تابعین کے ایمان افروز واقعات

0

خلیفۃ المسلمین سلیمان بن عبد الملک جب خوش آمدید کہنے والوں کے استقبال سے فارغ ہوئے، تو اپنے بعض دوستوں سے بات کرتے ہوئے کہا:
’’دھات کی طرح انسانی دل بھی زنگ آلود ہو جاتے ہیں، اگر بار بار ان کو کوئی نصیحت نہ کرے تو ان کے دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے۔ دلوں کا زنگ اتارنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اچھے انداز میں وعظ و نصیحت کرتا رہے۔‘‘
ساتھیوں نے کہا: امیر المؤمنین آپ نے درست فرمایا۔
خلیفۃ المسلمین نے پوچھا: ’’کیا مدینہ منورہ میں کوئی ایسا خوش نصیب ہے، جس نے حضور اکرمؐ کو دیکھا ہو؟ تاکہ وہ ہمیں کچھ نصیحت کرے۔‘‘
حاضرین نے بتایا: امیر المومنین! یہاں صحابیؓ تو کوئی نہیں، تاہم ابو حازم اعرج تابعی رہتے ہیں۔
کہا: ابو حازم اعرج کون ہیں؟
حاضرین نے کہا: وہ مدینہ کے ایسے عالم، قاضی، مفتی اور ایسے تابعی ہیں، جنہیں اکثر صحابہ کرامؓ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔
خلیفہ نے کہا: اس عظیم المرتبت شخصیت کو عزت و احترام کے ساتھ ہمارے پاس لائو۔
چند لوگ ان کی طرف گئے اور انہیں خلیفہ کے پاس بلا لائے۔ خلیفۃ المسلمین نے انہیں خوش آمدید کہا اور محبت سے انہیں اپنے پاس بٹھایا اور شکایت کے لہجے میں کہا: ابو حازم! یہ بے وفائی کیسی ہے؟
انہوں نے فرمایا: ’’امیرالمومنین! خدا خیر کرے، آپ نے میری طرف سے کون سی بے وفائی دیکھی ہے۔‘‘
خلیفہ نے کہا: مدینہ کے تمام خواص میری ملاقات کے لیے آئے، لیکن آپ نہ آئے۔
انہوں نے فرمایا: امیرالمئومنین! بے وفائی جان پہچان کے بعد ہوا کرتی ہے، لیکن آپ آج سے پہلے مجھے جانتے نہ تھے اور نہ ہی میں نے کبھی آپ کو دیکھا تھا، تو بے وفائی مجھ سے کیسے سرزد ہوگئی؟ میں آپ کو جانتا ہوتا اور پھر آپ ملنے کے لیے آتے اور میں ملنے نہ آتا تو یہ بے وفائی ہوتی۔
خلیفہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: شیخ نے اپنا عذر صحیح بیان فرمایا اور خلیفہ اپنی شکایت کرنے میں ناکام ہوا۔
پھر ابو حازمؒ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ابوحازم! میرے دل میں کچھ پریشانیاں ہیں، کچھ سوالات ہیں، میں آپ کو بتاتا ہوں، آپ میری صحیح رہنمائی فرمائیں۔
فرمایا: ’’امیرالمومنین آپ سوال کیجئے، درست جواب سمجھانے کی رب تعالیٰ توفیق دے گا اور میں جواب دینے میں حق تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہوں کہ وہ میری مدد فرمائے۔‘‘
خلیفہ نے پوچھا: ’’ابو حازم! ہم موت سے کیوں گھبراتے ہیں۔‘‘
فرمایا: ’’ہم نے اپنی دنیا کو آباد کرلیا اور آخرت برباد کرلی، لہٰذا ہم آبادی سے ویرانے کی طرف جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ گھر کے محلات سے قبر کی طرف جانے سے گھبراتے ہیں۔‘‘
خلیفہ نے کہا: ’’بہت خوب۔ آپ نے بلکل سچ فرمایا۔‘‘
خلیفہ نے پوچھا: ’’ابوحازم! کاش ہمیں علم ہو جائے کہ آخرت میں رب تعالیٰ نے ہمارے لیے کیا رکھا ہے؟‘‘
فرمایا: ’’اپنا علم خدا کی کتاب پر پیش کرو، اس کا جواب پا لو گے۔‘‘
پوچھا: ’’کتاب الٰہی میں اس کا جواب کہاں سے ملے گا؟‘‘
فرمایا: ’’اس کا جواب حق تعالیٰ کے اس ارشاد مبارک میں پالو گے:
ترجمہ: ’’نیک لوگ بے شک آسائشِ جنت میں ہوں گے اور بدکار لوگ بے شک دوزخ میں ہوں گے۔‘‘
خلیفہ نے پوچھا: خدا کی رحمت کہاں پائی جاتی ہے؟
ابو حازم نے کہا: ’’بے شک خدا کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے۔‘‘ یعنی آیت قرآنی تلاوت کی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More