خشک سالی کیخلاف کوششوں میں پارلیمان کو شامل کرنے کا مطالبہ

0

اسلام آباد (اے پی پی)خشک سالی کیخلاف کوششوں میں پارلیمان کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہےڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ این ڈی ایم اے خشک سالی پر قابو پانے کیلئے وفاقی حکومت کے ساتھ پارلیمان کو بھی اپنی کوششوں میں شامل کرے، مسئلے کےحل کیلئے جدیدٹیکنالوجی تحقیق اور سفارشات پراتفاق رائے پیداکرنا ہو گا چیئرمین این ڈی ایم اے کا کہنا ہےکہ مسئلے سے سندھ اور بلوچستان بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جمعہ کونیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے زیر اہتمام خشک سالی کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سلیم مانڈویوالا نے کہا کہ پاکستان بے پناہ قدرتی وسائل کا حامل ملک ہے مگر خشک سالی جیسی سنگین آفت ان وسائل کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق پاکستان دنیا میں پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سیکرٹری زراعت بلوچستان نے بتایا کہ صوبے میں زیر زمین پانی 800فٹ سے بھی زیادہ نیچے چلا گیا ہے جس سے صوبے بھر میں زراعت سے لے کر انسانی زندگی کے تمام شعبے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور صوبہ سندھ میں بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خشک سالی کے حل کے لئے جدید ٹیکنالوجی، تحقیق اور سفارشات پر اتفاق رائے کرنا ہو گا۔ انہوں نے چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ این ڈی ایم اے بھی متحدہ عرب امارات کی طرز پر مصنوعی بارش کے انتظامات کرنے چاہئیں اور ان کی ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل سے کسی حد تک خشک سالی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خشک سالی پر قابو پانے کے لئے ہمیں شارٹ ٹرم، مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسی بنانے کی ضرورت ہے اور ایسا خشک سالی کے خاتمے کا پروگرام تشکیل دینا چاہیے جس سے جدید ٹیکنالوجی، افرادی قوت اور تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے آفت زدہ لوگوں کی مدد کی جا سکے۔ چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل عمر محمود حیات نے کہا کہ خشک سالی کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، وہاں پر زراعت، صحت اور لائیو سٹاک کو بحال کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے اور ہم وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لئے دستیاب وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے کے دوران سندھ کے آٹھ اور بلوچستان کے 18اضلاع خشک سالی کی زد میں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے صوبائی اور وفاقی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ خشک سالی کی لہر سے سندھ اور بلوچستان میں 30لاکھ لوگوں اور 25لاکھ جانور متاثر ہوئے ہیں جس سے 1.2 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے نمائندے نیل بوہنے نے کہا کہ این ڈی ایم اے کےقدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خشک سالی پیدا ہو رہی ہے اور پاکستان بدقسمتی سے اس سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات کی وجہ سے غربت میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس کے زیادہ تر نقصانات اور اثرات عورتوں اور بچوں کی زندگی پر پڑتے ہیں جس کے لئے موثر حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ موثر حکمت عملی کے تحت پولیو جیسے سنگین مسئلے پر بہت جلد قابو پا لینا اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ این ڈی ایم اے کے ممبر آپریشنز بریگیڈیئر مختار احمد نے کہا کہ خشک سالی کے باعث سندھ بلوچستان کے متعدد اضلاع متاثر ہوئے ہیں جس سے وہاں کے لوگوں کا رہن سہن اور بود و باش متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ موسمیات کی طرف سے گزشتہ سال خشک سالی کے تین الرٹس جاری کئے گئے اور ہم نے کوشش کی کہ اس سے نمٹنے کے لئے بروقت اقدامات کئے جائیں۔ پی ڈی ایم اے سندھ اور بلوچستان کی طرف سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ دونوں صوبوں میں خشک سالی کی صورتحال سنگین ہے، اس مسئلہ پر قابو پانے کے لئے متعلقہ ادارے میسر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے سندھ نے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے ساتھ مل کر خشک سالی کے خاتمے کی پالیسی مرتب کر چکا ہے جسے جلد منظور کر لیا جائے گا۔ سیمینار میں سینیٹر سرفراز بگٹی نے بریفنگ کے دوران ایک تصویر پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اس تصویر میں مردہ بکری سے صرف ایک بچہ نہیں بلکہ پورا خاندان متاثر ہوا ہے، اگر بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو بلوچستان میں خشک سالی سے متاثرہ افراد دوسرے صوبوں میں نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More