مشتری ہشیار باش

0

طالبان سے مذاکرات کرنے والے امریکی وفد کے سربراہ زلمے خلیل زاد مدرسے کے پڑھے ہوئے لوگوں کا ذکر بہت حقارت سے کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو مدارس کو جہالت کی اکیڈمی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ جب زلمے خلیل زاد ملائوں سے مذاکرات کے لئے قطر آنے لگے تو موصوف نے اپنے قریبی ساتھیوں کو بتایا کہ انہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ ہم اپنا مؤقف ان اجڈ مولویوں کا سمجھائیں گے کیسے۔ تاہم اب امریکیوں کا کہنا ہے کہ مُلا ہماری توقع سے کہیں زیادہ معاملہ فہم اور سمجھدار تو ہیں ہی، وہ اپنا مؤقف جس دل نشین اور مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں، وہ سننے سے تعلق رکھتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مولوی نہ تو ہم سے مرعوب ہیں اور ہم پر رعب ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم وہ غیر محسوس انداز میں ہمیں بار بار یہ تاثر دے رہے ہیں کہ افغانستان سے روانگی امریکہ کے اپنے مفاد میں ہے۔ اس سلسلے میں دو نکات پر دلچسپ نوک جھونک ملاحظہ فرمائیں:
امریکہ: اب ہم آپ کے دوست ہیں اور کچھ عرصے کے لئے افغانستان میں ایک دو اڈے رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم معاوضہ دینے کو تیار ہیں۔
طالبان: افغان دوستوں سے معاوضہ نہیں لیتے۔ آپ یہاں اڈے رکھیں اور ہم بھی اپنا ایک اڈہ امریکہ میں قائم کرلیتے ہیں۔ اب تو ہم دوست ہیں نا!!
امریکہ: اشرف غنی کی حکومت کو افغان عوام نے منتخب کیا ہے۔ اسے آپ قانونی حکومت کیوں نہیں مانتے؟
طالبان: ہماری تجویز ہے کہ گزشتہ امریکی انتخابات میں شکست کھانے والی ہلیری کلنٹن کو امریکہ کا چیف ایگزیکٹو تسلیم کرکے انہیں صدر ٹرمپ کے ساتھ شریکِ اقتدار کر دیا جائے، اس طرح آپ کے یہاں بھی ایک قانونی حکومت قائم ہو جائے گی۔
طالبان اور امریکہ کے مابین جاری مذاکرات سے متعلق ہماری گزارش ہے کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے زیادہ توقعات نہ باندھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبان کو جنگ کے میدان اور مذاکرات کی میز دونوں جگہ برتری حاصل ہے، لیکن ایک دیرپا امن معاہدے کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ امن معاہدے کے حوالے سے امریکیوں کی صفوں میں یکسوئی نہیں اور انتظامیہ کے مختلف شعبہ جات میں شدید ابہام پایا جاتا ہے۔
صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی حالیہ مذاکرات کو ہتھیار ڈالنے کی باوقار تقریب قرار دے رہی ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما لنڈسے گراہم کا خیال ہے کہ طالبان پسپا ہوتی نیٹو فوج کے لئے محفوط راستے کے سوا اور کچھ دینے کو تیار نہیں۔ یہ ملا نہ تو فوجی اڈوں پر راضی ہو رہے ہیں اور نہ ہی امریکہ نواز کابل انتظامیہ سے شرکتِ اقتدار پر۔ ملا حضرات افغان سرزمین کو امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت دینے کو تیار ہیں، لیکن اس عہد کی پاسداری کو جانچنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ ری پبلکن قیادت کو ڈر ہے کہ اگر امریکی فوج غیر مشروط طور پر افغانستان سے لوٹ آئی تو کل کو یہ مولوی تاوان جنگ کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں۔
اسی بنا پر لنڈسے گراہم چاہتے ہیں کہ طالبان کو دبائو ڈال کر کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر مجبور کیا جائے، تاکہ ہتھیار ڈالنے کا تاثر نہ پیدا ہو۔ اس سلسلے میں وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے اور موجودہ معاشی پریشانیوں کے تناظر میں پاکستان سے یہ ’’خدمت‘‘ لی بھی جا سکتی ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ پاکستانی قیادت تعریف کی خوگر ہے اور قربت کا لارا دے کر بہت سارے کام نکالے جا سکتے ہیں۔ احباب کو یاد ہوگا کہ پرویز مشرف بڑے فخر سے کہتے تھے کہ صدر بش کا پرائیویٹ نمبر ان کے پاس ہے اور وہ جب چاہیں امریکی صدر سے براہ راست بات کر سکتے ہیں۔ جب میاں نواز شریف نے انتخابات میں کامیابی پر صدر ٹرمپ کو مبارکباد کے لئے فون کیا تو شکریئے کے ساتھ صدر ٹرمپ نے نواز شریف کی
تعریف میں چند رسمی جملے کہہ دیئے۔ ان روایتی اور رسمی جملوں کو سرکاری اعلامئے میں اس طرح بیان کیا گیا، جیسے صدر ٹرمپ نواز شریف کو اس صدی کا عظیم ترین رہنما سمجھتے ہیں۔
اب سینیٹر گراہم نے شیشے میں اتارنے کے لئے جناب عمران خان کے کانوں میں شہد گھولنا شروع کردیا ہے۔ کیا عجب کہ امن کے نوبل انعام کے وعدے پر ان سے کوئی اہم کام کروا لیا جائے۔ حال ہی میں فاضل سینیٹر نے فرمایا کہ افغانستان میں امن کا قیام عمران خان کے دور حکومت میں ہی ممکن ہے۔ اس تعریف پر محمود قریشی اور فواد چوہدری خوشی سے نہال ہیں۔ حال ہی میں قریشی صاحب نے تکبر سے چور لہجے میں فرمایا کہ ’’طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا۔‘‘ طالبان کے سینئر رہنما حافظ محب اللہ محب کی پشاور میں گرفتاری مولویوں پر دبائو ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔
اس سے پہلے ترک ٹیلی ویژن TRT کو اپنے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ یہ اور بات کہ طالبان نے پاکستانی وزیر خارجہ اور وزیر اعظم کے بیانات کو مجبوری کے تحت سیاسی و سفارتی جگالی سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔
امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد کی نامزدگی سے بھی واشنگٹن کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔ زلمے خلیل زاد روایتی سیکولر عناصر کی طرح مولویوں کے بارے میں نفرت کی حد تک منفی جذبات رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ملا بھی زلمے کو ناقابلِ اعتماد اور جھوٹا سمجھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر زلمے بے اختیار ہیں۔ مذاکرات میں بار بار کے تعطل کی وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں کسی بھی معاملے پر اپنی رائے دینے سے پہلے واشنگٹن سے منظوری لینی ہوتی ہے۔
نیک نیتی پر شک کی ایک اور وجہ مذاکرات کی غیر ضروری طوالت ہے۔ گزشتہ ہفتے چھ روزہ مذاکرات کے بعد امید تھی کہ 28 جنوری کو بات چیت دوبارہ شروع ہوگی، لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ بات چیت کے نئے سلسلے کا آغاز فروری کے اختتام پر ہوگا۔
کابل کے عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کو مؤخر کر کے میدان میں برسر پیکار طالبان کی توجہ بٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چھاپہ ماروں کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ لڑائی تقریباً ختم ہو چکی، لہٰذا اب ہتھیار رکھ کر نئے بندوبست میں اپنا مقام بنانے کی فکر کرو۔ گوریلا سپاہی جب ایک بار اپنے ہتھیار سے غافل ہو جائے تو اسے دوبارہ سربکف کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ طالبان کو دشمن کی اس حکمت عملی کا اندازہ ہو چکا ہے۔ تحریک طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ نے اپنے ساتھیوں کو چوکنا رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ان کے ترجمان کے مطابق ملا صاحب نے فوجی کمانڈروں کو اپنی پوزیشنیں مضبوط کرنے اور موسم بہار کی تیاری جلد از جلد مکمل کر لینے کا حکم دیا ہے۔ طالبان ہر سال برف پگھلنے کے بعد فروری کے اختتام سے افغان اور نیٹو چوکیوں پر تابڑ توڑ حملے کرکے موسم بہار کی جنگی مہم کا آغاز کرتے ہیں۔
انسدادِ حماقت بل:
احمق یقیناً غیر پارلیمانی لفظ ہے، لیکن امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر مارک وارنر نے سینیٹ میں Stop STUPIDITY Act پیش کیا ہے۔ جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مستقبل میں امریکی حکومت کبھی ٹھپ یا Shutdown نہ ہو سکے۔ امریکی صدر کو ماورائے بجٹ رقم خرچ کرنے کا صوابدیدی اختیار نہیں، اس لئے اگر رواں بجٹ کے اختتام سے پہلے نئی
مدت کیلئے بجٹ منظور نہ ہو تو حکومت ٹھپ ہو جاتی ہے۔ گزشتہ بجٹ 21 دسمبر کو ختم ہوا اور حکومت 35 دن سے زیادہ بند رہی۔ اس دوران وفاقی حکومت کے 8 لاکھ ملازمین تنخواہوں سے محروم رہے، حکومت کے ٹھیکیداروں کو ادائیگی نہیں ہوئی اور ایک اندازے کے مطابق امریکی معیشت کو 11 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔
چند دن پہلے صدر اور کانگریس کے درمیان 15 فروری تک کیلئے ایک عبوری مطالبہ زر یا Spending Bill پر اتفاق ہوگیا اور حکومت دوبارہ رواں ہو گئی۔ لیکن اب ایک بار پھر Shutdown کا خطرہ منڈلا رہا ہے، اس لئے کہ ڈیموکریٹک پارٹی میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے 5 ارب 70 کروڑ ڈالر بجٹ میں مختض کرنے کو تیار نہیں اور صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ اگر دیوار نہیں، سرکاری کاروبار جائے جہنم میں، میں حکومت کو تالہ لگادوں گا، روک سکو تو روک لو۔
چنانچہ نئے بجٹ پر کام کرنے کے ساتھ امریکی قانون ساز اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ صدر اور کانگریس کی لڑائی میں بے چارے سرکاری ملازم فاقہ کشی کا شکار نہ ہوں اور حکومت چلتی رہے۔ اسی مقصد کیلئے سینیٹر وارنر نے Shutdowns Transferring Unnecessary Pain and Inflicting Damage in the Coming Year متعارف کرایا ہے، جس کا محفف Stupidity ہے۔ مجوزہ قانون میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر نئی مدت کا بجت بروقت منظور نہ ہو سکے تو پرانے بجٹ کے مطابق کام جاری رہے گا تاوقتیکہ کانگریس نیا Spending Bull پاس کرلے، جسے ہمارے یہاں فنانس بل کہا جاتا ہے۔
چائے والے کے بعد اب کافی والا:
ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی بہت فخر سے کہتے ہیں کہ وہ اپنا پیٹ پالنے کے لئے چائے بنا کر بیچتے تھے۔ اب انہی کے نقشِ قدم پر ایک کافی فروش نے 2020ء میں امریکی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اشارہ کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مودی جی ایک بوسیدہ ٹھیلے یا کھوکھے پر چائے بیچتے تھے، جبکہ 65 سالہ ہاورڈ شلٹز (Howard Schultz) مشہور زمانہ اسٹار بکس (Starbucks) کافی کے سربراہ تھے۔ ہارورڈ شلٹز امریکہ کے ان ماہرینِ تجارت میں ہیں، جو ادارے سے اپنی وفاداری کے اظہار کے لئے بلا معاوضہ کام کرتے ہیں۔ چونکہ بلاتنخواہ ملازمت امریکی قانون کے تحت بیگاری شمار ہوتی ہے، اس لئے شلٹز صاحب کی تنخواہ ایک ڈالر ماہانہ تھی۔
نیو یارک کے ایک یہودی گھرانے میں جنم لینے والے ہاورڈ شلٹز نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ہی کافی سے کیا۔ وہ پہلے ایک سوئستانی کمنپی Hammrplast کے سیلز مین تھے۔ یہ کمپنی کافی مشین بناتی ہے۔ Starbucks بھی کافی بنانے کے لئے اسی کمپنی کی مشینیں استعمال کرتی تھی، چنانچہ شلٹز صاحب کا اسٹار بکس سے رابطہ ہوا اور وہ دامنِ اسٹار بکس سے وابستہ ہوگئے، بلکہ اسی کے ہو رہے۔ وہ گزشتہ سال جون میں ریٹائرمنٹ تک اسٹار بکس کی نوکری کرتے رہے۔
مسٹر شلٹز ایک مزدور دوست آجر ہیں۔ انہوں نے اسٹرابکس کے تمام ملازمین کو صحت و تعلیم کی سہولت مفت فراہم کی اور ان مراعات کا دائرہ دہاڑی داروں تک پھیلا ہوا تھا۔ اسٹاربکس اپنے ملازمین کو اپنے مسابقت کاروں سے زیادہ تنخواہ دیتا ہے اور ادارہ عمر رسیدہ لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
ہارورڈ شلٹز کا کہنا ہے کہ اگر انہوں نے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو وہ ڈیموکریٹ یا ریپبلکن کے بجائے آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتریں گے۔ ان کے اس اعلان سے ڈیموکریٹک پارٹی ناخوش ہے، اس لئے کہ اپنے لبرل سیاسی منشور اور مزدور نواز رویئے کی بنا پر وہ ڈیموکریٹس کے ووٹ کاٹیں گے۔
(نوٹ: اب آپ ہماری سوشل میڈیا کی پوسٹیں اور اخباری کالمز masoodabdali.blogspot .com پر بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔) ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More