افراسیاب خٹک کو پشتون تحفظ موومنٹ کا سربراہ بنانے کی کوشش

0

امت رپورٹ
حکومت کی جانب سے پشتون تحفظ مومنٹ کے کئی مطالبات تسلیم کئے جانے کے باوجود پی ٹی ایم کے کرتا دھرتا بیرون ملک سے تنظیم کو این جی اوز کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے سماجی کارکنوں کے نام پر پنجاب کے این جی اوز اہلکاروں کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نہ صرف توجہ ہٹائی جائے، بلکہ پنجاب میں کریک ڈائون سے تحقیقاتی اداروں پر دبائو بڑھ جائے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بین الاقوامی اور قومی میڈیا کے نمائندوں کو شمالی وزیرستان کا دورہ کرایا تو اس کے دوسرے روز ہی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ کسی کے شمالی وزیرستان جانے پر پابندی نہیں ہے۔ جس پر پی ٹی ایم کے ساتھ تعاون پر اے این پی سے نکالی گئی سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر اور ان کے ساتھی، خیسور واقعہ کے نام پر وزیرستان پہنچ گئے اور انہوں نے وہاں حیات خان وزیر کے گھر جاکر تصاویر بنائیں۔ پھر یہ تصاویر بین الاقوامی میڈیا میں شیئر کی گئیں۔ اس کا مقصد بین الاقوامی اور قومی میڈیا کے دورۂ شمالی وزیرستان سے پاکستان کا جو امیج بنتا جارہا تھا، اس کو کائونٹر کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب سے ندا کرمانی سمیت دیگر سماجی کارکنوں نے سرخ سلام کے نام پر ان خواتین کے وزیرستان جانے کو سوشل میڈیا پر پھیلانا شروع کر دیا۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ منظور پشتین کے پیچھے افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر سمیت اے این پی کے وہ لوگ کھڑے ہیں، جو ماضی میں پختونستان کے لئے تحریک چلانے میں پیش پیش تھے۔ اب یہ افراد اسی تحریک کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر سمیت اے این پی کے بعض رہنما، پارٹی کے حکومت میں شامل ہونے اور پاکستان کے آئین کے ساتھ جڑے رہنے کی پالیسی کے خلاف تھے۔ تاہم ماضی میں بشریٰ گوہر، جمیلہ گیلانی اور افراسیاب خٹک نے نہ صرف حکومتوں کے مزے اڑائے، بلکہ حکومتی وسائل بھی استعمال کئے۔ اے این پی حکومت میں انہوں نے سرکاری وسائل کو اپنے اور اپنے ساتھیوں کیلئے استعمال کیا۔ لیکن اب چونکہ انہیں دنیا کے ساتھ رابطہ کرنے کے لئے کافی وسائل دستیاب ہیں، اس لئے وہ پی ٹی ایم کی آڑ میں اپنے پرانے مطالبات کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ ذرائع کے بقول افراسیاب خٹک کی پاکستان کے ساتھ مخاصمت کی بنیادی وجہ ان کے سالے ڈاکٹر نجیب کی طالبان کے ہاتھوں پھانسی ہے۔ کیونکہ یہ ڈاکٹر نجیب کے مشیر بھی تھے اور ڈاکٹر نجیب کی بہن کے شوہر بھی ہیں۔ لہذا ڈاکٹر نجیب کی پھانسی پر ان کا یہ خیال تھا کہ اس پھانسی کے پیچھے پاکستان کے اداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم کئی سال کی تحقیقات کے بعد بھی یہ بات ثابت نہ ہوسکی کہ پاکستان کا ڈاکٹر نجیب کی پھانسی میں ہاتھ تھا۔ ذرائع کے بقول افراسیاب خٹک کی پاکستانی ریاست کے ساتھ مخاصمت کی بنیادی وجہ پختونوں کے حقوق نہیں، بلکہ ذاتی رنجش ہے۔ جبکہ بشریٰ گوہر اور دیگر افراد جن میں جمیلہ گیلانی، ڈاکٹر سید عالم محسود اور دیگر لوگ شامل ہیں، وہ باہر سے آنے والی امداد کے منتظر ہیں کہ این جی اوز کے ذریعے انہیں پیسے ملیں گے۔ بشریٰ گوہر کا این جی اوز چلانے کا وسیع تجربہ ہے۔ جبکہ دیگر افراد نے بھی این جی اوز چلائی ہیں۔ سید عالم محسود اس سے قبل کوریڈور فرنٹ کے نام پر سی پیک کے خلاف پوری مہم چلا چکے ہیں۔ اس لئے سید عالم کا پی ٹی ایم کے ساتھ وابستہ ہونا لوگوں کی سمجھ میں آتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اصل میں منظور پشتین کو یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ان سے بڑے لوگ ان کے پیچھے کیوں کھڑے ہیں۔ ان سے بڑے سیاسی پارٹیوں کے عہدوں پر رہنے والے انہیں اپنا رہنما کیوں تسلیم کر رہے ہیں۔ اصل میں ایک سادہ پشتون نوجوان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی ایم کے اندر اس بات پر اختلافات ہیں کہ ہمارے جن سے گلے اور شکوے ہیں، انہیں گالیاں دی جاتی ہیں، جبکہ پشتون روایات کے مطابق جن کے ساتھ مسئلے ہوتے ہیں، جن کے ساتھ جرگے ہوتے ہیں، ان سے عزت و احترام کے ساتھ پیش آنا ہوتا ہے، تاکہ مسائل کو حل کیا جا سکے۔ تاہم بار بار صرف ایک ادارے کو، جس کا تعلق صرف سیکورٹی سے ہے، نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی ایم کو تعاون فراہم کرنے کے تانے بانے جرمنی، ہالینڈ، فرانس، برطانیہ، امریکہ، افغانستان، بھارت اور جنوبی افریقہ سے مل رہے ہیں۔ ایسے پاکستانی جو ماضی میں افغان طالبان، کالعدم ٹی ٹی پی اور پاکستان کے سیکورٹی اداروں سے تحفظ کا بہانا کر کے مختلف ممالک میں جا بسے ہیں، وہاں سے وہ پی ٹی ایم کو سوشل میڈیا پر سپورٹ فراہم کر رہے ہیں۔ ان افراد کی پاکستان کے ساتھ ایک خاص دشمنی ہے۔ اس حوالے سے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان کے ایک معروف صحافی کو بتایا کہ انہیں جرمنی کے ایک قصبے میں ایک اجلاس میں بلایا گیا تھا۔ جب وہ اجلاس میں گئے تو وہاں سندھ، خیبرپختون، پنجاب اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں مقیم چند پاکستانی بھی موجود تھے۔ تاہم جب اجلاس میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے خلاف باتیں شروع ہوئیں اور پی ٹی ایم کو ایک مظلوم تحریک کے طور پر پیش کرنے کی بات ہوئی تو انہوں نے احتجاج کیا کہ وہ نہ صرف پشتون ہیں، بلکہ خیبرپختون کے ایک ایسے شہر سے تعلق رکھتے ہیں، جس نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے۔ جو لوگ یہاں یہ باتیں کر رہے ہیں وہ غلط ہیں۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو پختون کے مسائل کا کیا علم ہے۔ سوات، دیر اور دیگر علاقوں میں ٹی ٹی پی کے خلاف فوج کے آپریشن کے بارے میں انہیں کوئی معلومات نہیں ہیں، لہذا انہیں بات نہیں کرنی چاہیے۔ اس پر اجلاس میں تو تو میں میں شروع ہوگئی اور اجلاس اختلافات کی نذر ہوکر ختم ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پہلی بار یہ معلوم ہوا کہ یورپی ممالک میں اس طرح کے اجلاس منعقد کئے جارہے ہیں۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ پی ٹی ایم کے بعض حامی جو مختلف یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس ہیں، انہیں اب یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ انہیں ریاست سے لڑانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ریاست میں بھی انہیں صرف اور صرف فوج کے ساتھ لڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیونکہ جب وہ حکومت یا کسی سول ادارے کی بات کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوگا اور فوج اقتدار میں آئے گی، لہذا سیاست پر بات نہ کریں۔ بڑی تعداد میں اسٹوڈنٹس جو پہلے پی ٹی ایم کے ساتھ تھے، اب انہوں نے اپنی سوچ تبدیل کی ہے۔ ذرائع کے بقول پی ٹی ایم میں اگر یہ اختلافات اسی طرح جاری رہے تو پی ٹی ایم افراسیاب گروپ، جس میں بشریٰ گوہر، علی وزیر اور محسن داوڑ، جن کا ماضی میں اے این پی سے تعلق رہا ہے، ایک طرف ہوں گے۔ جبکہ سید عالم اور ان کا گروپ دوسری جانب ہوگا، جس میں کوریڈور فرنٹ کے حامی شامل ہیں۔ تاہم منظور پشتین اور ان کے ساتھی ایک تیسرے گروپ میں چلے جائیں گے۔ ذرائع کے بقول بڑے پیمانے پر یہ کوشش ہو رہی ہے کہ پی ٹی ایم کو کسی بڑے آدمی کے ہاتھ میں دیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ باچا خان کی برسی پر لکھے گئے افراسیاب کے مضمون کو بین الاقوامی میڈیا اداروں نے شائع کیا۔ حالانکہ انہیں اے این پی سے نکال دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ولی خان نے اپنی زندگی میں افراسیاب خٹک کو اے این پی میں شامل کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ تاہم بعد میں اسفندیار ولی بین الاقوامی دبائو پر انہیں حکومت میں شامل کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق فی الحال پی ٹی ایم کو گروپ بندی سے بچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم یونیورسٹی کے وہ طلبہ جو پی ٹی ایم کے سب سے مضبوط حامی تصور کئے جاتے ہیں، انہوں نے اپنے راستے جدا کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اس حوالے سے حال ہی میں کئی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے کئی اداروں کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں بتایا ہے کہ ان کا مطالبہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کے ساتھ تعلیم اور صحت کی بحالی ہے، جس کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہماری ریاست پاکستان یا فوج کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ہم ریاست پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ذرائع کے مطابق منظور پشتین کو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کو فنڈ کہاں سے مل رہا ہے۔ تاہم فنڈنگ کا سارا ذریعہ این جی اوز کی طرف سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی این جی اوز کو استعمال کیا جارہا ہے۔ کیونکہ خیبرپختون کی این جی اوز اس حوالے سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ ماضی میں مشکل حالات بھگت چکی ہیں اور انہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ پی ٹی ایم کے جو جائز مسائل ہیں، وہ تمام قوم کے مسائل ہیں اور ان کو حل کرنے کیلئے حکومت اور قوم کو مل کر کوشش کر نا ہوگی۔ امن، تاجروں سے لیکر عام مزدوروں کی ضرورت ہے۔ جبکہ امن کی صورت میں چیک پوسٹیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ صحت اور تعلیم کے بنیادی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر شروع کردی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی ایم کے ساتھ ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاء الدین یوسف زئی بھی تعاون کرنے کے خواہاں ہیں، تاہم وہ کھل کر سامنے نہیں آرہے ہیں۔ جبکہ جنوبی افریقہ، سوئٹزرلینڈ اور دیگر ممالک میں موجود ایم کیو ایم (الطاف) اور بلوچستان کے فراری پی ٹی ایم کے ساتھ الحاق کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم کو پوری دنیا میں خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ جبکہ بلوچستان کے فراریوں اور ایم کیو ایم (الطاف گروپ) کی ناکامیوں کے بعد انہیں بین الاقوامی نشریاتی ادارے کوئی خاص توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ بھارت، افغانستان اور سابق کمیونسٹ جو پختونستان کے حامی ہیں وہ افغانستان میں نہ صرف پی ٹی ایم کے لئے مظاہرے کر رہے ہیں بلکہ افغانستان میں ان کیلئے سوشل میڈیا بھی چلا رہے ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ شروع میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو مکمل نظر انداز کرنے کے بعد اب بھارت میں ڈاکٹر نجیب کے اہل خانہ الطاف حسین اور پی ٹی ایم کے درمیان ایک اتحاد قائم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ تاہم انہیں ان کوششوں میں اس لئے کامیابی نہیں مل رہی ہے کہ اگر اعلانیہ طور پر پی ٹی ایم اور الطاف حسین کا اتحاد ہوگیا تو پی ٹی ایم کئی دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ کیونکہ الطاف حسین ماضی میں پختونوں کے قتل عام میں ملوث رہا ہے اور کراچی میں پختونوں کے کاروبار اور ان کی زندگیوں کو تباہ کرنے میں الطاف حسین اور اس کے ٹولے کا ہاتھ ہے۔ جبکہ متاثرین میں وہ قوم پرست بھی شامل ہیں جن کا کاروبار کراچی میں تھا اور اس میں محسود اور وزیر قبائل بھی الطاف اور اس کے ٹولے کا نشانہ بنے ہیں۔ لہذا اس کے ساتھ اتحاد سے نہ صرف محسود بلکہ داوڑ اور وزیر قبائل بھی ان کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ایک غیر اعلانیہ اتحاد کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اب الطاف حسین اور منظور پشتین کیلئے ایک ہونا یا اتحاد بنانا اس لئے غیر موثر ہورہا ہے کہ افغانستان میں اگر امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہو جاتا ہے تو انڈیا کسی ایسے اتحاد کی سرپرستی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اس طرح کے کسی بھی اتحاد کی سرپرستی میں بھارت کو افغانستان میں نہ صرف اپنی بھاری سرمایہ کاری سے ہاتھ دھونا پڑے گا بلکہ اسے اپنے سفارتی تعلقات میں بھی مشکلات کا سامنا ہو گا۔
ادھر ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں کی فنڈنگ پر چلنے والی پشتون تحفظ موومنٹ نے کراچی میں پنجے گاڑنے شروع کر دیئے ہیں۔ تنظیم کے کارندے شہر کے سات علاقوں میں نیٹ ورک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک دشمن تنظیم ایک سال کے دوران قائد آباد، شاہ لطیف ٹاؤن، گڈاپ، گلشن معمار اور سہراب گوٹھ میں جلسے کرچکی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی ادارے پی ٹی ایم کی سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں کیونکہ یہ تنظیم کالعدم فرقہ ورانہ جماعتوں اور علیحدگی پسند گروپوں سمیت متحدہ لندن کے دہشت گردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے کراچی میں اپنے پائوں جما سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پشتون تحفظ موومنٹ کے کراچی میں 5 گروپ زیادہ سرگرم ہیں۔ سہراب گوٹھ میں عبدالوحید محسود کا گروپ، بن قاسم میں امین گل، شاہ لطیف ٹاؤن میں ڈاکٹر جمیل، الآصف اسکوائر اور سپرہائی وے کے اطراف کی آبادیوں میں عالم زیب اور گلشن معمار میں گل شیر محسود کے گروپ متحرک ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی اور سیکورٹی اداروں کی مربوط حکمت عملی کے باعث پی ٹی ایم اب تک بمشکل ہزار پندرہ سو کارکن بناسکی ہے اور تنظیم کا مستقل دفتر نہیں کھولا گیا ہے۔ اس کے کارکنان مضافاتی آبادیوں میں چوری چھپے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور موقع دیکھ کر حکومت مخالف مختصر سی ریلی نکال کر فرار ہوجاتے ہیں۔ بعدازاں سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیوں کی تشہیر کرتے ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کیخلاف کراچی کے تھانوں میں درج 4 مقدمات ہیں اور پولیس نے تاحال صرف ایک ذمہ دار عالم زیب کو گرفتار کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اے این پی اور تحریک انصاف کے جرائم پیشہ کارکن پارٹیاں چھوڑ کر پشتون تحفظ موومنٹ میں شامل ہورہے ہیں۔ کراچی میں نقیب اللہ کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ نے الآصف اسکوائر پر دیئے گئے احتجاجی دھرنے میں اپنی دکان چمکانے کی کوشش کی تھی، لیکن کراچی میں مقیم پشتونوں نے انہیں لفٹ نہیں کرائی۔ محسود، وزیر اور داوڑ قبائل کے لوگوں نے ان کو دھرنے سے نکال دیا تھا۔ کراچی میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے، جو لانڈھی، قائد آباد، گلشن بونیر، اتحاد ٹاؤن، شاہ لطیف ٹاؤن، گلشن معمار، سہراب گوٹھ، ٹول پلازہ سے سپرہائی
تک اطراف کی آبادیوں، پہلوان گوٹھ، اورنگی ٹائون، فقیر کالونی، منگھوپیر کالونی، پشتون کالونی، سلطان آباد، اورنگی عابد آباد، گلشن غازی، میانوالی کالونی، ناتھا خان گوٹھ، شریں جناح کالونی، کیماڑی، سکندر آباد، ڈاکس، مچھر کالونی اور رشید آباد سمیت دیگر علاقوں میں آباد ہیں۔ جبکہ ان کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے۔ نقیب اللہ کی جعلی مقابلے میں ہلاکت پر پی ٹی ایم نے کراچی کے پشتونوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن اس کو کامیابی نہیں ہوئی۔ ذرائع کے مطابق اب وہ علیحدگی پسند تنظیموں، فرقہ پرست جماعتوں اور ایم کیو ایم الطاف کے دہشت گردوں سے گٹھ جوڑ کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ ملک دشمن تنظیم حکومت اور فوج کیخلاف ریلیاں نکالتی ہے اور قومی اداروں کیخلاف سوشل میڈیا پر غلیظ مہم چلاتی ہے۔ کراچی میں سیکورٹی اداروں کی کارروائیوں میں جہاں داعش، القاعدہ، ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی اور جند اللہ جسی تنظیموں کے نیٹ ورک توڑے گئے۔ وہیں ملک دشمن ایجنسیوں کی فنڈنگ سے چلنے والی پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی ایم زیادہ پنب نہیں سکی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان ایجنسی این ڈی ایس کراچی میں کالعدم تنظیموں کے بچے کھچے دہشت گردوں کو یکجا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ نئے سیٹ اپ میں سندھ اور بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں، ایم کیو ایم لندن گروپ اور پشتون تحفظ موومنٹ کو شامل کرکے ملک میں بڑے ڈیموں کی تعمیر اور سی پیک کیخلاف مہم شروع کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں پمفلٹ تقسیم کررہی ہے اور بعض علاقوں میں چندہ بھی مانگا جارہا ہے۔ لیکن پی ٹی ایم کا مستقل دفتر تاحال نہیں کھل سکا ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی ایم رہنمائوں کیخلاف بن قاسم تھانے میں مقدمہ نمبر 98/2018 سرکاری مدعیت میں زیر دفعات 500-149-148- A/505-153-124/A کے علاوہ RW 6/7 A7A کے تحت درج ہوا تھا۔ لیکن کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ اس سے قبل شاہ لطیف ٹاؤن کے علاقے میں امان خٹک نامی شخص کے گھر پر پی ٹی ایم کی ایک مٹنگ ہوئی تھی جس میں علی وزیر، ڈاکٹر جمیل اور محسن داوڑ شامل تھے۔ تاہم پولیس اور رینجرز کے چھاپے پر یہ لوگ فرار ہوگئے تھے۔ بعدازاں امان خٹک کو حساس اداروں نے تفتیش کیلئے بلوایا تھا۔ اس میٹنگ کے حوالے سے مقدمہ نمبر 303/18 شاہ لطیف ٹاؤن تھانے میں درج ہوا تھا۔ لیکن کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ بعد ازاں الاصف اسکوائر کے قریب میدان میں پی ٹی ایم نے 13 مئی 2018ء کو جلسہ کیا، جو ناکام رہا تھا۔ کیونکہ محسود اور وزیر قبائل کے لوگ نہیں آئے تھے۔ اس کے بعد کراچی میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں، ذمہ داروں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوتا رہا۔ پھر 7 ماہ بعد پی ٹی ایم کے لوگ منظر عام پر آئے اور 4 جنوری کو گلشن معمار کے علاقے موسیٰ خلیل گوٹھ میں ریلی نکالی گئی، جس میں دو ڈھائی سو افراد شامل تھے۔ اس دوران فوج اور حکومت کے خلاف تقاریر کی گئیں۔ جس پر گلشن معمار تھانے میں مقدمہ نمبر 09/19 زیر دفعات 147-148-149-341-153-405- RM 6/7 ATA درج ہوا۔ اس کیس میں گل شیر محسود، نور اللہ، اخترخان، محمد شیر، دلیل خان، آفتاب اچکزئی کے علاوہ 250 نامعلوم افراد نامزد ہیں۔ لیکن تاحال کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ پی ٹی ایم نے 20 جنوری 2019ء کی شام الاصف اسکوائر کے قریب جلسہ کیا، جس پر سہراب گوٹھ تھانے میں مقدمہ نمبر 22/2019 زیر دفعات RW 6/7/ATA-147-149-186-153-153/A-500-505 A/B درج ہوا۔ اس میں 16 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ یہ جلسہ عالم زیب نے کرایا تھا۔ بعدازاں ملیر پولیس نے عالم زیب کو ڈیفنس سے گرفتار کرلیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عالم زیب سے تحقیقات میں کراچی میں پی ٹی ایم کے نیٹ ورک اور منظور پشتین کی جانب سے دیئے گئے ٹاسک کے حوالے سے اہم معلومات ملی ہیں، جن کی روشنی میں پی ٹی ایم کے ذمہ داران کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ جبکہ تحقیقاتی اداروں نے مضافاتی علاقوں، خصوصاً پشتون آبادیوں کی نگرانی سخت کردی ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں پی ٹی ایم کے گروپوں میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل، حاجی بانوت، جاوید رحیم اور رضوان اللہ اپنے حامی کارندوں کو پی ٹی ایم کے پروگرامز میں نہیں بھیج رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کی کمان ڈاکٹر جمیل، علی وزیر اور رضوان اللہ سنبھالنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب ملک دشمنی اور بیرونی آقائوں کے اشاروں پر فوج، حکومت اور عدلیہ کے خلاف مہم چلانے پر کارکن پی ٹی ایم کو چھوڑتے جارہے ہیں۔ پی ٹی ایم پر کراچی تاحال کنٹرول علی وزیر کا ہے۔ پی ٹی ایم کی سرگرمیاں زیادہ تر ضلع ملیر کے علاقوں میں ہیں۔ اس کے کیخلاف ملک اور قومی اداروں کے خلاف جلسے کرنے، ریلیاں نکالنے، لوگوں کو بغاوت پر اکسانے پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت بن قاسم، شاہ لطیف ٹاؤن، گلشن معمار اور سہراب گوٹھ تھانوں میں مقدمات درج ہیں۔ اس حوالے سے ضلع ملیر کے ایس ایس پی عرفان بہادر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چند روز قبل الٓاصف اسکوائر پر پی ٹی ایم کا جلسہ ہوا تھا، جس میں عالم زیب نامی شخص نے ملک دشمنی پر مبنی تقریر کی تھی۔ عالم زیب کو ڈیفنس سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی کی جانب سے واضع احکامات ہیں کہ دیگر کالعدم تنظیموں کی طرح پی ٹی ایم پر بھی کڑی نگرانی رکھی جائے۔ ضلع ملیر کے تمام تھانوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ درج مقدمات میں مفرور افراد کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جائیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More