شاہ زادہ فقیر کے در پر

0

اصفہان کے شاہی خاندان کے ایک نوجوان نے حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ کی شہرت سنی تو اسے آپ سے ملنے کا اس قدر شوق پیدا ہوا کہ وہ بغداد جانے کیلئے بے قرار رہنے لگا۔ شاہ اصفہان نے نوجوان کی یہ حالت دیکھ کر کہا ’’تم شاہوں کی اولاد ہو، تمہیں فقیروں سے کیا نسبت؟‘‘
’’شیخ نوریؒ کی طرف میرا دل کھنچا جارہا ہے۔ میں اپنے آپ کو بہت مجبور پاتا ہو۔‘‘ نوجوان نے پر شوق لہجے میں کہا۔
’’اگر تم بغداد نہ جائو تو میں تمہارے لئے نیا محل آراستہ کئے دیتا ہوں۔‘‘ شاہ اصفہان نے نوجوان کو لالچ دیتے ہوئے کہا۔
’’مجھے یقین ہے کہ خوبصورت کنیزیں تمہاری دل بستگی کے اتنے اسباب فراہم کردیںگی کہ تم بغداد کے اس فقیر بے سروساماں کو بھول جائو گے۔‘‘
خاندان شاہی کے اس مضطرب نوجوان نے جواب دیا ’’عیش و عشرت کے یہ سامان نہایت حقیر اور کم تر ہیں۔ میرے شوق دیدار کے مقابلے میں ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘
الغرض وہ اصفہانی نوجوان برہنہ پابغداد کی طرف روانہ ہو گیا۔
حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ اپنی خانقاہ میں تشریف فرما تھے۔ اچانک آپ نے اپنے مریدوں اور خدمت گاروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’خانقاہ سے لے کر میل تک زمین کو صاف و شفاف کردو، کیونکہ ہمارا ایک عاشق شوق ملاقات میں اصفہان سے ننگے پائوں چلا آرہا ہے۔‘‘
پھر جب وہ شاہی خاندان کا نوجوان حضرت شیخ نوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے بڑے والہانہ انداز میں اسے خوش آمدید کہا۔ پھر نہایت محبت آمیز لہجے میں فرمایا۔
’’ایک عاشق صادق کو محل اور کنیزیں تو کیا تاج و تخت کا لالچ بھی نہیں روک سکتا۔‘‘
اصفہانی نوجوان حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ کی اس قوت کشف پر حیران رہ گیا۔ پھر وہ بے تابانہ آگے بڑھا اور آپ کے قدموں سے لپٹ گیا۔
حضرت شیخ نوریؒ نے اپنا دست مہربان اس کے سر پر رکھ دیا اور فرمایا ’’اے جان بے قرار سن! مرید کی شان یہ ہوتی ہے کہ اگر سارے جہان کی نعمتیں بھی اسے پیش کی جائیں تو وہ انہیں ٹھوکر مار دے۔‘‘
پھر اہل بغداد نے دیکھا کہ اصفہانی نوجوان نے اپنی پر تعیش زندگی کو ٹھوکر مار دی اور حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ کے در کی گدائی پر رضامند ہوگیا۔
ایک بار حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ بیمار ہوئے تو حضرت جنید بغدادیؒ عیادت کیلئے حاضر ہوئے اور آپ کی خدمت میں کچھ پھول اور پھل پیش کئے۔
اس واقعے کے چند سال بعد حضرت جنید بغدادیؒ بیمار ہوگئے۔ جب حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ کو خبر ملی تو آپ اپنے مریدوں کو لے کر مزاج پرسی کیلئے حاضر ہوئے کچھ دیر رسمی گفتگو کی پھر اپنے مریدوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
’’جنید میرے بھائی اور دوست ہیں۔ اس لئے لازم ہے کہ ہم سب ان کا مرض اپنے اوپر تقسیم کرلیں۔‘‘
اس کے بعد بآواز بلند دعا فرمائی ’’اے مسیحائے حقیقی! ہم تیری بارگاہ کرم میں جنید کی صحت کا سوال کرتے ہیں۔ تو ان کی تکلیف ہمیں منتقل کردے اور انہیں مکمل طور پر صحت عطا فرما دے۔‘‘
جیسے ہی حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے، حضرت جنید بغدادیؒ کو اپنے جسم میں ایک تغیر سا محسوس ہوا اور پھر تھوڑی دیر میں بیماری کے سارے اثرات زائل ہوگئے۔
جب حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ رخصت ہونے لگے تو آپ نے حضرت جنید بغدادیؒ سے فرمایا ’’شیخ! دوستوں کی عیادت اس طرح کرنا چاہئے۔‘‘
یہ سن کر حضرت جنید بغدادیؒ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر آپ نے انتہائی رقت آمیز لہجے میں فرمایا ’’شیخ! دوستوں کیلئے یہ جذبہ جاں نثاری آپ ہی کی شان ہے۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More