ارچنا امیت سے مومنہ تبسم تک

0

امیت جب بھی ڈاکٹر صاحب سے مل کر آتے، اکثر کوئی نہ کوئی واقعہ بتاتے اور حیرت و خوشی سے بارہا تذکرہ کرتے، مثلاً آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ ایک لسٹ لیے بیٹھے تھے کہ دیکھو: آٹا، دال، چاول اور یہ سامان لانا ہے۔ میں پہنچ گیا تو بیٹھے رہے، باتیں ہوتی رہیں، اس دوران ندوہ کا ایک طالب علم آیا۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی ضرورت بیان کی، ڈاکٹر صاحب نے چار سو روپے اس کو دے دیئے اور سامان لانا رہ گیا۔
ایک بار کہنے لگے: آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی، ساتھ میں امین آباد گئے تھے۔ ایک کمبل 350 روپے میں خریدا اور واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک نقاب پوش خاتون ملی اور کہا کہ مولوی صاحب! بچے سردی کھا رہے ہیں، ایک کمبل یا لحاف دلا دیجیے۔ اتنا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے وہ کمبل اس کو تھما دیا اور خالی ہاتھ گھر چلے گئے۔
اس عرصہ میں امیت میں غیر معمولی تبدیلی آ چکی تھی۔ پوجا کرنا اور مندر جانا بالکل چھوڑ دیا تھا، جب کہ پہلے اس کی پابندی کرتے تھے۔ گھر سے تمام تصویریں اور مورتیوں کو ہٹا دیا اور ہم لوگ عجیب سی تبدیلیاں محسوس کرنے لگے۔ اس دوران میں ڈاکٹر صاحب سے بار بار گھر آنے کو کہتے، مگر وہ ٹال جاتے۔ ایک رات تقریباً گیارہ بجے امیت نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب ایک ہاتھ میں آٹے کا تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں چاول، دال اور کچھ دوسرا سامان لٹکائے ہماری گلی کے قریب والی دوسری گلی کی طرف مڑے ہیں۔
امیت پیچھے لپکے اور قریب جا کر پوچھا: آپ اس وقت یہاں؟ یہ کیا ہے؟ پہلے تو انہوں نے ٹالنا چاہا، مگر پھر بتایا کہ یہاں ایک بوڑھی خاتون رہتی ہیں، ان کا کوئی سہارا نہیں ہے، میں کبھی کبھار یہ سامان پہنچا دیتا ہوں۔ پھر امیت کو ساتھ لے کر گئے۔ سامان دیا، کچھ روپے دیئے اور واپس لوٹے۔ اب امیت نے اصرار کیا کہ گھر چلئے، انہوں نے کہا کافی رات ہو گئی ہے، پھر آئیں گے، مگر امیت زبردستی گھر لے آئے۔
اپنے گھر میں انہیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں جلدی سے کھانے پینے کا انتظام کرنے لگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو کھانا کھا چکے ہیں، چائے بنا لو بس، کھانا پھر کبھی کھائیں گے، بہر حال جو کچھ تھا پیش کیا۔ باتیں ہونے لگیں اور بالآخر امیت بولے: اب بہت دن ہو گئے، ہم لوگ کب تک اسی طرح رہیں گے؟
ڈاکٹر صاحب نے کہا: جلدی کیا ہے؟ ہم نے کہا: اگر اسی درمیان موت آ گئی تو؟ اب ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش تھے۔ تقریباً ایک بجے امیت ان کو ان کے گھر پہنچانے گئے۔ جب واپس آئے تو ہم لوگ رات بھر سو نہ سکے اور ایمان، اسلام، جنت، دوزخ اور ڈاکٹر صاحب اور اس بوڑھی خاتون کی باتیں کرتے رہے۔ اسی طرح تین چار ماہ گزر گئے، نماز کی کتاب سے اور بھابھی سے نماز پڑھنا سیکھ لی اور ہم لوگ پابندی سے نماز پڑھنے لگے۔ اسی دوران میں امیت کا ٹرانسفر ہو گیا اور ہم لوگ لکھنؤ سے غازی آباد آ گئے۔
یہاں سے ہم لوگوں نے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ میں ارچنا سے مؤمنہ تبسم، امیت عبد الکریم اور سمتا، عظمیٰ ہو چکی ہیں۔ زندگی کا سفر جاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب دو سال سے عید کے موقع پر سب لوگوں کے لیے کپڑے اور عیدی بھیج رہے ہیں۔ ان کے ہم زلف محمد یونس بھائی تحفے تحائف لے کر آتے ہیں۔ دو بار میں بھی لکھنؤ جا چکی ہوں۔ ان کا گھر مجھے اپنا میکہ لگتا ہے، اور اسی انداز سے ہم جاتے اور آتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ یہ رشتہ برقرار رہے اور ہم سب لوگ آخرت میں کامیاب ہوں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More