سرفروش

0

عباس ثاقب
علی الصباح کھٹ پٹ کی ہلکی ہلکی آوازوں سے میری آنکھ کھلی۔ میں نے بستر پر اٹھتے ہوئے مڑکر دیکھا تو ظہیر ایک اسٹین گن سے نبرد آزما نظر آیا۔ اسلحے کی کھلی بوری مجھے اس کے پہلو میں رکھی ہوئی دکھائی دی۔ مجھے جاگتے دیکھ کر ظہیر کے چہرے پر شرمندگی کی جھلک نمودار ہوئی۔ اس نے ندامت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’معافی چاہتا ہوں جمال بھائی۔ میں نے آپ کی نیند خراب کردی‘‘۔
میں نے خوش گوار لہجے میں کہا۔ ’’او یار، تمہیں تو پتا ہے میرے بیدار ہونے کا لگ بھگ یہی وقت ہوتا ہے۔ تم بتاؤ یہ کیا چل رہا ہے؟ مجھے تو لگ رہا ہے خوشی اور ہیجان کی شدت سے تمہیں ساری رات نیند ہی نہیں آئی‘‘۔
اس نے شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’کچھ ایسا ہی ہے بھیا۔ دراصل میں باریک بینی سے ان اسٹین گنوں کا جائزہ لینے کے لیے بے تاب تھا۔ میں نے ان پہلی والی گنوں کا بھی انتہائی غور سے معائنہ کیا تھا اور کئی بار کی کوشش کے بعد ان کے تمام حصے، مثلاً نال، اسپرنگ، چیمبر، بولٹ وغیرہ الگ الگ کر کے دوبارہ جوڑنا سیکھ لیا تھا۔ تاکہ اس گن کی باقاعدگی سے صفائی کر کے اور پرزوں کو تیل لگاکر بہترین حالت میں رکھا جا سکے‘‘۔
میں نے اثبات میں سر ہلاکر پوچھا۔ ’’اس والی اسٹین گن کے جائزے سے اب تک کیا سمجھ آیا؟‘‘۔
اس نے کہا۔ ’’میں نے اسے بوری سے نکال کر ابھی ہاتھ میں لیا ہی تھا کہ آپ کی آنکھ کھل گئی۔ ابھی تو میں یہی جائزہ لے پایا ہوں کہ یہ بناوٹ کے لحاظ سے تو بلاشبہ پہلے والی اسٹین گن سے زیادہ نفیس ہے۔ لیکن اس کا دستہ کم آرام دہ ہے اور اسے کندھے سے لگاکر نشانہ لگانے میں تھوڑی بہت تکلیف ضرور ہوگی‘‘۔
میں نے ستائش بھرے لہجے میں کہا۔ ’’بہت خوب۔ کیا ان کی ساخت میں کافی زیادہ فرق ہے؟ میرا مطلب ہے کیا تم اسے بھی پوری طرح کھول کر دوبارہ جوڑ سکتے ہو؟‘‘۔
اس نے بھرپور اعتماد سے سرکو ہاں میں جنبش دی۔ ’’میرا خیال ہے ان کی بناوٹ میں کوئی غیر معمولی فرق نہیں ہے اور میں بغیر کسی خاص مشکل کے یہ کام کرلوں گا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تو پھر دیر کس بات کی؟ بسم اللہ کرو۔
میں بھی تمہاری مہارت دیکھوں اور ہوسکے تو تھوڑا بہت سیکھ بھی لوں۔ شاید زندگی میں کبھی اسٹین گن سے واسطہ پڑ جائے۔ اسے چلانا تو خیر میرے لیے مسئلہ نہیں، لیکن کھولنا اور دوبارہ جوڑنا مشق کا تقاضا کرتا ہے‘‘۔
میری بات سنتے ہی ظہیر حرکت میں آگیا اور بڑی مہارت سے باری باری اسٹین گن کے تمام چھوٹے بڑے حصے الگ کر کے بستر پر سجا دیئے اور پھر میری طرف سے اشارہ ملنے پر تمام حصے نہایت مہارت اور آسانی سے دوبارہ جوڑ کر گن کو پہلے جیسی شکل میں لے آیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ اس ہتھیار کی تیاری میں یہ خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اسے کسی خاص اوزار کی مدد لیے بغیر بہت کم وقت میںکھولا اور جوڑا جاسکے، اور تھوڑی بہت کوشش اور مشق سے میں بھی باآسانی مہارت حاصل کر سکتا ہوں۔
ظہیر نے اسٹین گن واپس بوری میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ان اسٹین گنوں میں آٹومیٹک فائرنگ کے دوران کبھی کبھار گولی رک جاتی ہے اور اسٹین گن کا لیور کھینچ کر اسے دوبارہ کاک کرنا پڑتا ہے۔ امید ہے وہ مسئلہ ان گنوں میں نہیں ہوگا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے ان گنوں میںکوئی خرابی نہ ہو، بلکہ اصل مسئلہ میگزینوں میں ہو اور انگلینڈ ساختہ ان میگزینوں کے استعمال سے سب ٹھیک ہوجائے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ اللہ کرے ناصر جلد از جلد خفیہ خانے والے ٹرک کا بندوبست کر دے اور تم بغیر کسی مشکل کے اسلحے کی یہ کھیپ کشتواڑ پہنچانے میں کامیاب ہوجاؤ‘‘۔
ظہیر نے میری دعا پر آمین کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’میں ذرا ناصر سے پوچھ کر آتا ہوں کہ ٹرک پہنچنے کا کب تک امکان ہے‘‘۔
میں نے اس کی تائید کی اور خود غسل خانے کا رخ کیا۔ گھر کے اندرونی حصے سے آنے والی گفتگوکی ہلکی ہلکی آوازوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ رخسانہ اور جمیلہ بھی بیدار ہو چکی ہیں اور غالباً ناشتے کی تیاری ہو رہی ہے۔ میں واپس آکر کمبل میں گھسا تو میرے اندازے کی تصدیق بھی ہوگئی۔ بیٹھک کے گھر کی طرف کھلنے والا دروازہ بے آواز کھلا اور جمیلہ نے اندر جھانک کر دیکھا اور مجھے جاگتا پاکر اندر آگئی۔ ’’ناشتہ تیار ہے جمال بھائی، اگر حکم ہو تو لے آؤں؟ اور وہ ہمارے سربکف مجاہدکہاں ہیں؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’وہ ناصر اور یاسر بھائی کی طرف گیا ہے۔ میرا خیال ہے انہیں ناشتے کے لیے ساتھ لے کر آئے گا۔ تھوڑا رک جاؤ، ہم ایک ساتھ ناشتہ کریں گے‘‘۔
چند منٹ بعد ظہیر واپس لوٹا تو صرف یاسر اس کے ساتھ تھا۔ وہ بولا۔ ’’ناصر کچھ ہی دیر پہلے احمداللہ کو لانے موٹر سائیکل پر انبالے روانہ ہوا ہے۔ وہ گیارہ سال سے میرے لیے کام کر رہا ہے، یہ نازک ذمہ داری میں اسے ہی سونپنا چاہتا ہوں۔ وہ والا ٹرک چلانے کے لیے ہمیں ایسے ڈرائیور کی ضرورت ہے، جس پر ہم مکمل اعتماد کر سکیں‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’کیا آپ نے پہلے والی کھیپ کے ساتھ بھی اسے ہی ظہیر کے ساتھ کشتواڑ بھیجا تھا؟ اور وہ کیا معاملے سے باخبر ہے؟‘‘۔
یاسر کے بجائے ظہیر نے جواب دیا۔ ’’ہاں ہم دونوں ہی کشتواڑ گئے تھے۔ احمداللہ بہت اچھے ڈرائیور اور اس سے زیادہ اچھے انسان ہیں۔ وہ کشمیری نہیں ہیں، مگر ہماری آزادی کی جدوجہد کی دل و جان سے حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے نہایت ذمہ داری اور بے خوفی سے وہ کام کیا تھا۔ یاسر بھائی احمداللہ پر اعتماد میں حق بجانب ہیں‘‘۔
میں نے ستائش کے اظہار کے لیے گردن ہلائی اور یاسر سے پوچھا۔ ’’اور وہ خفیہ خانے والا ٹرک اس وقت کہاں ہے؟‘‘۔
یاسر نے مطمئن لہجے میں کہا۔ ’’وہ تو یہیں گودام کے پچھواڑے کھڑا ہے۔ ناصر نے ورک شاپ پر اس کا تیل پانی چیک کروالیا تھا اور اب وہ سفر کے لیے بالکل تیار ہے‘‘۔
میں نے خوش ہوکر کہا۔ ’’اس کا مطلب ہے ظہیر ان شاء اللہ آج رات ہی کشمیر روانہ ہوجائے گا‘‘۔ یاسر اور ظہیر نے بھی اسی امیدکا اظہار کیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More