا۔ لکبیر سنگھ کا کہنا تھا کہ اس نے گرم سمندروں کا ساحل کبھی نہیں دیکھا۔ وہ غروب آفتاب کا منظر اپنے کیمرے میں محفوظ کرنا چاہتا ہے، اسی لئے اس نے اپنے ٹریول ایجنٹ سے کہہ کر کراچی سے واپسی رکھوائی ہے۔
سیلانی بہت خوش ہوا اور لکبیر سنگھ کو کراچی کے بارے میں بتانے لگا ’’یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، تقریباً ڈھائی کروڑ آبادی ہے اور اسے روشنیوں کا شہر بھی کہتے ہی، بہت زبردست شہر ہے، بہت محبت کرنے والے لوگ ہیں، آپ خود دیکھ لو گے، جتنے ذائقہ دار یہاں کے کھانے ہیں، اتنے ہی مزیدار یہاں کے لوگ ہیں۔‘‘
’’مجھے تو پاکستان کے سارے لوگ ہی بڑے مزیدار لگے، یہاں کے کھانے سپر ہیں سپر، وہ جو پشاور میں بڑے بڑے کڑاہوں میں کباب بنتے ہیں ناں، اچھا سا نام ہے ان کا…‘‘
’’چپل کباب‘‘
’’اوہ یس، اوہ یس، بڑے ہی سپر، میں نے اتنے لذیذ کباب پہلے نہیں کھائے۔‘‘
سردار جی سے گپ شپ میں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب طیارے نے فضا میں زقند بھری، کب ہزاروں فٹ کی بلندی پر پہنچا اور کب ایئر ہوسٹس نے ناشتے کی ٹرے سامنے کی۔ ناشتے کے دوران سردار جی نے بتایا کہ اس کے والد بزنس مین ہیں اور گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کے آپریشن کے بعد اپنے چھوٹے بھائی گنوا کر کینیڈا پہنچے تھے۔ اپنے والد کی طرح لکبیر سنگھ بھی خالصتان کا حامی تو تھا ہی، لیکن حالات حاضرہ سے بھی خوب باخبر تھا۔ سیلانی کو کشمیر کے حوالے سے اس کی معلومات نے حیران کر دیا۔ وہ سیلانی کو بتانے لگا ’’انٹرنیشنل میڈیا میں اب کشمیر پر بات ہونے لگی ہے۔ بی بی سی نے ایک آرٹیکل میں سوال اٹھایا ہے IS INDIA LOSING KASHMIR? میں نے واشنگٹن پوسٹ میں آرٹیکل پڑھا تھا ’’TEEN GIRLS WITH STONES ARE THE NEW THREAT IN INDIA’S KASMIR CONFLICT” یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ وہ بھارتی انٹیلی جنس کا ایکس چیف ہے ناں چنگا جیا ناں ہے جس دا…‘‘ سردار جی نے سیلانی کی طرف امداد طلب نظروں سے دیکھا، لیکن اسے کیا پتہ ہونا تھا، اس نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ناموں میں کیا رکھا ہے، کچھ بھی نام ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ابھی یاد آجائے گا، میں نے کچھ دن پہلے ہی ایک آرٹیکل پڑھا ہے، جس میں اس نے کہا ہے کہ یہ مایوس کر دینے والے سین ہیں، اب کشمیری نوجوان مرنے سے نہیں ڈرتے۔ دیہاتی، اسٹوڈنٹس اور کالج کی لڑکیاں پتھر اٹھائے سڑکوں پر آجاتے ہیں… ہاں یاد آگیا وہ ’’را‘‘ کا سابق چیف ہے اے ایس دلت۔ یہ اس کے الفاظ ہیں۔ سنتوش بھارتیہ بڑی کڑک جرنلسٹ ہے، اس کے الفاظ ہیں: کشمیر کی زمین ہمارے ساتھ ہے، لیکن کشمیری ہمارے ساتھ نہیں۔ کشمیر میں ہر درخت، ہر موبائل ٹاور پر پاکستانی پرچم لہراتا ہوا نظر آتا ہے۔‘‘
سیلانی بظاہر لاابالی سا لگنے والے لکبیر سنگھ کی باتوں سے حیران ہو رہا تھا۔ وہ بڑا اپ ڈیٹ نوجوان تھا۔ کہنے لگا ’’واہگرو چاہے گا کشمیر وی جلد اپنی منزل نوں پہنچے گا اور خالصتان دا جھنڈا وی UN اچ لہرائے گا۔‘‘
’’ان شاء اللہ‘‘ سیلانی نے بے ساختہ کہا۔
سردار جی سے کشمیر اور خالصتان تحریک پر باتیں ہوتی رہیں اور انہی باتوں باتوں میں سفر کٹ گیا۔ طیارے کے کپتان نے مسافروں کو سیٹ بیلٹس باندھنے کی ہدایت کی اور پھر اعلان کیا کہ وہ تھوڑی دیر میں لینڈنگ کرنے والے ہیں۔ کراچی کا موسم خوشگوار ہے اور اتنا درجہ حرارت ہے۔ طیارہ رکنے کے بعد جب تک انجن بند نہیں ہو جاتا سیٹ بیلٹس نہ کھولئے گا۔ ان ہدایات کے ساتھ ہی طیارے نے ایئر پورٹ کے گرد چکر لگایا اور غوطہ لگا کر کراچی کی زمین کو چھو لیا۔ کپتان نے طیارہ ہوائی اڈے کے قریب لگا لیا۔ سیلانی اور سردار جی دونوں کے پاس ہی زیادہ سامان نہیں تھا، انہیں باہر آنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ لاؤنج سے باہر ایک فائیو اسٹار ہوٹل کا ملازم لکبیر سنگھ کے نام کا بورڈ لئے کھڑا تھا۔ اس نے لپک کر زور دار سلام کیا اور سردار جی سے سامان لے لیا۔ سیلانی نے سردار جی سے الوداعی مصافحہ کرنا چاہا تو اس نے ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگا ’’تسی مصروف تے بڑے ہوگے، لیکن اتھے ملاقات ہونی چاہئے دی ہے۔‘‘
’’ضرور، ضرور۔‘‘ سیلانی نے اپنا سیل نمبر لکبیر سنگھ کو دیا، اس کا نمبر اپنے موبائل میں محفوظ کیا اور مصافحہ کرکے ٹیکسی کی تلاش میں نکلنے لگا کہ پیچھے سے لکبیر سنگھ کو لینے کے لئے آنے والے ہوٹل ملازم نے سیلانی سے کہا: ’’سر! آپ نے کہاں جانا ہے؟‘‘
سیلانی نے پریس کلب کا بتایا تو اس نے پیشکش کی کہ ہم آپ کو ڈراپ کر دیتے ہیں۔ پریس کلب راستے ہی میں تو ہے۔ پیشکش اچھی تھی۔ سردار جی نے بھی اصرار کیا، جس کے بعد سیلانی نے پیشکش قبول کرنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگائی اور ائیر کنڈیشنڈ گاڑی میں آبیٹھا۔ گاڑی ایئر پورٹ سے باہر نکلی اور شارع فیصل پر آگئی۔ سردار جی دلچسپی سے باہر دیکھنے لگا۔ سیلانی کی نظریں بھی اس کے تعاقب میں باہر ہی گئیں، جہاں ایئر پورٹ کے بالکل سامنے فلک ناز اپارٹمنٹس کے ساتھ خاکروب سڑک پر جھاڑو سے لکیریں کھینچ رہے تھے۔ سردار جی نے حیران ہو کر کہا ’’یہ کون سا صفائی کا وقت ہے؟‘‘
اب سیلانی کیا جواب دیتا، لیکن اس نے بات بنانے کی کوشش کی ’’یہ ہمارا سب سے مصروف اور وی آئی پی روڈ ہے، اس لئے یہاں دو تین بار صفائی ہوتی ہے۔‘‘
’’اچھا، اچھا‘‘ سردار جی نے سر ہلایا، لیکن گاڑی ذرا سا آگے بڑھی تو اسٹار چورنگی پر ادھڑے فٹ پاتھ اس وی آئی پی روڈ کی صفائی ستھرائی کی قلعی کھول رہے تھے۔ اس کے بعد ناتھا خان گوٹھ، ڈرگ روڈ، عوامی مرکز، بلوچ کالونی، نرسری بس اسٹاپ ایف ٹی سی بلڈنگ سے لے کر گورا قبرستان تک ایک نظر سردار جی کی باہر ہوتی اور دوسری سیلانی کے چہرے پر، جہاں خجالت ہی خجالت تھی، شرمندگی ہی شرمندگی تھی۔ سیلانی کو سب سے زیادہ ندامت اس وقت ہوئی، جب شہری حکومت کا کھلا ٹرک کچرا لادے مزے سے کچرا گراتے اڑا جا رہا تھا۔ ڈرائیور کو قطعی پروا نہیں تھی کہ کچرہ پیچھے آنے والوں پر گر بھی سکتا ہے اور گر بھی رہا ہے۔ یہ سب دیکھ کر سردار جی سے رہا نہ گیا اور کہنے لگا ’’او مائی گاڈ! ایہہ کی ہے؟؟ کینیڈا اس طرح ہوئے تو لوکی میئر نوں کناں کولوں پھڑ کر لماں پا دین (او میرے خدا! یہ کیا ہے، کینیڈا میں اس طرح ہو تو لوگ میئر کو کانوں سے پکڑ کر لمبا لٹا دیں)
سیلانی نے شرمندہ شرمندہ لہجے میں کہا ’’ہمارے یہاں صفائی ستھرائی کا ذرا مسئلہ ہے۔‘‘
’’یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، کچرا open truck پر لے جانا ہی غلط ہے، آدھا کچرہ تو راستے میں گر رہا ہے اور اگر کوئی مجبوری ہے تو اس پر کوئی کپڑا ڈال دیں، کچرا تو نہ گرے، یہ تو بہت رسکی ہے۔‘‘
یہی بات سیلانی نے برسوں پہلے اس وقت کے ناظم شہر مصطفی کمال کے کوآرڈی نیٹر سے کہی تھی۔ تب مصطفی کمال نے نئی نئی شہری حکومت سنبھالی تھی اور خوب چمک اور چہک رہے تھے، لیکن افسوس کہ کراچی کا حال بد سے بدتر ہوتا چلا گیا، جو ٹرک برسوں پہلے کچرا اڑاتے گراتے چلے جا رہے تھے، وہی ٹرک آج بھی ویسے ہی دھواں چھوڑتے اڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ ان برسوں میں چہرے بدل گئے، لیکن شہر کا حال ابتر ہوتا چلا گیا۔ میئر کراچی وسیم اختر بے شک اختیارات کا رونا روئیں، لیکن کم از کم ایئر پورٹ جانے والی اس شارع فیصل کو تو صاف کردیں۔ یہ سڑک شہر کی پہلی شناخت ہے۔ یہاں کے ادھڑے فٹ پاتھ، بکھرے کچرے کے کراچی والے تو عادی ہو گئے ہیں، لیکن باہر سے آنے والا تو چونکے اور ناک سکوڑے بنا نہیں رہ سکتا… سیلانی کے لئے لکبیر سنگھ کے ساتھ سفر کرنا مشکل ہوگیا۔ اس کے لئے اس سے نظریں ملانا مشکل ہو رہا تھا۔ خدا خدا کرکے ریجنٹ پلازہ آیا۔ سیلانی نے مسکراتے ہوئے لکبیر سنگھ سے مصافحہ کیا اور اپنا بیگ سنبھال کر نیچے اتر گیا۔ لکبیر سنگھ کی گاڑی زن سے آگے نکل گئی اور سیلانی اسے جاتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post