آہوں کے دریا میں پنجاب غرقاب

0

ساہیوال (مانیٹرنگ ڈیسک) سی ٹی ڈی لاہور کے ہاتھوں ساہیوال کے قریب مشکوک مقابلے میں4 بے گناہ شہریوں کو قتل پر ہفتہ کو پنجاب بھر میں کہرام مچ گیا۔ جاں بحق ہونے والوں میں میاں بیوی، بیٹی اور ان کا ہمسایہ شامل ہے۔ فائرنگ سے مقتولین کا ایک بچہ بھی زخمی ہوا۔ گھر کے3 افراد کے قتل کی خبر سن کر ایک مقتول کی ماں صدمے سے چل بسی۔ پولیس نے ہلاک شدگان کو پہلے اغوا کار قرار دیا، بعد میں انہیں کالعدم دہشت گرد تنظیم داعش کا دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے گاڑی روکنے کے بجائے اہلکاروں پر فائرنگ کر دی تھی، جوابی کارروائی میں چاروں افراد مارے گئے، جبکہ 3 بچوں کو آلٹو کار کی ڈگی سے برآمد کر لیا گیا۔ بچوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک عزیز کی شادی میں شرکت کے لئے بورے والا جا رہے تھے۔ ترجمان سی ٹی ڈی پنجاب کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہفتہ کو دوپہر 12 بجے کے قریب ساہیوال کے قریبی علاقے قادرآباد میں ٹول پلازہ کے پاس سی ٹی ڈی ٹیم نے لاہور کی جانب سے آنے والی ایک کار اور موٹرسائیکل کو روکنے کی کوشش کی تو کار سوار افراد نے اہلکاروں پر فائرنگ کردی۔ جوابی فائرنگ میں 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک، جبکہ 3 دہشت گرد فرار ہوئے۔ ایک ہلاک دہشت گرد کی شناخت ذیشان کے نام سے ہوئی، جو کالعدم دہشت گرد تنظیم داعش کا مقامی سرغنہ تھا۔ ہلاک شدگان میں محمد خلیل، ان کی اہلیہ نبیلہ، 13 سالہ بیٹی اریبہ شامل ہیں۔ مارے جانے والے افراد سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا میں ملوث دہشت گردوں کے ساتھی اور سہولت کار تھے۔ فرار ہونے والے دہشت گردوں میں شاہد جبار، عبدالرحمان اور ان کا ایک ساتھی شامل ہے۔ یہ کارروائی فیصل آباد میں16 جنوری کو ہونے والے سی ٹی ڈی آپریشن کا حصہ تھی۔ جائے وقوعہ سے خودکش جیکٹیں، دستی بم و اسلحہ بھی ملا ہے۔ سی ٹی ڈی نے اس سے قبل کار میں اغوا کاروں کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے3بچے بازیاب کرالئے ہیں۔ ساہیوال پولیس نے واضح کیا ہے کہ کارروائی کرنے والی ٹیم سی ٹی ڈی لاہور سے تعلق رکھتی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کا نشانہ بننے والی گاڑی لاہور سے آرہی تھی، جسے ایلیٹ فورس نے روک کر مزاحمت نہ ہونے کے باوجود فائرنگ شروع کردی۔ مرنے والی خواتین کی عمریں 40 اور 13سال تھیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ ڈگی میں بچوں کی موجودگی کا دعویٰ غلط ہے، کیونکہ آلٹو کار کی ڈگی میں اتنی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ واقعہ کی اطلاع پر ورثا ڈی ایچ کیو اسپتال ساہیوال پہنچ گئے۔ مقتول خلیل چونگی امرسدھو میں پرچون کی دکان چلاتا ہے، بیٹے، بہو اور پوتی کی ہلاکت کی خبر سن کر مقتول کی والدہ بھی صدمے سے دم توڑ گئی۔ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی جانب سے 4 شہریوں کی ہلاکت پر وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے حکام سے فوری رپورٹ طلب کرلی ہے۔ ادھر آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کو پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی ٹی ڈی نے حساس ادارے کی اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں کالعدم داعش سے منسلک 4 دہشت گرد ہلاک ہوئے، جبکہ 3 دہشت گرد فرار ہوگئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا ہے کہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو جاں بحق افراد کے ورثا سے مذاکرات کی ہدایت کی گئی ہے۔ مشکوک مقابلے کے بعد وزیراعظم و وزیراعلیٰ پنجاب کی بات چیت میں ملوث اہلکاروں کی فوری گرفتاری اور ان کیخلاف مقدمے کے اندراج کا فیصلہ کیا گیا۔ ایسے رویے کو برداشت نہیں کیا جائے گا، جس میں عام شہری کے حقوق متاثر ہوں، ہم سے جو ممکن امداد ہوسکی وہ کریں گے۔ واقعے کی حقیقت سامنے لائی جائے گی۔
٭٭٭٭٭
لاہور/ ساہیوال (نمائندہ امت/ مانیٹرنگ ڈیسک/ خبرایجنسیاں) ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں فائرنگ سے 4 بے گناہ شہریوں کے قتل کیخلاف ساہیوال اور لاہور میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔ احتجاج کے نتیجے میں لاہور میں میٹرو بس سروس بھی معطل ہو کر رہ گئی۔ بورے والا کے گاؤں 293 ای بی میں بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔ سوشل میڈیا پر سی ٹی ڈی کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کے خلاف شہری شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سی ٹی ڈی لاہور کے اہلکاروں کی جانب سے ہفتہ کی دوپہر ساہیوال کے قریب میاں، بیوی اور بیٹی سمیت 4 افراد کے بہیمانہ قتل کیخلاف شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ مبینہ مقابلے کے خلاف لاہور میں فیروز پور روڈ پر مقتولین کے ورثا اور اہل علاقہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور ٹائر نذرآتش کر کے روڈ بلاک کردی۔ شہریوں نے چونگی امر سدھ میٹرو اسٹیشن کے قریب احتجاج کیا اور لاہور سے قصور جانے والی روڈ بند کر دی۔ احتجاج کے نتیجے میں میٹرو بس سروس معطل ہوگئی اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں، جس پر پولیس نے مسافروں کو متبادل راستے اختیار کرنے کی ہدایت کی اور ٹریفک وارڈنز کی اضافی نفری تعینات کر دی۔ مشتعل مظاہرین نے پولیس اور انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پولیس نے بے گناہ اور نہتے افراد پرفائرنگ کی۔ ہمیں انصاف چاہیے۔ اہلِ علاقہ نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا فوری مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک ملزمان کو سزا نہیں ملتی احتجاج جاری رہے گا۔ ساہیوال میں بھی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اسپتال کے باہر لوگوں نے احتجاج کیا ہے۔ جاں بحق افراد کا آبائی تعلق بورے والا کے گاؤں 293 ای بی سے ہے، جہاں وہ خاندان میں ہونے والی شادی میں شرکت کے لئے جا رہے تھے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی شادی والے گھر میں صف ماتم بچھ گئی ہے اور گاؤں کے لوگوں نے احتجاج کیا اور پولیس کے خلاف نعرے بھی لگائے۔ مظاہرین نے واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے جاں بحق خلیل احمد کا خاندان اچھی شہرت کا حامل ہے اور مقتول کا لاہور میں جنرل اسٹور بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی سی ٹی ڈی پولیس کی بہیمانہ کارروائی پر شدید احتجاج کیا جا رہا ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے انتہائی شریف افراد کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کیا۔ اعجاز مظہر چوہدری کا کہنا تھا کہ وہ بھی بورے والا کے نواحی گاؤں 293 ای بی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مقتولین کا دور دور تک دہشت گردی تو کیا جرائم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دماغ ماؤف ہو چکا ہے سوچ سوچ کر کہ آخر کس بنیاد پر اتنی بے دردی سے ان لوگوں کو مارا گیا۔ لاہور میں احتجاج رات گئے تک جاری رہا۔ مقامی ممبر صوبائی اسمبلی کی یقین دہانیوں اور سخت سردی کی وجہ سے مؤخر کیا گیا۔ اس موقع پر ٹائروں کو آگ لگائی گئی۔ مظاہرین پرامن مگر مشتعل تھے اور پولیس کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق پولیس لوگوں کے اشتعال کے سبب سے قریب نہیں گئی تھی۔ مظاہرین کی تعداد میں اضافے کے بعد حلقے کے مقامی ممبر صوبائی اسمبلی رمضان صدیق بھٹی موقع پر پہنچے۔ انہوں نے عوام سے مذاکرات کئے اور یقین دہانی کرائی کہ معاملے میں انصاف ہوگا، جس کے بعد مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔ مقتول خاندان بورے والا میں جس شادی میں شرکت کے لیے جا رہا تھا واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد اس کا فنکشن بھی محدود کر کے جلد ختم کردیا گیا تھا۔ مظاہرین نے لاہور اور ساہیوال کو ملانے والے روڈ کو کئی گھنٹے تک بند رکھا اور روڈ اس وقت کھولا گیا، جب یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ حکومت نے پولیس مقابلہ کرنے والے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو گرفتار کرلیا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More