نفرت کے سوداگر

0

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انتہا پسند مسلم مخالف مسٹر چارلس کوپرمین (Charles Kupperman) کو مشیرِ خصوصی برائے قومی سلامتی جان بولٹن کا نائب مقرر کیا ہے۔ اسے آپ سونے پر سہاگہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ جناب بولٹن بذاتِ خود ایک انتہائی تنگ نظر سفارت کار ہیں، جن کے خیال میں دو ریاستی نظریہ فلسطین کے لئے مناسب نہیں اور مشرقِ وسطیٰ کے مسئلے کا پائیدار حل یہ ہے کہ غزہ اور غربِ اردن کے باشندوں کو شام، لبنان، مصر اور اردن میں آباد کرکے سارے فلسطین کو اسرائیل قرار دیا جائے۔ یادش بخیر کچھ عرصہ قبل پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی ایک فاضل خاتون رکن کچھ ایسا ہی فرما چکی ہیں۔ اسمبلی سے اپنے خطاب میں محترمہ عاصمہ حدید نے بقراطی فرماتے ہوئے کہا کہ ’’خدا نے فیصلہ دے دیا ہے کہ مکہ مسلمانوں کا اور مسجد اقصیٰ یہودیوں کا قبلہ ہے۔‘‘
جناب چارلس کوپرمین نفرت کا پرچار کرنے والے مرکزِ دانش Center for Security Policy (CSP) کے روحِ رواں ہیں۔ اس ادارے کے سربراہ فرینک گیفنی (Frank Gaffney) ہیں۔ جناب گفنی کو صدر ریگن نے نائب وزیر دفاع مقرر کیا۔ لیکن ان کے انتہا پسندانہ خیالات سے ریگن جیسا قدامت پسند رہنما بھی گھبرا گیا اور موصوف صرف 7 ماہ بعد بصد سامانِ رسوائی برطرف کردیئے گئے۔ امریکہ میں سماجی انصاف اور معاشی تفاوت کے خاتمے کے لئے کام کرنے والی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم سدرن پورٹی لاسینٹر یا SPLC نے CPS کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے سازشیوں کا بھونپو (mouth piece) قرار دیا تھا۔
CSPکی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں مسٹر کوپرمین نے لکھا کہ امریکی مسلمان سیاسی طور پر منظم ہو رہے ہیں اور سیاسی اثرو رسوخ بڑھا کر وہ امریکہ میں شریعت کے نفاذ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی حکومت کے لئے کام کرنے والے غیر ملکی نژاد مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں امریکہ دشمن سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مفادات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہلیری کلنٹن کی سابق مشیر محترمہ ہما عابدین کے بارے میں کہا گیا کہ یہ خاتون اخوان المسلمون کی جاسوس ہیں اور انہوں نے سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے محمد مرسی کو مصر کا صدر منتخب کرانے میں مدد فراہم کی۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ریپبلکن پارٹی کے مسلم مخالف ارکان لوئی گوہمرٹ، مشل بیکمین سمیت 6 رہنمائوں نے امریکی وزارت خارجہ سے ہما عابدین کی تحریری شکایت لگائی۔ تاہم کوپرمین کی اس لن ترانی پر مسلمانوں سے زیادہ امریکی سیاستدانوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ کانگریس کے سابق اسپیکر جان بونر اور ریپبلکن پارٹی کے سینئر رہنما انجہانی سینٹیر جان مک کین نے اپنے ارکان کو سخت ڈانٹ پلا دی۔ جان میک کین نے کہا کہ میں ہما عابدین کا سخت مخالف ہوں اور ان کے سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتا۔ لیکن سیاسی مخالف کو ملک دشمن قرار دینا بدترین سیاسی بد دیانتی ہے۔
2016ء کے انتخابات کے دوران CSP نے رائے عامہ کے کئی جائزے بھی شائع کئے، جس میں کہا گیا کہ امریکیوں کی اکثریت مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی کی حامی ہے اور انہی جائزوں کو بنیاد بنا کر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اگر وہ برسر اقتدار آگئے تو مسلمانوں کی امریکہ امد پر پابندی لگا دیں گے۔
CSP چارلس کوپرمین کے انتہا پسندانہ خیالات اور نفرت انگیز حملوں کا نشانہ صرف مسلمان نہیں، بلکہ ترقی پسند ادارے، مسیحی تنظمیں، حتیٰ کہ یہودی تنظیم جیوش ڈیفنس لیگ (JDL) بھی ان سے سخت نالاں ہے۔ اب صدر ٹرمپ نے ان صاحب کو قومی سلامتی کے حساس شعبے میں کلیدی منصب پر تعینات کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں جب صدر ٹرمپ پر روس کے لئے جاسوسی کی خبر عروج پر تھی تو روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں امریکہ کو نقصان پہنچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شاید موصوف یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ جب گلشنِ ولایت کی ہر شاخ پر الو جلوہ افروز ہوں تو باغ کے دشمنوں کو کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
یورپی یونین اور ایران مخالف اتحاد:
چہ پدی اور چہ پدی کا شوربہ۔ آج کل پولینڈ کے وزیر اعظم آندریج دودا (Andrzej Duda) خود کو ایک عالمی رہنما سمجھنے لگے ہیں۔ غالب کی طرح یہ بھی شہہ کا مصاحب بن کر شہنشاہِ عالم بننے کی فکر میں ہیں اور وہی حال ہے جو ہمارے بردہ فروش کمانڈو پرویز مشرف کا تھا کہ جارج بش نے ذرا پیٹھ کیا تھتھپائی، موصوف نے خود کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سپہ سالار قرار دے دیا۔
اپنے ممدوح ٹرمپ صاحب کی طرح دودا صاحب کا بھی خیال ہے کہ اسلامی انتہا پسندی دنیا کی سلامتی و استحکام کے لئے شدید خطرے کا باعث ہے اور ان کے یہاں انتہا پسندی کی سب سے بڑی علامت اسکارف پوش بچیاں اور پابند صوم و صلوٰۃ نوجوان ہیں۔ مزے کی بات کہ مصر کے جنرل السیسی، سعودی عرب کے MBS اور متحدہ عرب امارات کے MBZ کا بھی یہی خیال ہے۔ MBZ پریاد آیا ہمارے وزیر اعظم کو ان کا شوفر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
جناب دودا نے 13 اور 14 فروری کو مشرقِ وسطیٰ پر ایک عالمی کانفرنس کا اہتمام کیا ہے، جس کا اعلان گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے مشرق وسطیٰ کے دورے میں فرمایا۔ دعوتی اعلامئے کے مطابق چوٹی سربراہ کانفرنس میں اسلامی بنیاد پرستی، دہشت گردی، انتہاپسندی اور ’’غیر ذمہ دار‘‘ ملکوں میں تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی کا جائزہ لیا جائے گا اور اس خطرے سے نمٹنے کے لئے مشترکہ عالمی کوششوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔ انتہا پسندی کے نعرے میں ایرانی میزائل اور ایٹمی ہتھیاروں کا تڑکہ لگا کر اسے شیوخان و ملوکانِ مشرق وسطیٰ اور کاغذی مردانِ آہن کے لئے اور بھی پر کشش بنادیا گیا ہے۔
دودا ٹرمپ فکری اتحاد کی اس کانفرنس کو کل شدید دھچکا اس وقت لگا جب یورپی یونین نے اس اجلاس میں شرکت سے معذرت کرلی۔ خارجہ امور کیلئے EU کی سربراہ محترمہ فریڈریکا مغیرنی نے ایک بیان میں کہا کانفرنس کا ایجنڈا واضح نہیں اور ایران سے اس کے میزائل پروگرام کے بارے میں EU تہران سے رابطے میں ہے۔ یورپی یونین کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ EU ایران مخالف کسی محاذ کا حصہ بننے کے بجائے بات چیت اور گفتگو کے ذریعے تمام متنازعہ امور کو دوستانہ انداز میں طے کرنے کی کوشش جاری رکھے گا۔ یورپ کے سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ سربراہ سطح پر شرکت تقریباً ناممکن ہے اور اکثر ممالک وزارتی وفود کے حق میں بھی نہیں۔ یورپ کے قائدین صدر ٹرمپ کے رویئے سے نالاں ہیں اور مسٹر دودا کے بارے میں عام خیال ہے کی پولستانی رہنما غروب آفتاب سے ذرا پہلے چہل قدمی کے عادی ہیں اور سائے کو دیکھ کر انہیں اپنے قدو قامت کے بارے میں غلط فہمی ہوگئی ہے۔
سانحہ ساہیوال:
ساہیوال میں فائرنگ کے واقعے پر فوری نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیر اعظم عمران خان نے 3 دن کے اندر اس واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اس ضمن میں اس واقعے کے عینی شاہد عمر خلیل کا بیان بے حد اہم ہے۔ اس بچے نے آنکھوں سے اپنی ماں، باپ، بہن اور اپنے والد کے ایک دوست کو پولیس کے ہاتھوں بے بسی سے مرتے دیکھا ہے۔ زخمی بچے کا کہنا ہے کہ ’’ہم اپنے گائوں بورے والا میں چاچو رضوان کی شادی میں جا رہے تھے۔ فائرنگ سے پہلے پاپا نے کہا کہ پیسے لے لو، لیکن گولی مت مارو۔ لیکن انہوں نے پاپا، ماما، بہن اور پاپا کے دوست مولوی صاحب کو گولی مار دی‘‘۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس نے گاڑی روکتے ہی فائرنگ کر دی اور کار سے ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ لوگ نہتے تھے۔ گاڑی سے زرق برق کپڑوں کے تھیلے برآمد ہوئے، جس سے عمر خلیل کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ لوگ شادی پر جا رہے تھے۔
دوسری طرف ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق دہشت گردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں داعش کا سرغنہ دانش مارا گیا، جبکہ شاہد جبار، عبد الرحمان اور ان کا ایک ساتھی فرار ہو گیا۔ واقعے کے مقام سے خود کش جیکٹس، دستی بم، اسلحہ برآمد ہوا۔
سچ بات تو یہ ہے کہ اگر یہ باحوصلہ بچہ زندہ نہ رہ جاتا تو دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائی پر اب تک سی ٹی ڈی کو تمغہ و انعام سے نوازا جا چکا ہوتا۔ عمران خان کی جانب سے فوری تحقیقات کا حکم قابل تحسین ہے اور لوگ امید کرتے ہیں کہ ان بے گناہوں کے خون کا حساب لیا جائے گا۔ تاہم میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں دہشت گردی کے حوالے سے باریش نوجوانوں کے بارے میں ایک لاشعوری امتیازی سلوک صاف نظر آرہا ہے۔ مثال کے طور پر:
٭… بڑے شہروں میں سی ٹی ڈی مبینہ طور پر ان نوجوانوں پر نظر رکھے ہوئے ہے جو باقاعدگی سے فجر کی نماز مسجد میں ادا کرتے ہیں۔
٭… اگر کوئی ماڈرن و فیشن ایبل بچی اچانک حجاب لینا شروع کر دے تو اس غریب کو متوقع مشکوک افراد کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے مشاہدات کو Profiling کہا جاتا ہے جو مغرب میں عام ہے۔
٭… عمران خان خود بھی ڈاڑھی والوں کے بارے میں تحقیر آمیز گفتگو کرتے ہیں، وہ صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ 80 فیصد ڈاڑھی والے 2 نمبری ہیں اور باقی 20 فیصد پر انہیں شدید تحفظات ہیں۔
٭… سیرت النبیؐ کانفرنس میں نے بھی انہوں نے مولویوں کو بہت حقارت سے ’’اسلام کے ٹھیکدار‘‘ کہا۔
٭… حفاظت امن عامہ کے نام پر ہزاروں علماء جیل میں ہیں، جنہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس سے ایک 80 سالہ عالم دین دوران حراست جاں بحق ہوچکے ہیں۔
٭… دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد قرب و جوار کے باریش مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوانوں کی شامت آجاتی ہے۔
امریکہ میں پولیس ہر سیاہ فام کو مجرم پیشہ سمجھتی ہے۔ دہشت کے معاملے میں بالکل یہی رویہ پاکستان میں ڈاڑھی رکھنے والے نوجوانوں سے ہے۔ اگر حکومت دہشت گردی کے خلاف مہم میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنے عملی بیانئے میں تبدیلی کرنی ہوگی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More