افغان خفیہ ایجنسی کے تربیتی مرکز پر حملہ-126 ہلاک

0

پشاور/کابل/دوحہ(نمائندہ خصوصی/امت نیوز/مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان کے صوبہ میدان وردگ کے دارالحکومت میدان شہر میں خفیہ ادارے این ڈی ایس کے تربیتی مرکزپر طالبان کے خودکش حملے کے نتیجے میں 126 فوجی مارے گئے۔ اطلاعات کے مطابق پیر کی صبح سات بجے طالبان بمبار نے بارود بھری گاڑی ٹکرا کر تربیتی مرکز کی دیوار گرادی، جس کے ساتھ ہی 2 جنگجو ؤں اندر گھس گئے اور اندھا دھند فائرنگ کر کے درجنوں فوجی ڈھیر کر دیئے۔ مرنے والوں میں 8 اسپیشل کمانڈوز شامل ہیں ،جبکہ 100 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے۔برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق افغان حکام ہلاکتوں کی تعداد چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ،تاہم رکن صوبائی کونسل شریف ہوتک نے کہا ہے کہ انہوں نے اسپتال میں کم از کم 35 لاشیں دیکھی ہیں۔ اسی دوران قطر میں امریکہ طالبان مذاکرات بحال ہوگئے۔ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بات چیت آج بروز منگل بھی جاری رہے گی۔ تفصیلات کے مطابق افغانستان کے صوبہ میدان وردگ کے دارالحکومت میدان شہر میں افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کے ٹریننگ سینٹرپر طالبان کے خودکش حملے کے نتیجے میں 126 اہلکار ہلاک ہوگئے۔حملے میں 100سے زائد افراد زخمی ہوئے۔جوابی کارروائی میں 3 حملہ آور مارے گئے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا ،جبکہ کچھ زخمیوں کو کابل لے جایا گیا ۔حملے کے بعد دھویں کے کالے بادل دور دور تک دیکھے گئے ۔ تربیتی مرکز کی عمارت اور بیرونی دیواریں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ پیر کی صبح 7 بجے طالبان نے پہلے اڈے پر خودکش کار بم حملہ کیا ،جس کے بعد بمبار کے دوساتھیوں نے اندر گھس پر فائرنگ کردی اور سیکڑوں اہلکار 3گھنٹے تک محصور رہے۔ترجمان نے دعوی کیا کہ 190 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں ، تاہم انہوں نے زخمیوں کی تعداد نہیں بتائی ۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق بیشتر افغان حکام اموات پر خاموش ہیں ، تاہم ایک سینئر سیکورٹی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ 126 اہلکار مارے گئے ہیں ،جبکہ ایک اور ذریعے کا بھی کہنا ہے کہ 100 سے زائد ہلاک ہوئے ہیں۔ صوبائی کونسل کے رکن شریف ہوتک نے خبر ایجنسی کو بتایا کہ انہوں نے اسپتال میں کم ازکم 35 اہلکاروں کی لاشیں دیکھی ہیں۔ مزید لاشوں اور زخمیوں کو کابل منتقل کیا گیا ہے۔ ایرانی خبر ایجنسی تسنیم نے بھی اپنی رپورٹ میں 100 سے زائد اہلکار مارے جانے کا ذکر کیا۔ اس سے پہلے کابل سے ذرائع نے بتایا تھا کہ حملے میں 90 افغان اہلکار مارے گئے ہیں۔ حملے کے بعد اڈے کو افغان سیکورٹی فورسز نے گھیرے میں لے لیا ،تاہم دھویں کے بادل دور دور تک دکھائی دیئے ۔ افغان اسپیشل فورسز امریکہ کی تربیت یافتہ ہیں اور انہیں افغان نیشنل آرمی کی نسبت بہتر تربیت یافتہ سمجھا جاتا ہے۔یہ تباہ کن حملہ ان امریکی خدشات کے دوران ہوا جس میں کہا جارہا ہے کہ حملوں کی یلغار میں آئی ہوئی افغان فورسز کو طالبان کی جانب سے نہ رکنے والے جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔پیر کو ہونے والے حملے میں ایک امریکی ساختہ آرمڈ گاڑی جو کہ چھینی گئی تھی اس میں دھماکہ خیز مواد نصب کرکے اسے تربیتی مرکز کے چیک پوائنٹ کو توڑتے ہوئے این ڈی ایس بیس پر حملہ کیا گیا۔یاد رہے کہ گزشتہ ماہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے آئندہ مقرر ہونے والے سربراہ نے کہا تھا کہ افغانستان میں بہت زیادہ شرح اموات کو روکنا ناممکن ہے۔دریں اثنا امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان پیر سے قطر میں مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ نے پاکستان میں مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا اور افغان طالبان کے انکار کے بعد بھی امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے پاکستان میں قیام بڑھا دیا تھا تاہم افغان طالبان نے پاکستان کا دبائو قبول کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد انہیں مایوس لوٹنا پڑا۔افغان طالبان کے ترجمان نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ طالبان کے نمائندوں اور زلمے خلیل زاد کے درمیان مذاکرات پیر کو قطر میں شروع ہوگئے ہیں۔یہ مذاکرات دوحہ میں ہو رہے ہیں ، جہاں طالبان کا سیاسی دفتر بھی ہے۔مغربی خبررساں اداروں کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات میں افغانستان سے امریکی انخلا کے اوقات کار اور طریقہ کار کو حتمی شکل دی جائے گی۔ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ افغانستان پر جارحیت ختم کرنے اور ملکی وحدت برقرار رکھنے کا ایجنڈا قبول کرنے کے بعد امریکی مذاکرات کی میز پر آئے ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق قطر مذاکرات منگل کو بھی جاری رہیں گے۔اس سے پہلے ابوظہبی میں بھی زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے نمائندوں میں تین دن تک مذاکرات ہوئے تھے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More