بلوچستان کے ضلع لورالائی میں گزشتہ روز نامعلوم دہشت گردوں نے ڈی آئی جی پولیس کے دفتر پر حملہ کیا۔ فائرنگ اور بم دھماکوں سے آٹھ پولیس اہلکاروں سمیت نو افراد شہید ہوگئے، اکیس زخمیوں میں پندرہ اہلکار شامل ہیں۔ تادم تحریر خودکش حملے کی ذمے داری کسی نے قبول نہیں کی۔ صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو کے مطابق ایک حملہ آور نے خود کو عمارت کے مرکزی دروازے پر ہی اڑالیا تھا۔ اس کے بعد دوسرے حملہ آور عمارت کے اندر داخل ہوگئے۔ اندھا دھند فائرنگ، دستی بموں کے حملوں اور جوابی کارروائی کے دوران دو دہشت گرد بھی مارے گئے۔ فورسز اور دہشت گردوں میں کئی گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد پوری تیاری کرکے آئے تھے اور ان کا مقصد شدید جانی نقصان پہنچانا تھا۔ حملے کے وقت ڈی آئی جی پولیس کے دفتر میں جونیئر کلرک اور درجہ چہارم کی ملازمت کیلئے انٹرویو ہو رہے تھے۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں پولیس اہلکاروں کے علاوہ پاک فوج کے کمانڈوز نے بھی حصہ لیا۔ صوبائی وزیر داخلہ کے مطابق چار بجے شام تک تمام حملہ آوروں (دو) کو مار دیا گیا، جبکہ ایک خود کو پہلے ہی اڑا چکا تھا۔ اس سنگین واقعے کے بعد اوپر سے نیچے تک وہی روایتی بیانات جاری کئے گئے، جو ایسے مواقع کیلئے غالباً پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ زخمیوں کو علاج کی بہترین سہولتیں فراہم کئے جانے کی ہدایات، ان کے لواحقین سے ہمدردی، شہدا کے درجات کی بلندی کیلئے دعائیں اور ہر قسم کی دہشت گردی سے نمٹنے کے عزائم پر مشتمل رٹے رٹائے بیانات کی جگالی سے آج تک ملک میں مکمل امن قائم ہو سکا ہے، نہ ایسے سطحی اقدامات سے آئندہ بھی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے تو سیاسی و عسکری قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ دہشت گردوں پر اب تک پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ ان کی باقیات پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کارروائیاں کرتی رہیں گی۔ مسئلہ اگر صرف اندرونی صورتحال کا ہوتا تو وطن عزیز کو امن و استحکام کا گہوارہ بنانا ہرگز مشکل نہیں، لیکن پاکستان کو نقصان پہنچانے والی بیرونی قوتیں چاروں طرف سے ملک کو گھیرے ہوئے ہیں۔ مشرق میں بھارت جیسا ازلی دشمن ہمہ وقت تاک میں رہتا ہے، جبکہ شمال، مغرب میں امریکا اور اس کے حامی ممالک مثلاً برطانیہ اور اسرائیل، افغانستان میں بیٹھ کر سترہ سال سے پاکستان کے خلاف سازشوں اور معاندانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ایران سے بھی ہمارے ویسے خوشگوار تعلقات نہیں ہیں، جو دو پڑوسی مسلمان ملکوں میں ہونے چاہئیں، حالانکہ اس کے ساتھ ہمارے بہت گہرے مذہبی، ثقافتی، تمدنی اور لسانی روابط ہیں۔
جنوب میں واقع سمندر بھی پاکستان کیلئے ہر وقت خطرہ بنا رہتا ہے، کیونکہ یہاں گہرے سمندروں میں بڑی طاقتوں کے طیارہ بردار بحری بیڑے آئے دن موجود رہ کر مشقیں کرتے رہتے ہیں۔ دنیا کا واحد ایٹم بردار مسلم ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان ان سب کی نظروں میں خار بن کر کھٹکتا رہتا ہے۔ اس پر مستزاد ہماری حکومتیں ہیں، جو جعلی جمہوریت اور فراڈ انتخابی نظام کے تحت منتخب ہوکر عوامی نمائندگی کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں اور اپنی موت کے اختتام تک لوٹ مار کرکے ملک کو کھوکھلا کرکے چلی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے کسی حکومت کو آج تک عوام کا اعتماد نہ حاصل ہوسکا۔ عوام کی بھرپور تائید اور پشت پناہی کے بغیر کوئی مضبوط حکومت بھی عالمی برادری سے آنکھ ملاکر بات نہیں کر سکتی۔ کجا یہ کہ چند ووٹوں کی برتری سے قائم کوئی سیاسی جماعت اپنی ساکھ برقرار رکھ سکے۔ سب سے وسیع رقبے کا حامل بلوچستان کا صوبہ پاکستان دشمن اندرونی و بیرونی عناصر کا ہمیشہ سے ہدف رہا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کا زور فوج کی مفاہمانہ و ہمدردانہ پالیسیوں اور ترقیاتی کاموں کی وجہ سے بلاشبہ بہت کم ہوگیا ہے، لیکن یہاں بھارت نے ہمیشہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے تخریبی کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔ ایک طرف افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت اور دوسری جانب ایران کی نظریں بلوچستان کے کچھ حصوں پر ہیں، جو انہیں اپنا علاقہ قرار دیتے ہیں۔ بلوچ باشندوں کی مایوسیوں اور محرومیوں کا تذکرہ کرکے اکثر علیحدگی پسند عناصر پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، جبکہ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ بلوچوں کو ان کے اپنے سرداروں نے ہمیشہ بنیادی ضروریات سے محروم رکھا۔ صوبائی وسائل کے علاوہ وفاق سے ملنے والی رقوم یہی سردار آپس میں مل بانٹ کر ختم کردیتے ہیں اور خود بلوچستان اور پاکستان سے باہر رہ کر عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اپنے علاقوں سے معدنیات اور گیس کی رائلٹی کو بھی وہ اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں۔ بلوچوں میں تعلیم اور شعور کے خوف سے وہ انہیں علم و ہنر اور تجربہ سمیت ہر سہولت سے محروم رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے شمالی علاقوں اور فاٹا کے دشوار گزار حصوں پر حکومت پاکستان کی حکمرانی بہت حد تک قائم و مستحکم ہوچکی ہے، لیکن بلوچستان میں وقفے وقفے سے تخریبی سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ابھی نیا سال شروع ہوئے ایک ماہ ہی گزرا ہے کہ صرف لورالائی میں دہشت گردی کا چوتھا واقعہ پیش آگیا۔ قبل ازیں یکم جنوری کو ایف سی ٹریننگ سینٹر لورالائی پر دہشت گردوں کے حملے میں چار سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے، جبکہ چار دہشت گرد مارے گئے تھے۔ اسی طرح گیارہ جنوری کو ایف سی کی گاڑی پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے دو اہلکار زخمی ہوئے۔ حالیہ حملے کی ذمے داری اب تک کسی نے قبول نہیں کی، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ آور افغانستان سے آئے تھے۔ افغانستان سے اٹھارہ ماہ میں امریکی فوجیوں کے انخلا سے قبل پاکستان دشمن قوتیں مزید کیا گل کھلا سکتی ہیں۔ اس کیلئے فوج اور عوام کو پوری طرح چوکس و بیدار رہنا ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت سے کوئی توقع رکھنا بے کار ہے، کیونکہ وہ تو خود اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ ٭
Prev Post
Next Post