دفتر خارجہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر اور امریکی سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی، آرمڈ سروسز اور بجٹ کمیٹیوں کے سینئر رکن لنزے گراہم نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنا امریکہ کی غلطی تھی اور امریکہ کو پاکستان کے حوالے سے بار بار اپنی پالیسی کو تبدیل نہیں کرنا چاہئے تھا۔ سینیٹر لنزے گراہم نے مزید کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں پاک فوج کی خدمات قابل ستائش ہیں اور پاکستانی فوج نے ان علاقوں میں جو کامیاب آپریشن کئے ہیں، جس کے بعد ان علاقوں میں امن و امان کے حوالے سے بہت بہتری آئی ہے۔ جنوبی اور شمالی وزیرستان کے حالات آج بہت اچھے ہو چکے ہیں اور ان میں بتدریج بہتری آرہی ہے۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اگر پاکستان اور امریکہ مشترکہ آپریشنز کریں تو یہ گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ سے اپنی ملاقات میں انہوں نے اندازہ لگایا کہ وہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں بہت پرعزم اور سنجیدہ ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کی سرحد پر جو باڑ نصب کی ہے، وہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے ایک قابل تحسین اقدام ہے، لیکن اچھا ہوتا کہ افغانستان بھی اپنی سرحدوں پر باڑ لگاکر اپنی سرحدوں کو محفوظ بناتا۔ سینیٹر لنزے گراہم نے مزید کہا کہ ہم افغانستان سے نہ دور جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اس کو کھونے کے متحمل ہو سکتے ہیں، کیونکہ امریکہ افغانستان میں ابھی بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ افغانستان ایک بار پھر سے شدت پسندوں کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہو۔ پاکستان میں استحکام امریکہ کے مفاد میں بھی ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ صدر ٹرمپ کے ٹوئٹس مسائل پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں قیام امن کیلئے اور افغان مسئلہ کو حل کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔
امریکی سینیٹر لنزے گراہم کے یہ اعترافات دراصل پہلی مرتبہ امریکہ کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے پاکستان کے اصولی مؤقف کو تسلیم کئے جانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مسلسل اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں اور اس کی تمام تر ذمے داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے، جس نے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے مثبت کردار کو تسلیم کرنے کے بجائے اس پر مستقل تنقید کرتے ہوئے اسے دبائو میں رکھنے کی کوشش کی۔ امریکہ کو اس بات کا ادراک رہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا حلیف اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرکے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اس نے اس جنگ میں امریکہ اور نیٹو سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی ان قربانیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ہمیشہ ڈومور کا مطالبہ کیا، جس کا واضح مقصد پاکستان کی قربانیوں سے صرف نظر کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
پاکستان نے افغانستان کی جنگ میں امریکہ کا جس طرح سے ساتھ دیا ہے، اس کا اعتراف سمجھدار امریکی بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر امریکہ افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، بلکہ اگر پاکستان افغانستان میں امریکی فوج کے ساتھ تعاون نہ کرے تو امریکی فوج کی حالت اس مچھلی کی طرح ہوجائے گی جسے پانی سے نکال کر خشکی پر ڈال دیا گیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اگر افغانستان میں سترہ برس سے
جنگ لڑرہا ہے تو یہ پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہ تھا، کیونکہ امریکی فوج کیلئے سپلائی پاکستان کے مختصر اور سستے ترین روٹ سے ہی ممکن ہوسکی ہے۔ سلالہ میں پاکستانی فوجیوں کی شہادتوں کے بعد جب پاکستان نے اپنی سرزمین سے امریکہ اور نیٹو کی سپلائی روکی تھی تو امریکہ کو طویل ترین ناردرن روٹ کو استعمال کرنا پڑا تھا، جہاں اس کی سپلائی کے اخراجات کئی گنا بڑھ گئے تھے۔ جبکہ اس سپلائی کو افغانستان جانے میں زیادہ وقت بھی لگتا تھا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات اور دھمکیوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ پاکستان نے اربوں ڈالرز کی امداد حاصل کرنے کے باوجود امریکہ کیلئے کچھ نہیں کیا، جس پر وزیراعظم عمران خان نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ چنانچہ اب امریکی سینیٹر لنزے گراہم کا یہ کہنا کہ پاکستانی فوج نے دہشت گردی کی جنگ میں گزشتہ اٹھارہ ماہ میں جو کچھ بھی کیا ہے، وہ امریکہ کی اٹھارہ برس کی خواہش تھی۔ گویا لنزے گراہم نے اس بات کا اعتراف بھی کرلیا کہ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف
جو بیانات دیئے تھے، وہ سب غلط تھے۔ ٹرمپ نے تو خود بھی پسپائی اختیار کی جب انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے افغانستان میں امریکی فوج کی واپسی کیلئے تعاون کی درخواست کی، کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ انہوں نے افغانستان کی جنگ کے حوالے سے پاکستان پر جو الزامات بھی عائد کئے تھے وہ غلط، بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی تھے۔ ٹرمپ کو بالآخر اس حقیقت کا احساس ہو ہی گیا کہ افغانستان کے مسئلے کے پرامن حل کیلئے پاکستان کا کردار مرکزی اور کلیدی نوعیت کا ہے۔ چنانچہ انہیں پاکستان کے آگے جھکنا ہی پڑا۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ امریکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس نے افغانستان میں بھارت کو وسیع کردار دینے کی ہمیشہ حمایت کی ہے، جبکہ بھارت کا افغانستان میں سرے سے کوئی کردار ہے ہی نہیں۔ بھارت افغانستان میں موجود رہ کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتا ہے اور اپنے اس مشن میں بھارت کو امریکہ کی مدد و حمایت بھی حاصل ہے۔ چنانچہ پاکستانی حکومت کو امریکہ پر یہ بات واضح کردینا چاہئے کہ وہ افغانستان میں بھارت کے کردار کو ناصرف محدود کرے، بلکہ پاکستان کے خلاف بھارت کے اقدامات کی حمایت سے بھی دستبردار ہو جائے، اسی صورت میں پاکستان امریکی فوج کی افغانستان سے باعزت اور محفوظ واپسی میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اب امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ افغانستان کو شدت پسندوں کے ہاتھوں میں
ناجانے دیا جائے تو اسے اس کیلئے اپنی سنجیدگی دکھانا ہوگی۔ واضح رہے کہ 1989ء میں جنیوا معاہدے کے بعد جب سوویت افواج افغانستان سے واپس چلی گئیں تو امریکہ نے افغانستان میں قومی حکومت کے قیام کے بجائے آنکھیں پھیر لی تھیں، جس کے بعد افغانستان میں حصول اقتدار کیلئے بڑے پیمانے پر خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ جس کے باعث پڑوسی ممالک بھی افغانستان کی خانہ جنگی سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ امریکہ کو اب افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کے بعد قیام امن اور ایک ایسی حکومت کے قیام کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا، جس میں افغانستان کے تمام سیاسی دھڑوں کو شامل کیا جائے۔ کیونکہ ایسی صورت میں ہی افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ اگر امریکہ نے اب بھی طالبان کو افغانستان میں قائم کی جانے والی حکومت سے دور رکھنے کی کوشش کی تو پھر افغانستان میں قیام امن ایک خواب ہی رہے گا۔
طالبان کو نظرانداز کرنا اور انہیں حکومت سے دور رکھنا ایک زبردست غلطی ہوگی۔ طالبان افغانستان کی ایک حقیقت اور حقیقی طور پر افغانستان کی ایک قوت ہیں، انہیں اقتدار میں شریک کرنا خوش آئند اور افغانستان میں قیام عمل کیلئے ایک اچھا قدم ہوگا۔ اسی طرح افغانستان میں بھارت کے کردار کو محدود کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ طالبان بھی افغانستان میں بھارتی موجودگی سے خوش نہیں، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے رابطے کی کوششوں کا طالبان نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ کیونکہ طالبان بھی افغانستان میں بھارتی کردار کے مخالف ہیں اور چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں دخل اندازی نہ کرے۔
افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پاکستانی کردار اور اقدامات کو تسلیم نہ کرنا تنگ نظری کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ امریکہ کے جنرل جوزف ایل ووٹل نے جو سینیٹر لنزے گراہم کے ساتھ پاکستان کے دورے پر آئے تھے، خطے میں امن و استحکام کیلئے پاک فوج کی کوششوں کی تعریف کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جس وقت امریکی صدر ٹرمپ افغان جنگ کے حوالے سے پاکستان کو سخت ہدف تنقید بنا رہے تھے تو دوسری جانب پنٹاگون افغان جنگ میں پاکستانی فوج کے کردار کو سراہتے ہوئے اس کی تعریف کر رہا تھا۔٭
Prev Post
Next Post