دلگیر نے نیاز کا مضمون اپنے نام سے قمر زمانی کو بھجوایا

0

ترتیب و پیشکش
قسط نمبر: 16
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی بیگم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور ان کی اہمیت کیا ہے؟ ان سوالوں کے مفصل جوابات آپ کو اس تحریر کے مطالعہ سے خود معلوم ہوجائیں گے۔ ابتداً اتنا ضرور کہنا ہے کہ اِن کے اور اُن کے معاشقے کی جو داستان یہاں بیان کی جارہی ہے۔ وہ فرضی نہیں حقیقی ہے۔ من گھڑت نہیں سچا واقعہ ہے۔ محض ایک رنگین و رومان پرور کہانی نہیں، ادبی تاریخ کا ایک دلکش باب ہے۔ معمولی اشخاص کی زندگی کی تفصیل نہیں، علم و ادب کی غیر معمولی شخصیتوں کا مرقع ہے۔ سنی سنائی باتوں کا مصنوعی مجموعہ نہیں، خطوط کی صورت میں ایک خاص عہد کی ادبی دستاویز ہے۔ جس کے منتخب حصے قارئین امت کی نذر ہیں۔
اس خط کے ساتھ علامہ نیاز فتح پوری کا لکھا ہوا جو افتتاحی مضمون دلگیر نے اپنے نام سے قمر زمانی کو ملاحظہ کے لیے بھیجا تھا اسے بھی دیکھتے چلئے:
افتتاح افتتاحیہ
آج نقاد پورے دو سال کے بعد حاضر ہوتا ہے اور یہ آپ ہی کو نہیں مجھے بھی حیرت ہے کہ خدایا یہ کیونکر ہوا۔ مگر میں اپنے اس عالم تحیر کا لطف کس سے بیان کروں اور میں کیسے سمجھا سکوں گا کہ دنیا میں کوئی ناقابل الفہم مسئلہ میرے لیے اس سے زیادہ پرلطف نہیں ہو سکتا۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب تو میں اس قابل بھی نہیں رہا۔ آپ کچھ پوچھیں اور میں جواب دے سکوں۔
لوگ کہتے ہیں نقاد بند کر دیا، غلط کیا۔ میں کہتا ہوں کہ خدا کرے میں ایسا قصور ہر صبح کر لیا کروں کہ شام سے پہلے مجھے اس کی پاداش مل جائے اور ایسی غلطی ہر شام کو مجھ سے ہو جائے کہ حاصل تہذیب کے سامنے میں ہر صبح کو سربسجود نظر آئوں۔ یہ تو دنیا کی ایک مروجہ رسم ہے کہ احسان کیا جاتا ہے اور پھر اس کا اعتراف لطف ہوتا ہے اور اس کی پذیرائی و اقرار لیکن میرے نزدیک نوازش و کرم کی اس سے زیادہ توہین اور کوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ میرے نزدیک سکوت اور صرف سکوت ایک ایسا بلیغ اعتراف ہے جس کی قدر دنیا کو ہو یا نہ ہو۔ لیکن احسان کرنے والا اسے سمجھ جاتا ہے۔ وہ دست کرم جو ایک گدائے نوا کی طرف بڑھتا ہے، صرف اس بات کی لرزش کو محسوس کرتا ہے جو اس کے نیچے تھر تھر کانپ رہا ہے پھر کس کو خبر ہے کہ یہ لرزش بے مائیگی، یہ ارتعاش بے نوائی کیسا لٹریچر ہے اور یہ خفیف سی کپکپی کس نوع کا انداز بیان۔ اس لیے اگر آج میں ان احسانات کے اعتراف سے قاصر نظر آتا ہوں جو اس دور سکوت میں مجھ پر اور میرے ساتھ نقاد پر کئے گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں اپنے اخلاقی فرض سے بے خبر ہوں بلکہ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ مجھے اس احسان محبت کی حرمت منظور ہے اور میں اس اعتراف رسمی سے اس حرمت کو زائل کرنا نہیں چاہتا۔
وہ معزز خاتون صرف جن کی تحریک نقاد کے نشاۃ الثانیہ کا باعث ہوئی ہے اور جنہوں نے غایت لطف و کرم سے اس کی ترتیب و تہذیب میں حصہ لینے کا عزم جمیل فرمایا ہے کون ہیں:
میں کیا عرض کروں کہ وہ کون ہے
اور انہوں نے کیوں نقاد کو زیر بار احسان کر کے مجھ پر ایسا صریح ظلم کیا (میں اس محبت کو ظلم ہی کہوں گا۔ اس لطف کو جور، ہی سے تعبیر کروں گا) ان کے افتتاحیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس حجاب کو دور کرنا نہیں چاہتیں اور اس لیے مجھے کیا حق حاصل ہو سکتا ہے کہ میں اس پردہ کو بات لگائوں جس کی حفاظت ایسے اچھوتے پن سے کی جاتی ہے اور رہا یہ امر کہ وہ کیا ہیں سو یہ خود ان کے افتتاحیہ اور دیگر مضامین سے ظاہر ہو جائے گا کہ وہ کیسی غیر معمولی قابلیت اور کس قدر پاکیزہ مذاق ادب، فطرت کی طرف سے لے کر آئی ہیں۔ اس لیے نقاد آج جس قدر فخر و ناز کرے کم ہے کیونکہ ہندوستان کی تاریخ جرائد و رسائل میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ایسے رسالہ کی ترتیب و تہذیب جس کا معیار ادب، نقاد سا ہو، ایک خاتون کے اکتسابات ذہنی کی ممنون ہے۔ اگر نقاد اپنے دور اول میں صرف اس بات پر اظہار تفاخر کر سکتا تھا کہ اس نے ادب لطیف کا بے نظیر نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا تو وہ اپنے دورثانی میں اس امر پر بصد نازش و افتخار اعلان مسرت کر سکتا ہے کہ اس نے ملک کی ایک ایسی بے مثل خاتون کی ادارت و اعانت حاصل کی جس کی تحریر کے ہر ہر جملہ کو اس لحاظ سے کہ وہ ایک عورت کی فکر دماغ کا نتیجہ ہے، خوارق ادب میں داخل کر سکتے ہیں۔
ایک کسان سال کے بارہ مہینوں میں اپنی زمین پر محنت کیا کرتا ہے صرف اس امید پر کہ سال کے آخر میں کسی دن اس کو دانوں کا ایک ڈھیر مل جائے گا۔ ایک باغبان مہینوں زمین کو سیراب کیا کرتا ہے محض اس توقع پر کہ ایک صبح کو وہ درخت کو بارآور دیکھ لے۔ ایک مصنف اپنی سینکڑوں قیمتی راتیں جاگ جاگ کر کاٹ دیتا ہے صرف اس خیال سے کہ ایک دن اپنے تمام خیالات پریشان کو یکجا دیکھ سکے۔ ایک شاعر رات، رات بھر بے چین کروٹیں لیا کرتا ہے کہ صبح کو کوئی شعر اس کی حالت اضطراب کا آئینہ بن سکے۔ ایک عاشق صبح سے شام تک کوچہ جاناں کے صدقے ہوا کرتا ہے محض اس امید پر کہ شاید کبھی چلمن ہوا سے اڑ جائے اور کوئی دور ہی سے اس کا حال پریشان دیکھ لے۔ لیکن کتنے کسان ہیں جو کامیاب ہیں، کتنے باغبان ہیں جن کی امیدیں بارآور ہوتی ہیں، کتنے مصنف ہیں کہ وہ اپنی آرزو میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان شاعروں کی تعداد کس قدر ہے جن کا اضطراب شبی، شعر ہو جاتا ہے۔ وہ عاشق کتنے ہیں جن پر ہوا رحم کھا کر چلمن کو الٹ دیتی ہے لیکن اگر کوئی باغبان و مصنف کوئی شاعر و عاشق ایسا ہے اور پھر اس کے بعد وہ زندہ بھی رہتا ہے تو اس پر تاسف کرو کیونکہ نظام فطرت کی نزاکت اسے لائق خطاب نہیں سمجھتی۔ پھر اگر نقاد کی اجرا سے میری تمام مساعی کا مرکز تمنا یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک ادبی خدمت صحیح معنی میں انجام دے سکے تو پھر اس کو نشاۃ الثانیہ کی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے نہ صرف بہترین لطائف ادبی کو ملک کے سامنے پیش کیا بلکہ اس نے ایک ہستی کو نمایاں کر دیا جس کو شاید کبھی دنیا نہ جان سکتی اگر نقاد کا وجود نہ ہوتا پھر وہ غواص جو پہلے ہی غوطہ میں ایک درشہوار سمندر کی تہ سے نکال لائے اس کے لیے اطمینان و مسرت کا کیا پوچھنا۔
اس لیے حقیقتاً آپ یہ نہ خیال فرمائیں کہ میں نقاد نکال رہا ہوں یا مجھے اب کوئی تمنا اس کے متعلق باقی ہے بلکہ اب تو یہ نقاد انہیں کا ہے جنہوں نے مجھے نقاد کیا بلکہ ساری دنیا سے بے نیاز کر دیا ہے اور اب مجھے نہ کسی صلہ کی پرواہ ہے نہ داد کی تمنا اگر آپ اس کی اشاعت میں حصہ لیں گے اور اس کو اس قابل بنا دیں گے کہ وہ کم از کم اپنے مصارف کا بار خود اٹھا سکے تو یہ مجھ پر احسان نہ ہو گا بلکہ جنس لطیف پر ہو گا جس کے ایک منتخب فرد نے اس سارے طبقہ کی طرف سے اپنا نازک ہاتھ آپ کے لطف و کرم کی طرف بڑھایا ہے۔
’’دلگیر‘‘(جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More