حکومت گرانے میں اپوزیشن کی سیاسی بزدلی رکاوٹ بن گئی

0

امت رپورٹ
تحریک انصاف کو اس وقت مرکز اور پنجاب دونوں جگہ اپنے اتحادیوں کی شدید ناراضگی کا سامنا ہے۔ تاہم اپوزیشن کی سیاسی بزدلی گرم لوہے پر چوٹ لگانے میں رکاوٹ ہے۔ وفاق میں پی ٹی آئی کے اتحادیوں میں سے ایک اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی نے حکومت کا ساتھ تقریباً چھوڑ دیا ہے، بس باقاعدہ اعلان کرنا باقی ہے۔ اسی طرح وزارتوں اور دیگر معاملات پر ایم کیو ایم ، مسلم لیگ ’’ق‘‘ اور بلوچستان عوامی پارٹی بھی پی ٹی آئی حکومت کو آنکھیں دکھارہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان تینوں پارٹیوں میں سے کم از کم دو کے مطالبات پی ٹی آئی حکومت تسلیم کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ بی این پی (مینگل) کے چھ نکات کو پالیسی ساز، شیخ مجیب کے چھ نکات جتنا خطرناک تصور کرتے ہیں اور ذرائع کے بقول اس سلسلے میں وزیراعظم کو بریفنگ بھی دی جاچکی ہے کہ ان چھ نکات میں سے بیشتر پر عمل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ریاستی پالیسی سے متصادم ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسی طرح مزید ایک دو وزارتوں اور کراچی پیکج کے حوالے سے ایم کیو ایم کے مطالبات پورے کئے جاسکتے ہیں لیکن بہادر آباد گروپ نائن زیرو سمیت کراچی میں الطاف سے منسوب ایم کیو ایم کے دیگر دفاتر بھی کھلوانے کا اصرار کر رہا ہے۔ یہ مطالبہ متحدہ وفد نے وزیراعظم عمران خان سے حالیہ ملاقات کے دوران بھی کیا ہے۔ ذرائع کے بقول چند دیگر دفاتر تو شاید حکومت کھولنے کی اجازت دیدے لیکن نائن زیرو کا تالہ کھلوانا حکومت کے بس میں نہیں۔ لہٰذا ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ حکومت کا اتحاد مکڑی کے جالے سے بھی نازک بنا ہوا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ’’ق‘‘ کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی حکومت سے مزید ایک اور وزارت مانگ لی ہے۔ قاف لیگ کے ناراضگی سے بالخصوص پنجاب حکومت پر خطرے کی تلوار لٹک سکتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو درپیش موجودہ صورتحال میں اپوزیشن تھوڑی سی محنت کرکے مرکز اور پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی لاسکتی ہے لیکن دونوں پارٹیوں کی سیاسی بزدلی رکاوٹ ہے، جسے مصلحت اندیشی کا لبادہ اوڑھایا گیا ہے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے اندرونی ذرائع کے بقول پارٹی کی مرکزی قیادت کو خوف ہے کہ اگر موجودہ سیٹ اپ گرانے کے بعد کوئی نیا سیاسی بحران پیدا ہوگیا تو کہیں جمہوری سیٹ اپ ہی نہ لپیٹ دیا جائے یا پھر پی ٹی آئی سے بھی زیادہ سخت کوئی عبوری حکومت سر پر بٹھادی جائے۔ ذرائع کے مطابق اسی خوف کے سبب لیگی قیادت موجودہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے سے گریزاں ہے۔ اور اس کی خواہش ہے کہ چاہے کتنا ہی عرصہ لگے ، تحریک انصاف خود مقبولیت کھوجانے پر اپنے انجام کو پہنچے، یوں جمہوریت کا پہیہ بھی چلتا رہے ۔ ادھر پیپلز پارٹی کے بعض ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو ان کی مرکزی قیادت کو بھی کم و بیش اسی خوف کا شکار پایا، جو مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی قیادت کو لاحق ہے ۔ یعنی حکومت گرانے کے نتیجے میں کہیں آسمان سے گرا کھجور میں اٹک جانے والی صورتحال پیدا نہ ہوجائے۔ پی پی ذرائع کے بقول حکومت کی طرف سے اگر سندھ حکومت کو گرانے کی کوششیں ترک ہوجاتی ہیں تو انہیں بھی پی ٹی آئی کے موجودہ سیٹ اپ سے کوئی پریشانی نہیں۔ جہاں تک نیب کیسز کا تعلق ہے تو اس سے نمٹنے کے سارے گر آصف زرداری جانتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت سے متعلق پی پی کے خدشات اب ختم ہی سمجھے جائیں کہ پی ٹی آئی کو یہ خاموش پیغام دیا جاچکا ہے کہ سندھ حکومت کو ان ہائوس تبدیلی یا کسی اور طریقے سے ہٹانے کی کوششیں ترک کردی جائیں ، کیونکہ اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے سیاسی بحران کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومت کی مرکز سے بھی زیادہ پتلی حالت اس وقت پنجاب میں ہے۔ جہاں اس کی اہم ترین اتحادی پارٹی قاف لیگ شدید برہم ہے اور حکومت سے الگ ہونے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر اپوزیشن ، پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی لانے میں سنجیدہ ہوجاتی ہے، تو آصف زرداری کو اپنے دیرینہ تعلقات استعمال کرتے ہوئے چوہدری برادران کو ساتھ ملانے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی پنجاب اسمبلی میں 167نشتیں ہیں ۔ قاف لیگ کی دس ، پیپلز پارٹی سات اور آزاد ارکان کی چار سیٹیں ملانے سے یہ تعداد 186تک جا پہنچتی ہے جبکہ تحریک انصاف کے اپنے ارکان کی تعداد 180ہے۔ لہٰذا اپوزیشن کو وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
ادھر پنجاب میں تحریک انصاف اور قاف لیگ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کا سبب اگرچہ قاف لیگ کو مزید وزارتیں نہ دینا بتایا جارہا ہے اور پچھلے ایک ہفتے سے یہ خبریں چل رہی ہیں کہ معاہدے کے تحت قاف لیگ کو مرکز اور صوبے میں دو، دو وزارتیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا ، جو پورا نہیں کیا جارہا ۔ تاہم ذرائع کے مطابق یہ ایشو معاملے کا ایک رخ ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ دونوں اتحادی پارٹیوں کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان پیدا ہوچکا ہے ۔ پس پردہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف ’’وارداتیں ‘‘کرنے میں مصروف ہیں اور یہ سلسلہ بھی پچھلے کئی ماہ سے چل رہا ہے۔ ذرائع کے بقول اسپیکر پنجاب اسمبلی نے تحریک انصاف کے ایک درجن کے قریب ارکان کو اپنے ساتھ ملا رکھا ہے۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں ، جو الیکشن سے قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اور کبھی قاف لیگ کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ان میں چھ کے قریب ارکان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ قاف لیگ نے نہ صرف تحریک انصاف میں موجود ایک درجن کے قریب ناراض ارکان کو رابطے میں رکھا ہوا ہے ، بلکہ مسلم لیگ نون کے تقریباً 15 ارکان بھی قاف لیگ سے خفیہ رابطے میں ہیں۔ یہ وہی ارکان ہیں ، جنہوں نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے موقع پر اپنی پارٹی کے امیدوار کی بجائے پرویز الٰہی کو ووٹ ڈال دیئے تھے اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار پرویز الٰہی اپنے اتحادیوں کے 186 ووٹوں کے بجائے 201 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ تاہم چند روز بعد جب وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو یہ ووٹ انہیں نہیں مل سکے اور وہ صرف 186 ووٹ حاصل کرسکے تھے۔ ذرائع کے مطابق اپنے پارٹی ارکان کے علاوہ تحریک انصاف اور نون لیگ کے ارکان سے خفیہ رابطے بنانے کے سبب پنجاب میں پرویز الٰہی کی پوزیشن بہت مضبوط ہے ۔ جس نے بالخصوص تحریک انصاف کے پنجاب چیپٹر کو پریشان کررکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق کائونٹر اٹیک کے طور پر تحریک انصاف کی جانب سے بھی قاف لیگ کے مختصر مینڈیٹ (10سیٹیں ) میں نقب لگانے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں ان ارکان کو مختلف طرح کی ترغیب دی گئی تاہم اس کا علم ہونے پر چوہدری برادران بھڑک گئے اور اپنے تحفظات کو پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت تک پہنچایا۔ ذرائع کے بقول فواد چوہدری کی جانب سے قاف لیگ میں فارورڈ بلاک بنانے کا بیان دانستہ طور پر دیا گیا تھا، تاکہ ’’قاف لیگ‘‘ کو پیغام دیا جاسکے ۔فواد چوہدری کے اس بیان پر چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی نے ٹوئٹر پر جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ فواد چوہدری کے بیان سے اتحاد میں دراڑ پڑے گی اور یہ اتحاد ختم بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم وزیراطلاعات کی معذرت کے بعد یہ معاملہ بظاہر ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ قاف لیگ کو وفاق اور مرکز میں دو ، دو وزارتیں نہ دینے کا تنازعہ پس پردہ چلنے والی اسی سرد جنگ سے جڑا ہے۔ اور اب قاف لیگ یہ سمجھتی ہے کہ اگر اسے مزید وزارتیں مل بھی گئیں تو آنے والے وزراء بھی اسی طرح بے اختیار ہوں گے جیسے اس وقت وفاقی وزیر ہائوسنگ اینڈ ورک طارق بشیر چیمہ اور صوبائی وزیر معدنیات حافظ عمار یاسر ہیں۔ (عمار یاسر کا استعفیٰ تاحال منظور نہیں کیا گیا ہے)۔ ذرائع کے مطابق قاف لیگ کے وفاقی وزیر کو گورنر پنجاب چوہدری سرور کام نہیں کرنے دے رہے جبکہ عمار یاسر کی وزارت میں پی ٹی آئی کے سینئر وزیر علیم خان کی ہدایت پر مداخلت ہورہی ہے۔ ذرائع کے بقول اس صورتحال میں قاف لیگ اپنی اتحادی پارٹی پی ٹی آئی کو چھوڑنے کی دھمکی تو دے رہی ہے لیکن اس کے پاس متبادل آپشن موجود نہیں۔ تاہم پنجاب حکومت گرانے کے لئے اگر مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی کی طرف سے کوئی مشترکہ کوشش ہوتی ہے تو پھر قاف لیگ کو ایک پلیٹ فارم دستیاب ہوسکتا ہے لیکن دونوں اپوزیشن پارٹیاں اپنی ’’مصلحت اندیشی‘‘ کے سبب ایسا جارحانہ قدم اٹھانے کے موڈ میں نہیں لہٰذا تحریک انصاف کے ساتھ قاف لیگ کی ناراضی اور منائے جانے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا جبکہ قاف لیگ پرانی تنخواہ پر کام کرتی رہے گی۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پی ٹی آئی نہیں چاہتی تھی کہ خواجہ سعد رفیق کے بھائی رکن پنجاب اسمبلی خواجہ سلمان رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں ، تاہم اسپیکر پرویز الٰہی نے پروڈکشن جاری کردیئے اس پر بھی پی ٹی آئی پنجاب قیادت خوش نہیں۔ اس طرح پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کے بعض بلوں کو پیش کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتی لیکن پرویز الٰہی اس کی اس خواہش کے برعکس کام کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More