’’کپتان صاحب! آپ وہی عمران خان ہیں!‘‘

0

یہ ساہیوال میں قتل ہونے والے ’’دہشت گرد‘‘ ذیشان کا بھائی ہے۔ وہی ذیشان، جسے داعش کا خطرناک ترین دہشت گرد قرار دیا گیا اور جس کے قتل کے بعد اس کے ’’قبضے‘‘ سے خود کش جیکٹیں اور اسلحہ بارود برآمد کیا گیا۔ ذیشان کا بھائی ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر کے سوالوں کے جواب میں سوال کر رہا ہے: ’’جس نے کبھی تھانے کی شکل اندر سے نہیں دیکھی، جو مکڑی کو دیکھ کر چارپائی پر چڑھ جاتا تھا، وہ دہشت گرد ہو گیا؟ مجھے بتائیں کہ میری ماں کا کیا قصور ہے؟ ایک تو اس کا جوان بیٹا مارا گیا، پھر اسے دہشت گرد کی ماں بنا دیا گیا، مجھے ڈولفن پولیس میں پونے دو سال ہو رہے ہیں، میں اپنے بھائی کے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی کاغذات کے ساتھ لگا کر بھرتی ہوا تھا، تب وہ دہشت گرد نہیں تھا، تب انہوں نے دہشت گرد کا بھائی رکھ لیا؟؟‘‘
سوشل میڈیا پر سی ٹی ڈی کے باوردی قاتلوں کے اس اجتماعی قتل کی دل دہلا دینے والی واردات نے سیلانی کو ہی نہیں، ہر اس انسان کو سن کر کے رکھ دیا ہے، جس کے سینے میں دل دھڑکتا ہے اور دل میں احساس ہے، وہ پولیس سے شدید نفرت کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ نفرت انتہاؤں کو چھو رہی ہے، خون آلود لباس میں فیڈر لئے کھڑی بچی کی تصویر کسی بھی پتھر کا دل شق کرنے کے لئے بہت کافی ہے۔ سیلانی ایک محفل میں بیٹھا سرحدی نگہبانی کی مشکلات پر کچھ دوستوں کی گفتگو سن رہا تھا، جو بتا رہے تھے کہ ملک کوئی بھی ہو، سرحد پر پہلا دشمن حالات ہوتے ہیں۔ موسم، رہائش، کھانا پینا، سوشل لائف سے دور زندگی جوانوں پر اپنے اثرات مرتب کرکے ہی رہتی ہے، وہاں چھوٹی چھوٹی باتیں بہت بڑی ہو جاتی ہیں اور اگر بندہ بدقسمتی سے بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کا جوان ہو تو سمجھو گیا کام سے‘‘۔ یہاں پتلی دال اور ناقص آٹے کی روٹیوں سے تنگ آکر ویڈیو کلپ میں بھانڈا پھوڑنے والے آنجہانی سپاہی تیج بہادر کا ذکر ہونے لگا۔ اس نے اپنا مستقبل داؤ پر لگا کر بی ایس ایف کے افسران کی راشن خوری کی تفصیلات دنیا کے سامنے لائی تھیں اور پھر نوکری کے ساتھ ساتھ زندگی سے بھی گیا۔ ان ویڈیوز کے سال بھر بعد ہی وہ اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا تھا۔ سیلانی اس محفل کا خاموش مبصر تھا اور دوستوں کی باتیں سنتا ہوا سیل فون سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا کہ میڈیا نے ساہیوال میں ’’خطرناک‘‘ دہشت گردوں کے مارے جانے کی بریکنگ نیوز اگلنا شروع کر دیں، تھوڑی ہی دیر میں عمران خان کی حکومت کے سب سے ناپسندیدہ ترین وزیر ’’چے فے‘‘ میڈیا کے سامنے آکر سی ٹی ڈی کی پشت سہلانے لگے۔ وزیر اطلاعات نے سی ٹی ڈی کا مؤقف اپناتے ہوئے قوم کو بتایا کہ دہشت گردوں نے بچوں کی انسانی ڈھال بنا رکھی تھی۔ چوہدری فواد کا کہنا تھا کہ ’’اب سے تھوڑی دیر پہلے سی ٹی ڈی نے اپنا ریپلائی دیا ہے، بظاہر لگ یہ رہا ہے کہ ٹیرررسٹوں نے انسانی ڈھال استعمال کی ہے اور یہ خاصے بڑے دہشت گرد تھے۔‘‘
پھر تفصیلات آنا شروع ہو گئیں، ایک کے بعد ایک اطلاع آتی اور دل شق کر جاتی۔ سیلانی تو سن ہو کر بیٹھا رہ گیا، معصوم بچوں کے اپنے ماں باپ کے لہو سے رنگے لباس دیکھ کر تو اس کا ضبط ختم ہو گیا، اس کے حلق میں جیسے کسی نے سانس کی نالی کو گرہ لگا دی ہو، وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، یہ خیال ہی اذیت کے ببول لئے ہوئے تھا کہ باوردی قاتلوں نے ان معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے نہ صرف ان کے ماں باپ کو گولیاں ماریں، بلکہ ان کی تیرہ برس کی بہن سے بھی زندگی چھین لی۔ تیرہ برس کی اریبہ کو چھ گولیاں ماری گئیں، بچوں کا باپ گاڑی میں ہی اپنی سیٹ پر ادھ کھلے منہ کے ساتھ فریاد کرتا ہوا زندگی ہار گیا۔
یہ بدقسمت خاندان ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے جا رہا تھا، خوشبو میں رچے ہوئے صاف ستھرے لباس میں یہ خوش گپیاں کرتے ہوئے راستہ سمیٹ رہے تھے، لیکن نہیں جانتے تھے کہ وہ راستہ نہیں، اپنی سانسیں سمیٹ رہے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں ان کے لباس سے پھوٹتی خوشبو ان کے جسم سے ابلتے لہو میں دم توڑ دے گی۔ وہ اپنے بچوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر ختم ہو جائیں گے۔ ان چار جنازوں کی اطلاع جب خلیل احمد کی بوڑھی ماں کو دی گئی تو جنازوں کی تعداد پانچ ہو گئی۔ اس کا جھریوں بھرا ہاتھ سینے پر گیا اور پھر وہ بھی زندگی سے گئی۔ دل کے دورے نے اس دکھیاری کی جان لے لی اور اچھا ہی کیا، ورنہ وہ ساری زندگی کبھی جیتی اور کبھی مرتی۔
سی ٹی ڈی نے واقعے کے بعد گرگٹ کی طرح بیانات بدلے۔ پہلے کہا کہ مارے جانے والے خطرناک دہشت گرد تھے، جن سے تین مغوی بچے بازیاب کرائے گئے ہیں اور جب انہیں احساس ہوا کہ بازیاب کرائے گئے بچے تو مقتول ’’اغواء کاروں‘‘ کو پاپا، پاپا کہہ رہے ہیں تو انہوں نے جھٹ سے فوراً بیان بدل دیا۔ زخمی بچے نے اسپتال میں بیان دیا کہ پاپا نے پولیس والوں سے بہت کہا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، پیسے چاہئیں تو پیسے لے لو… لیکن انہیں تو ان کی جانیں چاہئے تھیں، وہ ان کی جانیں لے کر ہی ٹلے۔
واقعے کے بعد حکومت نے اسی بے حسی کا مظاہرہ کیا، جو اس سے پیشتر حکمرانوں کا خاصہ رہی ہے۔ حکومتوں میں آنے والے سب ایک ہی قبیلے کے ہو جاتے ہیں۔ پنجاب کے پسماندہ ترین علاقے کے سیدھے سادے دیہاتی وزیر اعلیٰ کو زخمی بچے کی عیادت کے لئے بنی گالہ سے ہدایت کی گئی تو انہیں چوبیس گھنٹے بعد یاد آیا کہ ان کی عملداری میں ساہیوال بھی آتا ہے۔ وہ چوبیس گھنٹوں بعد چاق و چوبند پروٹوکول کے ساتھ اسپتال پہنچے، بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فوٹو سیشن کرا کے واپس ہو لئے اور تو اور مہذب دنیا سے تشریف لانے والے گورنر پنجاب چوہدری سرور نے تو کمال ہی کر دیا۔ انہوں نے سی ٹی ڈی کے سر پر پنجاب میں قیام امن کا سہرہ باندھتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں… انگلینڈ میں زندگی کے خوبصورت دن گزارنے کے بعد پاکستان کی ’’خدمت‘‘ کے لئے آنے والے چوہدری سرور صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ ایسے واقعات ہوتے ہیں تو ان پر مہذب قومیں کیسا ردعمل دیتی ہیں۔ یہ منظر برمنگھم کی کسی سڑک پر ہوتا تو اب تک وزیر قانون اپنی کرسی چھوڑ چکا ہوتا۔ وزیر اعظم کے لئے میڈیا کا سامنا مشکل ہو جاتا، لوگ گھروں سے نکل کر باہر آچکے ہوتے کہ پولیس کو licence to kill کس نے دیا ہے؟
جیبوں میں تبدیلی بھر کر وزیر اعظم ہاؤس پہنچنے والے عمران خان جھٹ سے کسی انجمن حمایت اسلام کے یتیم خانے کے مہتمم بن گئے اور ٹیوئٹر پر بچوں کی کفالت کی ذمہ داری لینے کا اعلان کر کے قوم کا دل جیت لیا… عمران خان کا یہ بیان پڑھ کر سیلانی سوچنے لگا کہ یہ وہی کپتان ہیں، جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر حکومت وقت کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ فوری طور پر شہباز شریف کو مستعفی اور رانا ثناء اللہ کو جیل میں ہونا چاہئے۔ اس وقت جارحانہ مزاج کپتان کا حق سچ پر مبنی مؤقف تھا کہ پولیس نے سامنے سے براہ رست گولیاں چلائی ہیں، لیکن چھوٹے چھوٹے پولیس اہلکاروں کو نہیں، فائرنگ کا آرڈر دینے والوں کو پکڑنا چاہئے… آج وقت کی کروٹ نے کپتان کے سر پر حکمرانی کا تاج رکھا ہوا ہے۔ مقام اور چہرے مہرے ضرور تبدیل ہوئے ہیں، لیکن منظر کچھ مختلف نہیں۔ کل بھی وردی میں قاتل تھے اور آج بھی وردی میں قاتل ہیں۔ قوم منتظر ہے کہ تبدیلی کے پھریرے لہرانے والا کیا کرتا ہے؟ لیکن افسوس! کپتان نے بھی وہی کیا، جو سابق حکمران کیا کرتے تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اپنے محل میں ہے، وزیر قانون بشارتیں دیتا پھر رہا ہے کہ انصاف ہوگا، اسے کوئی جیل کی راہ دکھانے والا نہیں… کچھ بھی نہیں بدلا، سب ویسے کا ویسا ہی ہے، جیسے پہلے رعایا کا لہو ارزاں تھا ویسا ہی اب بھی ہے۔ کاش کہیں بنی گالہ کے محل نشیں سے ملاقات ہو تو سیلانی پوچھے کہ آپ وہی عمران خان ہیں ناں… جناب یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے سے پہلے ہاتھ میں عدل کا ترازو رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے، آپ کسی یتیم خانے کے مہتمم نہیں کہ چندے اور بھیک سے یتیم کے تن پر کپڑے اور پیٹ میںچار لقمے ڈال کر جنت کما لیں گے، فرض ادا کرلیں گے۔ اب آپ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ آپ کا کردار کسی بچے کے یتیم ہونے کے بعد شروع نہیں ہوتا۔ خلیل اور نبیلہ کے بچوں کے یتیم ہونے سے پہلے ان کی جان، مال اور عزت کی حفاظت بھی آپ کی ذمہ داری تھی۔ جواب دیں کہ آپ وہاں کیوں ناکام ہوئے؟؟ وزیر قانون صاحب آپ بتائیں کہ کار میں اگر دہشت گرد تھے تو انہیں زندہ کیوں نہیں پکڑا گیا؟ سی ٹی ڈی نے پاجاموں کی طرح بار بار مؤقف کیوں بدلا اور آپ نے ان کا بدلا ہوا مؤقف مونگ پھلی کی طرح ہضم کیسے کر لیا؟ کاش! کہیں کپتان سے ملاقات ہو، کاش! کہیں بزدار سے آمنا سامنا ہو، کاش! کہیں بشارت صاحب سے نظریں چار ہوں… سیلانی یہ سوچتے اور غصے میں کھولتے ہوئے اپنی ماں کے لہو میں لتھڑے لہو سے رنگے کپڑوں میں سہمے بچوں کی تصویریں نم ناک آنکھوں سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More