حضرت داؤدؑ کے زمانے میں ایک شریف النفس اور کمزور آدمی تھا۔ رب کے حضور یہ دعا کرتا رہتا تھا کہ مجھ غریب بے سہارا کو غیب سے روزی عطا فرما اور مجھے محنت و مشقت کے غذاب میں نہ ڈال۔ مریل گدھے پر گھوڑوں اور اونٹوں کا بوجھ نہیں لادا جا سکتا… پاؤں والا تو چل کر روزی پیدا کر سکتا ہے اور جس کے پاؤں نہ ہوں، اس کو تیرا ہی آسرا ہے۔ خدایا، سب کی سننے والے! میں منہ سے ہی تجھ سے مانگ سکتا ہوں، لیکن مشقت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا… بس یہی ورد و وظائف اس کے دن رات کی مصروفیت تھی۔
اس کا یہ عمل ہر عام و خاص میں مشہور ہو چکا تھا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے، خدا نے ہر شخص کی روزی محنت ومشقت کے راستے اتاری ہے، لیکن اسے دیکھو ہاتھ پیر ہلائے بغیر خدا سے اپنا رزق طلب کرتا ہے… پیغمبر خدا کو دیکھو، جنہیں خدا نے معجزے بھی عطا کئے ہیں، خوش الحان ایسے کہ جنس و انس، چرند وپرند تو ایک طرف، پہاڑ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ باوجود اتنی شان کے وہ بھی بغیر مشقت کے روزی حاصل نہیں کرتے، مگر اسے دیکھو، یہ ناکارہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے بیٹھے بٹھائے خزانہ مل جائے اور کوئی کسب نہ کرنا پڑے…
لوگ سو سو باتیں کرتے، وہ کسی کی پروا نہ کرتا، برابر آہ و زاری میں لگا رہتا۔ اس کی دعا کا چرچا سارے شہر میں عام ہوگیا کہ کیسا انسان ہے، جو خالی تھیلی میں پنیر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ’’من جد وجد‘‘ یعنی جو تلاش کرے آخر اس کو مل جاتا ہے۔
خدا سب کی دعائیں سنتا اور مرادیں پوری کرتا ہے… اس شخص نے دعاؤں اور رونے دھونے کی حد کردی تو رحمت حق جوش میں آگئی اور اس کی مراد بر آئی۔ زور سے دروازہ کھلا اور ایک گائے اس کے گھر میں گھس آئی۔ اس نے فوراً گائے کو پکڑا، ٹانگیں باندھ کر… بے تامل حلق پر چھری پھیر کر ذبح کردیا، پھر قصاب کو بلوایا کہ اس کو کاٹ کر بوٹیاں بنا دے… گائے کا مالک گلی کوچوں کی خاک چھانتا ہوا گائے تلاش کرتا ہوا ادھر آنکلا۔ دیکھا کہ گائے ذبح بھی ہو چکی ہے اور قصائی اس کی بوٹیاں کرنے میں مصروف ہے۔
اس نے رونا دھونا اور چلانا شروع کردیا۔ ’’ارے ظالم! یہ کیا غضب کیا، یہ گائے تو میری تھی، تجھے بھلا کیا حق تھا اسے پکڑ کر ذبح کرنے کا۔‘‘ دعا مانگنے والے نے جواب دیا: ’’سنو برادر، زیادہ چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں، میں برسوں سے اس دعا میں مصروف ہوں کہ خدایا! میرا رزق میرے پاس پہنچا دے، اس نے دعا قبول کی۔ میں نے اسے خدا داد سمجھ کر ذبح کر ڈالا…‘‘ یہ جواب سن کر گائے کے مالک کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ اس نے پہلے درویش کی ٹھکائی کی، پھر اسے گربیان سے پکڑ کر حضرت داؤدؑ کی عدالت میں لے گیا۔ ابے احمق! اگر محض دعا مانگ کر دوسروں کا مال ہضم کرنے کی اجازت ہو جاتی تو پھر کوئی کچھ نہ کرتا، صرف دعا کے بل بوتے پر لوگ ساری دولت کے مالک اور حق دار بن جاتے…
لوگوں نے گائے کی مالک کی باتیں سنیں تو اسی کو حق پر قرار دیا… درویش نے اس پر بے بسی کی حالت میں آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا ’’اے خدائے، رحمان و رحیم! تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میں نے اپنی آرزو کی تکمیل کیلئے سینکڑوں روز و شب آہ و زاری کرنے اور دعا مانگنے میں صرف کئے اور میں نے روز الست جو خواب دیکھا تھا، اسی نے مجھے تیری بندگی میں مست کردیا۔ میری مثال اس مست اونٹ کی سی ہے، جو سستی اور تھکان محسوس کئے بغیر منہ سے جھاگ نکالے، بوجھ اٹھائے چلا جاتا ہے کہ اپنی اونٹنی سے ملاپ کرے۔ میں نے جب اپنی مراد پائی تو یہ مجھے تیرا بندئہ نافرمان سمجھ کر شیطان کی طرح کوس رہا ہے۔ حق تعالیٰ! میں تیرے ہی آگے دست سوال دراز کرتا رہا ہوں۔ تو میری پردہ پوشی کر لے۔ اور مجھے ذلیل ہونے سے بچالے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post