ہیومن رائٹس واچ نے مودی کو اقلیتوں کا قاتل قرار دے دیا

0

ایس اے اعظمی
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اقلیتوں کا قاتل قرار دیا ہے۔ کل (منگل کو) نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں 2008ء سے 2018ء تک اقلیتوں کے خلاف پیش آنے والے نفرت انگیز اور تشدد پر مبنی جرائم کی 90 فیصد وارداتیں مودی کی ایما پر رونما ہوئیں۔ ان سنگین جرائم کی وارداتوں میں مسلمانوں گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں درخت سے لٹکا کر پھانسیاں دینے، تیز دھار ہتھیاروں سے ٹکڑے کردینے، زندہ جلادینے اور ہجومی حملوں میں پتھروں، لاٹھیوں سے مار کر قتل کردینے کے واقعات ریکارڈ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بی جے پی اور دیگر ہندو انتہاپسند تنظیموں نے دلت کمیونٹی پر بھی مظالم ڈھائے۔ ان تمام وارداتوں کے متاثرہ خاندانوں کی جانب سے انصاف طلب کرنے کی راہ میں مودی حکومت نے روڑے بھی اٹکائے، جس پر پولیس نے تحقیقات درست انداز میں نہیں کیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مودی نے اپنی تقاریر سے ہندوئوں میں نفرت کی آبیاری کی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی سائوتھ ایشیا ڈائریکٹر مناکشی گنگولی کا کہنا ہے کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ پولیس اور بی جے پی سرکار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب کوئی مسلمان گائے کشی کا الزام عائد کرکے ہندو ہجوم کے حملوں میں قتل کیا جاتا ہے، تو پولیس جائے واردات پر جاکر الٹا مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھیراتی ہے اور ان کو گائے کاٹنے کا مجرم قرار دے دیتی ہے۔ اس سے ان کا کیس کمزور ہوجاتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اقلیتوں پر مظالم اور ہندو ہجومی حملوں کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مودی حکومت اقلیتوں کیلئے بہت بری ثابت ہوئی ہے جس میں سینکڑوں حملے ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے پیش کی جانے والی 104 صفحات کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014ء سے بھارت بھر میں نام نہاد گئو رکھشکوں کی تعداد اور حملوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ مودی حکومت کو قاتلوں کا سرپرست قرار دینے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف سرکاری طور پر ریکارڈ کی جانے والی وارداتوں کا ذکر کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ مئی 2015ء سے دسمبر 2018ء کے دوران مودی کے حامی ہندو گروپس نے ہجومی حملے کرکے 44 افراد کو قتل کر ڈالا، جو تمام کے تمام مسلمان تھے۔ ان کو گائے کا قاتل قرار دے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ بھارتی جریدے کوئنٹ نے گئوکشی کے الزام میں قتل مسلمانوں کی تعداد 110 بتائی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھارتی تنظیم ’’فیکٹ چیکر انڈیا‘‘ کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا ہے کہ نریندر مودی مسلمانوں کو برداشت نہیں کرتے۔ الیکشن 2014ء کے دوران وہ اپنی انتخابی ریلیوں میں ’’گئو ماتا‘‘ کے تحفظ کی قسمیں کھاتے رہے۔ گجرات، راجستھان، مدھیا پردیش سمیت دہلی اور بہار کی ریلیوں میں انہوں نے با ر بار کہا کہ وہ اقتدار میں آ کر گائے کو تحفظ دلائیں گے اور اسے کھانے والوں کو عبرت کا نشان بنادیں گے۔ ان کے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے بعد یہی ہوا۔ مودی حکومت نے نہ صرف گائے کے گوشت پر پابندی عائد کی بلکہ اس کے ذبیحہ کو عمر قید کی سزا کا موجب قرار دیا۔ مودی حکومت میں بھارت بھر میں ایسی انتہا پسند ہندو تنظیموں نے سر اٹھایا جو گائے کے تحفظ کی خاطر کسی انسان کی جان لینے سے گریز نہیں کرتیں۔ ان کا پہلا نشانہ اتر پردیش کے معمر شہری اخلاق احمد اور ان کے بیٹے دانش پر بہیمانہ تشدد تھا جس میں اخلاق احمد کی موت واقع ہوگئی اور دانش کئی ماہ تک موت و زیست کی کشمکش میں پڑا رہا۔ لیکن آج تک اس کیس میں قاتلوں کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ ہیومن رائٹس واچ نے بتایا ہے کہ 2018ء میں گائے کے پجاریوں نے 11 حملوں میں 14مسلمانوں کو قتل کیا، لیکن ایک کیس بھی قاتلوں کیخلاف مضبوط نہیں بنایا گیا۔ بھارتی جریدے بھاسکر نے یاد دلایا ہے کہ ماضی میں کئی کیسوں میں جب گائے کشی کا الزام عائد کرکے مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا تو پولیس نے مقتولین کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کے بجائے الٹا قاتلوں کو ’’ہیرو‘‘ اور حق بجانب قرار دیا۔ اقلیتوں پر حملوں کے بیشتر کیسوں میں ہندو غنڈوں نے کارروائی کی ویڈیوز سماجی رابطوں کی سائٹس پر شیئر بھی کیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حملہ آوروں کو قانون کا خوف نہیں تھا۔ کیونکہ ان کو بی جے پی رہنمائوں اور وزرا کی جانب سے یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کا قانونی تحفظ کیا جائے گا۔ بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے ایک سروے کے مطابق 2014ء سے 2018ء کے درمیان منتخب ہندو ارکان اسمبلی کی 500 تقاریرکا جائزہ لیا گیا تو یہ علم ہوا کہ ان نفرت انگیز تقریروں میں سے 90 فیصد بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان کی جانب سے کی گئی تھیں۔ واضح رہے کہ ریاست چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی رہنما رمن سنگھ نے ایک پر ہجوم ریلی میں دھمکایا تھا کہ جو گائے ذبح کرے گا، اس کو پھانسی پر لٹکا دیں گے۔ اس اشتعال انگیز تقریر کے بعد چھتیس گڑھ میں مسلمان چرواہوں کو سر عام درختوں سے لٹکا کر پھانسی دی گئی۔ مویشیوں کے مسلمان تاجروں کو گائے کا پیشاب پینے اور گوبر کھانے پر مجبور کیا گیا اور اس کی باقاعدہ ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کی گئیں۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More