بابر بادشاہ کے آغاز حکومت میں جب شاہ حسین ثانی ابن شاہ محمود لنگاہ والی ٔملتان پر مرزا شاہ ار عون نے 932ء میں حملہ کیا تو مولانا ابراہیم جامع لاہوری بھی جن کی در سگاہ سے ہزار طلبا مستفیض ہو چکے تھے، ہزارہا ناکردہ گناہوں کے ساتھ مرزا کی سخت گیریوں کا شکار ہوئے ۔
مر زا نے مولانا ابراہیم اور ان کے بیٹے مولانا سعد کو بیڑیاں ڈالیں اور ان کا تمام مال صرف اس جرم میں کہ وہ مالدار تھے، ضبط کرلیا۔ کچھ عرصہ بعد جب مر زا کو مولانا کے علم وفضل کا علم ہوا تو بہت ندامت ظاہر کی۔ ان کا تمام ضبط شدہ مال واپس کردیا اور مولانا سے باصرار کہا کہ آپ میری ہمراہی اور مصاحبت قبول فرمائیں گے تو میری اس سے عزت افزائی ہوگی ۔
مولانا نے فرمایا: اب حیات مستعار اپنے آخری لمحوں پر ہے، یہ وقت آخرت کے سفر کا ہے، نہ کہ باد شاہوں کی ہمراہی کا، یہ زمانہ آغوش لحد میں جانے کا ہے، نہ کہ بادشاہوں سے بغل گیر ہونے کا ،اس لیے مجھے معاف فرمایا جائے ۔
(تذ کرۃ العماء والمشائخ ص 10 )
مولانا ابراہیم کو رنج تھا کہ میر زا نے میرے اہل وطن کو سخت بے عزت کیا ہے، ان کو ایسی سزا ئیں دی ہیں، جن کو سن کر اور دیکھ کر ایک سنگدل بھی چشم پر آب ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس غم وغصہ اور رنج وصدمہ کے اظہار میں باد شاہ کی مصاحبت تک سے انکار کردیا اور اپنی خود داری وحب وطن کیلئے ایثا رو قر بانی کا ثبوت دیا ۔
خدا کو ایسی مناسبت پسند نہیں
اکبر بادشاہ نے ایک مرتبہ اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ اللہ اکبر کا لفظ اگر مہر پر کندہ کرایا جائے تو کوئی حرج تو نہیں ہے۔ ارادہ اس کا شر کا تھا۔ بادشاہ کو ان اختراعات اور جدتوں پر اپنے ذاتی رسوخ کے لیے جو لوگ مائل کرتے تھے، ان سب نے اپنی پسندید گی ظاہر کی، لیکن حاجی ابراہیم ایک بزرگ نے کہا:
اللہ اکبر کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ خدا بڑا ہے اور دوسرا یہ کہ اکبر خدا ہے، اگر اس کے بجائے ’’فلذکر اللہ اکبر‘‘ نقش فرمائیں تو بہتر ہوگا۔ بادشاہ نے اپنی نا پسندید گی کا اظہار کیا اور کہا تم اس کے معنی دوسری طرف کیوں لے گئے۔
حاجی ابراہیم نے عرض کیا: میں نے دونوں معنی کر دیئے ہیں۔ بادشاہ نے کہا: صرف مناسبت لفطی ہے اور کوئی مدعا نہیں۔ حاجی نے کہا لیکن خدا کو شرکت اور ایسی مناسبت پسند نہیں ہے۔ ( تاریخ ہند اقبال نامہ اکبری )
٭٭٭٭٭
Prev Post