مسعود ابدالی
سندھ میں گیس کی قلت انتہائی شدید ہوگئی ہے۔ سارے ملک ہی میں گیس کی کمی محسوس ہو رہی ہے، لیکن سندھ میں گیس کی قلت کا اس اعتبار سے کوئی جواز نہیں کہ صوبے سے گیس کی پیدوار کا تخمینہ 2700 سے 3000 ملین ملین مکعب فٹ روزانہ (mmcfd) جب کہ ضرورت 2000 ملین ملین مکعب فٹ سے کچھ زیادہ ہے، لیکن سوئی سدرن گیس کمپنی (SSGC) سندھ کو صرف 1200 ملین ملین مکعب فٹ گیس فراہم کررہی ہے۔
اس سلسلے میں سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے۔ مکتوب میں وفاق کی توجہ ملکی آئین کی دفعہ 158 کی طرف دلائی گئی ہے، جس کے تحت معدنی وسائل پر اس صوبے کے ترجیحی حق کو تسلیم کیا گیا ہے، جہاں سے وہ معدنیات حاصل کی جا رہی ہیں۔ کچھ ایسی ہی شکایت بلوچستان کے لوگوںکو بھی ہے کہ سخت سردی میں صوبے کے بہت سے علاقے گیس ہے محروم ہیں، جبکہ سوئی سے نکلنے والی گیس ملک کے دوسرے حصوں کو فراہم کی جا رہی ہے۔
چھوٹے صوبوں کی شکایات کے علاوہ گیس کی تقسیم کے معاملے کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں گیس کی مجموعی پیداور 4 ارب مکعب فٹ (BCFD) یومیہ اور طلب 5. 5 ارب مکعب فٹ ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے گزشتہ حکومت نے قطر سے LNG خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اینگرو نے پورٹ قاسم
پر جدید ترین انرجی ٹرمینل بنایا ہے، جہاں وصول ہونے والی LNGکو Re-Gasified Liquefied Natural Gas (RLNG) میں تبدیل کرکے گیس پائپ لائن میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس ذریعے سے 200 ارب مکعب فٹ (BCF) اضافی گیس روزانہ حاصل کی جا رہی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو اس وقت ملک میں 5.5 ارب مکعب فٹ طلب کے مقابلے میں رسد کا تخمینہ 6 ارب مکعب فٹ روزانہ ہے۔ اس کے باوجود گیس کی قلت کیوں ہے؟ وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان نے گزشتہ دنوں گیس کی چوری کا ذکر کیا تھا۔ کیا روزانہ 500mmf گیس چوری ہو رہی ہے؟ اگر یہ درست ہے تو صورت حال انتہائی سنگین ہے۔
گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ بروقتL/C نہ کھلنے کی وجہ سے LNG کی درآمد میں خلل واقع ہوا۔ حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہئے۔ LNG یا Liquefied natural gas کشید کرنے کے لئے قدرتی گیس سے پانی، ہائیڈرو کاربن کے بوجھل و کثیف ذرات (heavy Hydrocarbons)، ہائیڈروجن
سلفائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو نکال لیا جاتا ہے اور پھر دبائو ڈال کو اسے رقیق حالت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل کا بنیادی مقصد نقل و حمل میں آسانی پیدا کرنا ہے کہ جہاں پائپ لائن بچھانا ممکن نہ ہو تو LNG کو ٹینکروں اور بحری جہازوں کے ذریعے پیداواری مقام سے دور دراز علاقوں یا بیرونی ممالک کو بھیجا جاسکے۔ LNG بنانے کے عمل میں قدرتی گیس کا حجم 600 واں حصہ رہ جاتا ہے۔
مقام مقصود پر پہنچنے کے بعد اسے دوبارہ گیس کی شکل دے دی جاتی ہے تاکہ اس سیلنڈروں یا پائپ لائن کے
ذریعے آگے تقسیم کیا جا سکے۔ اس عمل سے حاصل ہونے والی گیس کو Re-Gasified Liquefied Natural Gas (RLNG) کہا جاتا ہے۔
اس وقت دنیا میں LNG کے بڑے برآمد کندگان آسٹریلیا اور قطر ہیں۔ تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ اگلے چند برسوں میں امریکہ ان دونوں سے آگے نکل جائے گا۔ حال ہی میں قطر پیٹرولیم اور ایکسون موبل (ExxonMobil) نے خلیج میکسیکو (امریکہ) کے ساحلی شہر سبین پاس میں 10 ارب ڈالر کے خرچ سے ایک LNG پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بیکر سے وابستہ احباب کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ یہاں Turbomachinery، گیس ٹربائن اور Centrifugal کمپریسرز بیکر ہیوز فراہم کررہی ہے۔ راقم الحروف نے 24 سال بیکر کا نمک کھایا ہے، لہٰذا اس خبر سے ہمیں بھی بہت خوشی ہوئی۔