اَنا کے گنبد کا قیدی

0

صاحبو! ہمارا رب اپنے بندو ں کو جس شان سے ہدایت عطا فرماتا ہے، اس کا تصور بھی محال ہے۔ عمر بن خطابؓ نبی مہربانؐ کو قتل کرنے کا عزم لے کر گھر سے نکلے اور جب دارِ ارقم سے باہر آئے تو فرمایا ’’خدا کی قسم اس زمین پر مجھے محمدؐ سے محبوب اور کوئی نہیں۔‘‘ پھر وہی عمرؓ جو خود کو ’’ناکام چرواہا‘‘ کہتے تھے، قیامت تک کیلئے فاروق اعظمؓ قرار پائے۔
کچھ ایسا ہی واقعہ ہالینڈ میں پیش آیا کہ شاتمِ رسول گیرٹ وائلڈرز (Geerat Wilders) کے دستِ راست ڈچ سیاستدان جورم وان کیلیورین (Joram van Klaveren) نے اسلام قبول کر لیا۔
39 سالہ جورم، گیرٹ کی قوم پرست ڈچ فریڈم پارٹی المعروف PVV کے رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔ PVV کا نصب العین ہی سرزمینِ یورپ کو اسلام سے پاک کرنا ہے۔ خدا نے جورم کو اپنی مہربانی سے قلبِ سلیم عطا کیا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ جب گیرٹ وائلڈرز نے مراکشیوں کے بارے میں نفرت انگیز بات کہی تو جورم یہ کہہ کر PVV سے الگ ہوگئے کہ ان کا ضمیر نسلی منافرت کو قبول نہیں کرتا۔
اپنے قبول اسلام کا ذکر کرتے ہوئے جورم نے کہا کہ وہ اسلام اور پیغمبرِ اسلامؐ کے خلاف اپنی نئی کتاب کیلئے ریسرچ کر رہے تھے۔ اس دوران جب انہوں نے سیرتِ مبارکہ کے چند پہلوئوں کا ’’تنقیدی‘‘ جائزہ لیا تو محسن انسانیتؐ کی زندگی نے ان کی فکر کو تبدیل کردیا۔ گزشتہ روز ریڈیو پر انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔
قرآن میں خدا نے اپنی قدرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کہ ’’وہی رلاتا اور وہی ہنساتا ہے۔‘‘ ابھی چند دن پہلے گیرٹ وائلڈرز نے ٹویٹ پر ایک نیا گستاخانہ خاکہ جاری کیا تھا، جس کی تفصیل سے متعلق سے کچھ لکھنا بھی ہمارے لئے ناممکن ہے۔ اس خاکے کے نیچے گیرٹ نے لکھا کہ ’’انہیں بھی اسی جیل میں بند کردو، جہاں میرے قتل کا فتویٰ دینے والا علامہ خادم حسین رضوی بند
ہے۔‘‘ یہ دیکھ کر بے اختیار ہمارے آنسو نکل گئے اور ہم نے عمران خان کے قریبی رفقا کے ذریعے وزیر اعظم کو ایک ذاتی درخواست بھجوائی کہ اگر آپ علما کو رہا نہیں کر سکتے تو کم از کم گیرٹ وائلڈرز کو یہ جواب تو دیں کہ علماء کی گرفتاری اس ملک کا اندرونی معاملہ ہے، لیکن تم جیسے شاتمین سے نفرت میں ہم سب ایک ہیں۔
انا کے گنبد میں بند عمران خان نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن Joram van Klaveren کے قبول اسلام کی خبر سے دل باغ باغ ہوگیا۔ یقیناً وہی رلاتا اور وہی ہنساتا ہے۔
چھ سال قبل اسلام قبول کرنے والے گیرٹ وائلڈرز کے ایک ساتھی اور ڈچ سیاستدان Around van Door نے جورم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ گیرٹ کی اسلام مخالف PVV پارٹی ہالینڈ میں اسلام کی اکیڈمی اور دعوت کا مرکز بن جائے گی۔ ان شاء اللہ۔
امن مذاکرات اور جنگ کی تیاری:
افغان امن مذاکرات کے ساتھ ہی امریکی سینیٹ، خفیہ ایجنسیوں اور وزارت دفاع کی طرف سے متضاد اشاروں سے طالبان کو خدشہ ہے کہ امریکہ مذاکرات کو غیر ضروری طول دے کر جنگ میں مصروف چھاپہ ماروں کی توجہ میدان سے ہٹانا چاہتا ہے۔ گوریلا جنگ میں سست پڑتے سپاہی کو دوبارہ سربکف کرنا بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ نے اپنے فیلڈ کمانڈروں کو تاحکم ثانی جنگ جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔ گزشتہ دنوں طالبان کے ترجمان نے افغان حکومت کو سرکاری فوج تحلیل کردینے کا مشورہ دیا تھا، جس پر ڈاکٹر اشرف غنی نے مشتعل ہوکر کہا کہ ملا امریکہ کی جانب سے مذاکرات کی دعوت پر آپے سے باہر ہوگئے ہیں اور اگر طالبان میں ہمت ہے تو مردوں کی طرح سامنے آکر لڑیں۔
ان کا چیلنج قبول کرتے ہوئے پیر کو طالبان صبح سویرے بغلان صوبے کے شہر بغلانِ مرکزی کے پولیس مرکز پر چڑھ دوڑے اور کمانڈر سمیت 10 سپاہیوں کو ہلاک کردیا۔ جاتے ہوئے پیدل آنے والے چھاپہ مار پولیس کی جدید گاڑیوں میں لوٹے ہوئے اسلحے کے ساتھ وہاں سے شمال میں قندوز کی طرف روانہ ہوئے اور منگل کو علی الصبح قندوز شہر کی ایک چوکی پر حملہ کرکے 28 افغان فوجیوں کو مار ڈالا۔ صبح 2 بجے شروع ہونے والی یہ کارروائی دو گھنٹہ جاری رہی، جس میں 20 افغان سپاہی شدید زخمی بھی ہوئے۔ طالبان کے اعتماد کا یہ عالم کہ لڑائی کے بعد واپسی سے پہلے انہوں نے وہیں فجر کی باجماعت نماز بھی ادا کی۔
حملے کے بعد ایک پیغام میں طالبان نے ایک بار پھر افغان فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی فوج رہے یا جائے، سارے افغانستان پر طالبان کی گرفت مضبوط ہے اور امارات اسلامی کے باغیوں کی افغانستان میں کوئی جگہ نہیں۔
احباب کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ قندوز شمال مشرقی افغانستان میں تاجکستان کی سرحد پر واقع ہے۔ قندوز شہر میں فارسی بانوں کی اکثریت ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران فارسی بان علاقوں میں طالبان کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پشتونوں کے ساتھ تاجک، ازبک اور دوسرے فارسی بانوں میں بھی طالبان کا اثرو رسوخ بڑھ رہا ہے اور وہ لسانی قوت کے بجائے ایک نظریاتی جماعت ہیں۔
(اب آپ ہماری تحریریں اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com پر بھی ملاحظہ کر سکتے۔) ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More