گریہ وزاری:
ایک صاحب کمال بزرگ اپنے حال کو لوگوں پر ظاہر نہیں کرتے تھے اور ہر لحاظ سے اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی ایک عجیب عادت تھی کہ دولت مندوں سے سینکڑوں ہزاروں کی رقمیں قرض لیتے اور دل کھول کر فقراء ومساکین پر صرف کرتے۔ ہدیہ، نذرانہ اور تحائف وصول ہونے پر قرض کی ادائیگی کر دیتے۔ اسی طرح آپ نے اہل عشق اور اہل ذوق حضرات کے ٹھہرنے کیلئے ایک خانقاہ بنوائی، جس میں ہر طرح کی سہولتیں میسر تھیں۔
حضرت صاحب نے عرصہ دراز اسی طرح گزار دیا۔ ادھر قرض لیتے ادھر ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے، اپنے پاس کوئی چیز نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح ہی زندگی کے روز وشب گزر گئے۔ پیغام اجل آن پہنچا۔ مرض الموت کے آثار نمودار ہونے لگے۔ شیخ بیمار ہوگئے۔ عقیدت مندوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
اُن لوگوں کو بھی شیخ کے بیمار ہونے کی خبر پہنچ گئی، جن سے آپ نے رقمیں اُدھار لی ہوتی تھیں۔ ایک ایک کر کے وہ بھی شیخ کے پاس آگئے اور اپنی اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا کرنے لگے۔ شیخ صاحب کے پاس اس وقت ان کو دینے کیلئے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ شیخ موم کی شمع کی مانند آہستہ آہستہ پگھل رہے تھے۔ ادھر قرض خواہوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ شیخ کو بستر مرگ پر دیکھ کر نااُمیدی سے ان کے دل بیٹھے جا رہے تھے اور چہروں پر اُداسی چھائی ہوئی تھی…
شیخ نے ان کی طرف دیکھ کر بڑے اطمینان سے کہا: ’’گھبراتے کیوں ہو؟ خدا پر بھروسہ رکھو، وہ کوئی نہ کوئی انتظام ضرور فرما دے گا۔‘‘
شیخ صاحب کا یہ ارشاد سن کر قرض خواہوں نے منہ بنا کر کہا: ’’معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کے حواس رُخصت ہوگئے ہیں۔ بھلا ایسے موقع پر خدا قرض ادا کرنے کے لئے فرشتے کے ہاتھ چار سو اشرفیاں روانہ کرے گا؟‘‘ وہ سب مایوس ہو چکے تھے کہ شیخ کے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں، بھلا چار سو اشرفیاں کہاں سے دیں گے۔ شیخ صاحب نے سن کر فرمایا: ’’صد افسوس ہے ان دولت مندوں کے ذہنی افلاس پر کہ انہیں خدا کی ذات پر بھروسہ نہیں، ارے بدبختو! خدا ہر فعل پر قادر ہے۔‘‘
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ باہر گلی میں ایک حلوہ فروش لڑکے نے آواز لگائی ’’گرما گرم حلوہ!‘‘ شیخ نے یہ آواز سن کر اپنے خادم کو حکم دیا کہ جاؤ اس حلوہ فروش لڑکے سے سارا حلوہ خرید کر ان قرض خواہوں کو کھلاؤ! کیونکہ یہ ہمارے مہمان ہیں، ان کی ضیافت کرنا ہمارا فرض ہے، خادم حکم ملتے ہی باہر گلی میں گیا۔ اس نے حلوہ فروش بچے کے ساتھ نصف دینار میں حلوے کا سودا کیا۔ حلوے کا تھال لے کر شیخ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شیخ نے فرمایا: ’’سارا حلوہ اس فقیر کی طرف سے مہمانوں میں تقسیم کردو۔‘‘
سب نے مل کر مزے کے ساتھ حلوہ کھایا۔ تھال خالی ہوتے ہی حلوہ فروش بچے نے اُٹھالیا اور رقم کا مطالبہ کیا۔
شیخ نے کہا ’’کیسا دام؟ میرے پاس دینار کہاں سے آئے؟ میری تو دم واپسی ہے۔ تجھے کہاں سے نصف دینار دوں؟‘‘۔ یہ کہہ کر شیخ نے اپنا منہ کمبل میں کر لیا۔
شیخ کا یہ فرمان سن کر بچے نے مارے رنج اور غصے کے تھال زمین پر دے مارا اور بُری طرح رونے چلانے لگا کہ میرا مالک مجھے جان سے مار ڈالے گا۔ میں خالی ہاتھ کیسے جاؤں، وہ مار مار کر میری چمڑی ادھیڑ ڈالے گا۔ بچے کا رونا دھونا سن کر ارد گرد کے لوگ بھی اکٹھے ہوگئے۔ ادھر قرض خواہوں نے بھی چلانا شروع کر دیا اور کہنے لگے ’’واہ شیخ نے ہمارا مال بھی اُڑا دیا اور اس غریب لڑکے کو بھی جاتے جاتے لُوٹ لیا۔‘‘
دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ مل کر کہنے لگے کہ ’’آج کل خانقاہوں میں رہنے والے گندم نما جو فروش درویش ایسے ہی دھوکہ اور فریب کر رہے ہیں۔ ایسی بے ہُودہ حرکت مرتے مرتے کی ہے، ذرا شرم نہ آئی! خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے۔‘‘
شیخ یہ سب کڑوی اور کسیلی باتیں سنتے رہے، بادل میں چھپے ہوئے چاند کی طرح اپنا منہ کمبل میں دیئے چپکے سے پڑے رہے۔ قرض خواہ شور مچاتے رہے… اور وہ حلوہ فروش بچہ آنسو بہاتا رہا۔ شیخ نے ان کی طرف ایک بار بھی نہ دیکھا اور نہ ہی ان سے کوئی بات کی۔ آخر ان لوگوں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ ہم سب تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے اس بیچارے معصوم بچے کو دے دیں۔ شیخ نے اپنا منہ کمبل سے باہر نکال کر فرمایا: ’’خبردار! ایسا کام کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
تھوڑی دیر گزری، ایک شخص بڑا سا خوان سر پر دھرے ہوئے آیا۔ سلام و دعا کے بعد عرض کیا ’’حضور! یہ نذرانہ قبول فرمائیں۔‘‘ شیخ صاحب نے اپنے خادم کو اشارہ کیا۔ اس نے سر پوش اُٹھایا۔ خوان میں چار سو دینار ایک طرف اور نصف دینار دوسری طرف پڑا ہوا تھا۔ حاضرین مجلس یہ کرامت دیکھ کر ایک دم روتے ہوئے شیخ کے قدموں میں گر گئے اور اپنے کئے پر شرمندہ ہوئے کہ ہم نے اندھوں کی طرح لاٹھی چلا کر قندیلوں کو توڑا اور حضرت کی صحبت سے محروم ہوگئے۔
شیخ صاحب نے فرمایا: ’’میں نے تم سب کو دل سے معاف کیا۔ اصل میں تم لوگوں کو اتنی دیر روکے رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ میں نے خدا تعالیٰ کے حضور یہ دُعا کی تھی: اے میرے مالک! اس نازک موقع پر میری مدد فرما، اس بچے کا نصف دینار اگرچہ مالیت میں کم تھا، مگر خدا تعالیٰ کی سخاوت کا دریا اس بچے کے رونے تڑپنے اور اضطراب کے سبب جوش میں آیا۔ یہ مشکل اس معصوم کی گر یہ و زاری سے آسان ہوئی۔ طفل حلوہ فروش کی مثال تیری چشم گریاں ہے، جب تک بچہ روتا نہیں، ماں کی چھاتی سے دودھ نہیں اُبلتا۔ جب تک آسمان اور بادل روتے نہیں، اس وقت تک چمن نہیں مسکراتا۔ اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرا مقصد بر آئے تو اپنی چشم گریاں سے کام لے۔ جب تک تُو گریہ وزاری سے کام نہیں لے گا، کامیابی و کامرانی نا ممکن ہے۔‘‘
درسِ حیات:
٭کسی بھی مقصد اور کامیابی کے لئے چشم گریاں سے کام لینا ہی بہتر ہے۔ اس سے دریائے رحمت خداوندی انتہائی جوش میں آتا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post