’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ کی روایت کے مطابق حضرت سہل تستریؒ نے فرمایا: ’’صوفیاء میں جنید کا مربتہ سب سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ وہ آدم علیہ السلام کی طرح عبادت تو کرتے تھے، مگر راہ طریقت کی مشقت برداشت نہیں کر سکتے تھے۔‘‘
یہ روایت نقل کرتے ہوئے حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سہل تسترؒی کا یہ قول ایک ایسا راز ہے، جو ہماری فہم سے بالاتر ہے۔ جہاں تک حضرت جنید بغدادیؒ کی مشقت کا سوال ہے تو ایک دن کسی شخص نے آپ سے سوال کیا: ’’شیخ! آپ کو یہ بلند درجات کس طرح حاصل ہوئے؟‘‘
جواب میں حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’میں چالیس سال تک اپنے پیرو مرشد کے دروازے پر کھڑا رہا ہوں۔ تب کہیں جا کر اس چشم کرم نے مجھے سرفراز کیا۔‘‘
ایک دن برسر مجلس حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’مومنین ذات واحد کی طرح ہیں۔ مسلمانوں کے گناہ دیکھ کر مجھے اس لئے اذیت پہنچتی ہے کہ میں لوگوں کو اپنے ہی اعضاء تصور کرتا ہوں۔ اسی وجہ سے حضور اکرمؐ فرماتے تھے ’’جتنی اذیت مجھے پہنچی ہے، اتنی اذیت کسی دوسرے نبی یا رسول کو نہیں پہنچی۔‘‘
اس کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا ’’میں ایک عرصۂ دراز تک ان معصیت کاروں کی حالت زار پر نوحہ خواں رہا، لیکن اب مجھے نہ اپنی خبر ہے نہ زمین و آسمان کی۔‘‘
اپنے دکھ میں تو ہر آنکھ نم ہوتی ہے، مگر دوسرے کے غم میں آنسو بہانا، دنیا کی سب سے بڑی مشقت اور سب سے مشکل کام ہے۔ تمام انبیائے کرامؑ میں سرور کونینؐ کی یہ خاص شان کریمانہ تھی کہ آپؐ اپنی امت کے غم میں ہر وقت بے قرار و مضطرب رہتے تھے۔ اس لئے جو صوفی اپنے سینے میں سرکار دو عالمؐ کی امت کا درد رکھتا ہے اور اس درد کی خلش سے ہر وقت بے چین رہتا ہے، وہی سب سے بڑا جانباز ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت جنید بغدادیؒ اسلام کے جانبازوں میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
حضرت جنید بغدادیؒ اپنی مناجات (دعائوں) کا آغاز اس طرح کیا کرتے تھے۔ ’’خدایا! روز محشر مجھے اندھا کر کے اٹھانا کہ جسے تیرا دیدار نصیب نہ ہو اس کا نابینا رہنا ہی بہتر ہے۔‘‘ آپ کے اس قول مبارک میں بڑی گہرائی ہے۔ ایک طرف اپنے گناہوں کا اعتراف بھی ہے اور دوسری طرف عشق خداوندی کی سرشاری بھی۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرمایا کرتے تھے: ’’جب میں اس حقیقت سے آگاہ ہوا کہ ’’کلام وہ ہے جو دل سے ہو‘‘ تو میں نے تیس سال کی نمازیں دوبارہ پڑھیں۔ اس کے بعد تیس سال تک یہ التزام کیا کہ جس وقت بھی نماز میں دنیا کا خیال آجاتا تو اس نماز کو دوبارہ ادا کرتا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post