مٹی کا گلک (آخری حصہ)

0

خیراں نے موٹے کپڑے میں لپیٹا ہوا مٹی کا گلک بیگم صاحبہ کے سامنے رکھ دیا۔ یہ کیا ہے وہ گلک دیکھ کر گھبرا گئیں۔ ’’بیگم صاحبہ! یہ میری ساری زندگی کی کمائی ہے۔ آپ اسے اپنے حج کے پیسوں میں شامل کرلیں۔‘‘ وہ سادگی اور معصومیت سے بولی۔ اس کی آنکھوں میں کائی سے ڈھکے تالاب جیسی خاموشی چھا رہی تھی۔ ’’ارے کیوں بھئی؟‘‘ وہ بوکھلا گئیں۔ ’’بیگم صاحبہ! میری بڑی تمنا ہے کہ میں خدا کا گھر دیکھوں، مگر میری اتنی ہمت کہاں۔ آپ ان پیسوں کو اپنے پیسوں میںملالیں گی تو میں سمجھوں گی کہ میں نے خدا کا گھر دیکھ لیا۔‘‘
سنجیدگی اور بردبادی کی بھی ایک فضیلت ہے۔ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ دل کا حال کہہ دینا بھی بڑا قرینہ ہے۔ سادگی اور اختصار سے خیراں نے جو اپنا مدعا بیان کیا تو بیگم صاحبہ اندر سے تھرتھرا گئیں۔ خدایا یہ تیرے کیسے بندے ہیں، جو تیرے عشق کی آگ میں مسلسل جلتے رہتے ہیں۔ اس کی سادہ اور پرکشش شخصیت نے بیگم صاحبہ پر عجیب عجیب انکشافات کئے۔ وہ تڑپ کر بولیں: ’’خیراں! خدا تمہارے جذبے سے آشنا ہے، وہ تمہیں ضرور بلائے گا۔‘‘ تسلی کے بول خیراں کے دکھ کو اور بڑھا گئے۔ ’’بیگم صاحبہ! میرے نصیب میں خدا کے گھر کی زیارت کہاں؟ میں تو ہمیشہ سے جنم جلی ہوں۔ میرے نصیب میں یہ سب نہیں ہے، بس آپ میری خوشی کی خاطر یہ گلک رکھ لیں۔ اس میں جتنے بھی پیسے ہوں وہ اپنے حج میں ملالیں۔ یہ میری آپ سے درخواست ہے۔ بیگم صاحبہ! میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔‘‘
وہ دونوں ہاتھ جوڑے ان کے سامنے فریاد کر رہی تھی۔ بیگم صاحبہ حیران وپریشان تھیں کہ خیراں کو کیسے سمجھائیں کہ ان کے پاس حج کے کرائے کے علاوہ بھی اتنی زیادہ رقم بینک میں موجود ہے کہ اگر چاہیں تو دس افراد کو اپنے ساتھ لے جاسکتی ہیں، مگر یہ بھولی ناداں ان پڑھ عورت کو کون سمجھائے۔ انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے ایک سفید چادر زمین پر بچھا کر خیراں کی تسلی کیلئے اس کا گلک توڑ دیا۔ وہ لمحے بھر کو بوکھلائیں۔ پانچ سو اور سو سو کے ہزاروں نوٹ بکھر گئے۔ ’’بھئی تم بہت مالدار ہو خیراں!‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
نوٹ دیکھ کر خیراں اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ ’’بس بیگم صاحبہ یہ اب آپ کے ہوئے۔ میرا کام ختم ہو گیا، اب میں چلی۔‘‘ اس کے چہرے پر اطمینان اور سکون کی آمیزش تھی۔ ’’ارے بیٹھو تو، ذرا میں بھی تو دیکھوں تمہارے حج اکائونٹ میں کتنا مال ہے۔‘‘ انہوں نیخیراں کا ہاتھ پکڑکر اپنے پاس بٹھالیا۔ ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں، جب نوٹوںکی گنتی ڈھائی لاکھ پر ختم ہوئی۔ ’’خیراں! تمہیں بہت بہت مبارک ہو، خدا تعالیٰ نے تمہارے اور شوہر کیلئے حج کا انتظام کردیا ہے۔ اب تم کسی کی محتاج نہیں، خود اپنے ذاتی خرچ پر خدا کا گھر دیکھنے جاسکتی ہو۔‘‘ انہوں نے پورے خلوص اور محبت سے لگے لگا کر خیراں کو مبارکباد دی۔
خیراں تو سکتے کی حالت میں بت بنی کھڑی تھی۔ پھر یکدم اسے ہوش آگیا، وہیں زمین پر سجدے میں گر گئی۔ اس کی زبان پر ’’لبیک لبیک‘‘ کا نعرہ جاری ہوگیا۔ بیگم صاحبہ خیراں کے جذبے سے بہت متاثر تھیں۔ وہ سوچ رہی تھیں، کائنات ایک بہت بڑی حیرت ہے، تہہ در تہہ حیرت اور اس کا خالق اس بندے پر اپنے راز کھولتا چلا جاتا ہے، جو اس کے مقرب خاص کا منصب پا لیتا ہے۔ معبود اپنے چاہنے والے پر اپنی نوازشیں ارزاں کردیتا ہے، یہ زندگی تو ایک ناپائیدار شے ہے، جس کا انجام فنا ہے۔ حاصل زندگی تو ایک پاک روح ہے، جو قائم و دائم رہنے والی چیز ہے اور خیراں کی روحانی طمانیت اور پاکیزگی ہی اصل مقصود و مطلوب چیز ہے جو اسے حاصل ہے اور وہ نہیں جانتی کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہے، جو اسے حاصل ہے اور جو ہر ایک کو نہیں ملتی۔
وہ اپنی سوچ پر شرمندہ تھیں کہ وہ خیراں کو بے حیثیت اور حقیر سمجھ کر اس کے قریب بیٹھنے کا بھی تصور نہیں کر سکتی تھیں۔ اپنی سوچ اور بے وقعت عمل کی ریاکاری اور منافقت پر نادم تھیں۔ انہیں یاد آیا کہ خیراں تو ہمیشہ سے رب سے پیار کرنے والی تھیں، وہ کعبہ شریف اور گنبد خضرا والے اخبار آنکھوں سے لگا کر چومتی اور مانگ کر لے جاتی تھی۔
بیگم صاحبہ نے خیراں کے گلک کی ساری رقم ایک صاف رومال میں باندھ کر اس کو دینا چاہا۔ وہ سادگی سے بولی ’’بیگم صاحبہ! میں کہاں اسے جھگی میں لے کر جائوں
گی۔آپ اپنے پاس رکھ لیں، جب حج پر جائیں تو مجھے اور الٰہیار کو بھی ساتھ لے جایئے گا۔ اب تو کرایہ بھی نکل آئے حج کا۔‘‘ بیگم صاحبہ نے مسکراکر کہا: ’’ٹھیک ہے، اب حج کیلئے دو کے بجائے چار فارم بھرے جائیں گے۔‘‘
خیراں مطمئن ہو کر اپنی جھگی میں چلی آئی۔
فارم بھرے جانے کے بعد خیراں کی عجیب سی کیفیت تھی۔ اگر قرعہ اندازی میں اس کا نام نہ نکلا تو کیا ہوگا؟ یہ سوچ کر ہی اس کا گلا خشک ہو جاتا تھا۔ یوں لگتا جیسے اس کے جسم میں آگ لگی ہے۔ ایک تڑپ ایک خلش تھی، جو اسے مسلسل بے چین رکھتی تھی۔ خیراں کیلئے تو یہ تصور ہی محال تھا کہ وہ اگر حج پر اس سال نہ گئی تو زندہ کیسے رہے گی؟ بیگم صاحبہ فارم بھر کر بھول گئی تھیں۔ ان کی نظر میں حج ایک فرض ہے، جو زندگی میں ایک بار ادا کرنا لازمی ہے، اس سال نہ سہی، اگلے سال سہی۔
کئی ماہ گزر گئے، وہ ہر روز بیگم صاحبہ سے پوچھتی: ’’بیگم صاحبہ! نام کب نکلے گا؟‘‘ وہ لاپرواہی سے کہتی: ’’جب قرعہ اندازی ہوگی تو اخباروں اور ٹی وی میں اس کی خبر آجائے گی۔‘‘ ایک دن جب خیراں کام پر گئی، تو بیگم صاحبہ نے اسے خوشخبری سنائی کہ اگلے روز حج کے فارم بھرنے والوں کے ناموں کی قرعہ اندازی ہوگی۔ وہ رات اس نے نفل پڑھ کر گزاری۔ اس بے چین اور بے کل رات اس کی آنکھیں رو رو کر خون ہوگئیں۔ پتلیوں کی جگہ جیسے گڑے بن گئے، آنسوئوں کی جگہ گرم خون کی بوندیں گالوں پر پھیلتی رہیں، رات بھر کی مشقت نے اس کا جسم ایسا تھکا دیا کہ اس نے حرکت سے انکار کردیا۔ بخار 104 ہو گیا۔ سارا دن الٰہیار اس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتا رہا۔ بخار کی شدت سے آنکھیں جل رہی تھیں، غفلت اور غنودگی سے جب اسے ہوش آیا تو چونک کر پوچھا: ’’الٰہیار کیا سوہنے رب دا بلاوا آگیا۔‘‘ وہ تڑپ جاتااور کہتا کہ پڑی رہ چپ کر کے۔
رات کو بیگم صاحبہ اس کی جھگی تلاش کرتی ہوئی آگئیں۔ الٰہیار لالٹین دروازے پر لئے کھڑا تھا۔ ’’خیراں کہاں ہے؟ میں سارا دن اس کا انتظار کرتی رہی۔ آج کیوں نہیں آئی؟‘‘ انہوں نے الٰہیار کو اس کے حلئے سے پہچانا۔ ’’بیگم صاحبہ! بخار میں تپ رہی ہے۔ پوری رات سجدے میں پڑی روتی رہی ہے۔ جانے کیا کیا مانگی ہے رب سے؟ اس کی خواہش ہی ختم نہیں ہوتی؟‘‘ بیگم صاحبہ مسکرا کر کہا: ’’الٰہیار تم بڑے دھنی ہو کہ تمہیں خیراں جیسی بیوی ملی۔ تمہیں آج تک پتہ نہیں چلا کہ اس کی خواہشیں کیا ہیں؟ میں تم دونوں کو مبارکباد دینے آئی تھی کہ تم دونوں کا نام حج کی قرعہ اندازی میں نکل آیا اور تمہارا نام اس فہرست میں سب سے پہلا ہے۔‘‘ الٰہیار منہ پھاڑے حیرت سے بیگم صاحبہ کو دیکھ رہا تھا۔
الٰہیار کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بیگم صاحبہ کیا کہہ رہی ہیں؟ کیسا حج، کیسی نماز، اس نے تو کبھی خدا کے آگے ایک سجدہ بھی نہیں کیا۔ یہ خدا کا بلاوا کیسے آگیا؟ پھر جیسے وہ ہوش میں آگیا۔ زمین پر بیٹھ کر ہچکیوں سے رونا شروع کردیا۔ بیگم صاحبہ نے خیراں کی جلتی ہوئی پیشانی چوم لی۔ تمہارے بلاوے کا ذریعہ تمہاری بیوی ہے، یہ پاکیزہ اور نیک روح۔ الٰہیار نے بے یقینی سے بستر پر پڑی خیراں کو دیکھا اور اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بیگم صاحبہ سے بولا۔ ’’آپ ٹھیک کہتی ہیں، رات بھر جب ساری دنیا سوتی ہے، یہ میرے لئے رب سے رو رو کر دعا مانگتی ہے۔ میں نے خود اپنے کانوںسے سنا یہ کہتی ہے خدایا میرے سر کے سائے کو اپنا نیک بندہ بنالے۔ یہ میں نے تو اس کی ضد میں کبھی نماز پڑھی نہ روزہ رکھا۔‘‘
وہ عقیدت سے اس کے ہاتھ چوم رہا تھا۔ اپنے اعمال وکردار کا جائزہ لے رہا تھا۔ اسے خیراں ایک ایسی دیوی نظر آرہی تھی، جو ہر قسم کی خواہشات سے مبرا تھی، جس میں عورتوں والی کوئی چٹک مٹک ہی نہ تھی۔ معصوم، سادہ، پاکیزہ، ململ کے موٹے دوپٹے میں لپٹی ہوئی ایک نیک روح کی طرح پنتیس سال سے وہ اس کے ساتھ گزارہ کر رہی تھی۔ جب بیاہ کر آئی تو وہ پندرہ سال کی نوعمر لڑکی اور الٰہیار پنتیس سال کا پختہ مرد تھا۔ اس وقت بھی اس نے
نوجوانی کے کوئی چونچلے نہیں اٹھوائے۔ کبھی کوئی فرمائش نہیں کی۔ زندگی کے اتنے بہت سے دن محبت، خلوص، سادگی، فرمانبرداری اور اعتبار کے بھروسے یر گزار دیئے۔ خدا سے ہر وقت الٰہیار کی عمردرازی کی دعا کرتی رہی۔ خود ہمیشہ اترن پہن کر ہر مہینہ الٰہیار کیلئے نیا کرتا اور نئی لنگی ضرور بناتی۔ اس میں زمین کی سی عاجزی اور انکساری اور آسمانوں جیسی رفعت و بلندی تھی۔
الٰہیار پشیمان تھا کہ آج سے پہلے اسے خیراں کی یہ ساری خوبیاں نظر کیوں نہیں آئیں۔ شادی کے بعد کئی سال تک وہ خیراں کو بانجھ ہونے کا طعنہ دے دے کر اس کا دل چھلنی کرتا تھا۔ یہاں تک کہ جب ڈاکٹر کے کہنے پر اپنے ٹیسٹ کرائے اور اپنی کمزوری کا پتہ چلا تو اس کی زبان بند ہوئی۔ ورنہ ’’بے ثمر بانجھ‘‘ کہہ کر دل جلانا الٰہیار کا وتیرہ بن گیا تھا۔ اس پر بھی خیراں نے اس سے کوئی گلا شکوہ نہ کیا۔
حج کی خواہش کا جب خیراں نے اظہار کیا تو اس نے کتنا مذاق اڑایا تھاکہ یہ سب پیسے والوںکے چونچلے ہیں۔ اب وہ اپنی تمام غلطیوں پرنادم خیراں کے ہاتھ تھامے ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ بیگم صاحبہ نے اسے تسلی دی۔ ڈاکٹر سے دوا منگواکر خیراں کو پلائی اور گھر چلی آئیں۔
کئی دن بعد جب اس کا بخار ٹوٹا تو اس نے کام پرجانا شروع کردیا۔ راشد صاحب کے گھر میں وہ کئی دن سے خاموشی اور سناٹا سا محسوس کررہی تھی۔ بیگم صاحبہ بھی چپ چپ تھیں۔ اس کی ہمت نہیں تھی کہ وہ کسی سے اس کی وجہ پوچھے۔ اس دن بھی جب وہ کام ختم کرکے جانے لگی تو بیگم صاحبہ نے اسے آواز دے کر روکا۔ ’’خیراں تمہیں معلوم ہے حج پر تم دونوں ہی جائو گے؟ ہم دونوں میاں بیوی کا نام قرعہ اندازی میں نہیں نکلا۔‘‘
خیراں دھک سے رہ گئی۔ ’’نہیں نہیں، بیگم صاحبہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، ہم آپ کے بغیر کیسے جائیں گے؟‘‘ بیگم صاحبہ بے تاثر لہجے میں بولیں ’’تم خدا سے دعا کرو۔ ابھی ایک قرعہ اندازی اور ہونی ہے۔ شاید ہمارا نام آجائے۔‘‘ خیراں نے بے قرار ہوکر ان کے دونوں ہاتھ تھام لئے۔ ’’میرے سوہنے رب بیگم صاحبہ کہتی ہیں کہ میں تجھ سے دعا کروں۔ میرے مولا تو میرا بھرم رکھ لے۔ ان کی مراد پوری کر دے۔ تو تو سب کی نیت جانتا ہے۔ سب کا دامن بھرتا ہے بن مانگے۔ ان کو بھی اپنے در پر بلالے۔‘‘
وہ آنکھیں بند کئے جھوم جھوم کر دعا مانگ رہی تھی ’’میرے لجپال میری لاج رکھ لے۔ میں بیگم صاحبہ کے بغیر کیسے جائوںگی۔‘‘ خیراں کی معصوم دعا سے بیگم صاحبہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
کئی دن گزر گئے۔ ایک دن خیراں راشد صاحب کے ہاںگئی، کئی دفعہ گھنٹی بجانے پر بھی کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ وہ پریشان ہوکر دروازے پر ہی بیٹھ گئی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد گھنٹی بجاتی۔ خدا خیر کرے کہہ کر پھر بجاتی۔ اس کا دل نامعلوم اندیشوں سے گھرا ہوا تھا۔ اچانک دروازہ کھلا۔بیگم صاحبہ دروازہ کھولتے ہی بے اختیار ہوکر اس سے لپٹ گئیں۔ وہ زار و قطار رو رہی
تھیں۔ خیراں گھبرا گئی۔ بیگم صاحبہ خیریت تو ہے نا؟ ہاں خیراںسب ٹھیک ہے۔ ہمارا نام دوسری قرعہ اندازی میں نکل آیا ہے اور یہ سب تمہاری دعائوں کے طفیل ہوا ہے، تم جس یقین اور اعتماد سے رب پر بھروسہ کرکے اس سے مانگتی ہو، وہ تمہارے اس یقین کی لاج رکھتا ہے اور تمہاری دعا قبول کرلیتا ہے۔ میں شکرانے کے نفل پڑھ رہی تھی، اس لئے دروازہ کھولنے میںدیر ہوئی۔ خیراں نے دل کی گہرائیوں کے ساتھ ان کو مبارکباد دی اور کا م کرکے واپس آگئی۔
حج کی پروازیںشروع ہوئیں تو ان چاروں کو دوسری فلائٹ سے ہی روانہ ہونا پڑا۔ وہ چاروں کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ خیراں نے تو جہاز میں بیٹھتے ہی ’’لبیک لبیک‘‘ پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ اس کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ جہاز میں بیٹھ کر خدا کے گھر جا رہی ہے۔ جہاز میں جب اس کی آواز بلند ہوئی تو برابر میں بیٹھا ہوا الٰہیار اس کے زور سے کہنی مارتا، وہ چونک کر اپنی آواز کو دھیما کر لیتی۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ کیسے اپنی خوشی کا اظہار کرے۔ اس کے تلبیہ کی آواز سے دوسرے زائرین بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتے اور لبیک کی صدا سے جہاز گونج اٹھتا۔ جدے سے مکے تک کا سفر بھی اس نے اسی بے خودی کے عالم میں کیا اور اب جب وہ کعبہ کے سامنے تھی تو آنکھیں پھاڑے کھڑی تھی۔ پھر اس نے والہانہ طواف شروع کردیا۔ اسے اپنا ہوش نہیں تھا۔ الٰہیار اس کے دونوں شانوںکو مضبوطی سے تھامے ہوا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر خیراں کا ہاتھ اس چھٹ گیا تو وہ کہیں کا نہ رہے گا۔ یہاں تک آنے میں اس کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ نہ تو اس کے پاس جذبہ تھا اور نہ پاکیزہ اور خالص نیت۔ وہ تو بس خیراں کے طفیل یہاں تک آپہنچا تھا۔ اب وہ خیراں کی حفاظت اس طرح کررہا تھا جیسے کانچ کا نازک برتن۔ نایاب اور نادر، کہیں ٹوٹ نہ جائے۔ اگر یہ نایاب برتن ٹوٹ گیا تو وہ بالکل خالی اور اکیلا رہ جائے گا۔ پھر وہ کیا کرے گا۔ بس وہ خیراں کو پکڑے ہوئے تھا۔ صرف اسے تو پہلا حکم یہ یاد تھا جو ماں نے بچپن میں سکھایا تھا۔ اس کے بعد تو اس نے کبھی قرآن پڑھنے یا سیکھنے کی کوشش نہیںکی۔ ماں نے بہت کوشش کی کہ اس کا لاڈلا کم از کم قرآن تو پڑھ لے، مگر مسجد میں مولوی صاحب کی مار کے بعد وہ کبھی جھانکاہی نہیں۔ نہ قرآن پڑھنے اور نہ نماز پڑھنے۔ اب وہ ایک دم ساری سیڑیاں پھلانگتا ہوا خیراں کے طفیل رب کے گھر آگیا۔
خیراں نے طواف کے چکر پورے کئے۔ قریب رکھے ہوئے زم زم کے کولر سے گلاس میں زم زم نکال کر پہلے الٰہیار کو دیا، پھر خود ایک سانس میں پی گئی۔ زم زم پیتے ہوئے اس نے چپکے سے دعا کی ’’الٰہیار کو سنبھال لے، میرے مولا تیرے در پر آگیا ہے، اسے مایوس نہ کرنا۔‘‘ الٰہیار نے خیراں کی طرف کن انکھیوں سے دیکھا اور زم زم پی گیا۔ خیراں نے ایک گلاس اور بھرکر اس کی طرف بڑھادیا۔ الٰہیار نے وہ بھی غٹاغٹ کرکے پی لیا۔ زم زم پی کر اسے ایسا محسوس ہوا، جیسے وہ ابھی گر پڑے گا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے سیاہ پردے تھے، جو ہٹتے چلے جا رہے تھے۔ ان پردوں کے پیچھے تیز روشنی کا ہالا آگے برھتا جا رہا تھا۔ جو اس کے دماغ کی نسوں میں ہلچل مچا رہا تھا۔ نور کی شعاعیں اس ہالے میں سے چھن چھن کر اس کے دماغ سے آنکھوں تک پہنچ رہی تھیں۔ روشنی کی جگمگاہٹ سے اس کی آنکھیں جھلملا رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے دماغ پر سے میل کی تہیں نکل کر آنکھوںکے رستے بہہ رہی ہیں۔ وہ حیران تھا، اس کی آنکھوں سے خود بخود آنسو نکل رہے تھے۔ میلے چیکٹ سیاہی مائل آنسو۔ بے خبری اور گناہ کے ملوث ہونے کے احساس کے آنسو۔ ندامت اور شرمندگی کے آنسو، وہ مقام ابراہیم کے سامنے سجدے میں گر گیا۔ خدایا مجھے مانگنے کا سلیقہ نہیں آتا، مجھے یہ ڈھنگ سکھا دے۔ مجھے مانگنے والا بنا دے۔ اپنے در کا بھکاری بنالے۔ اپنے رحم و کرم سے مجھے اپنا بنالے۔ میری خطائوں کو معاف کر دے۔ میں یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جانا چاہتا۔ میں ہمیشہ سے خالی تھا۔ مگر اب خالی ہاتھ نہیں رہنا چاہتا۔ اپنی عنایتوں سے میری جھولی بھر دے۔ خیراں نے نفل پڑھ کر سلام پھیرا۔ الٰہیار تڑپ تڑپ کر آہ و زاری میں مشغول تھا۔ وہ اپنے خدا کے سامنے پھر سجدہ شکر میں مصروف ہوگئی۔ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ میرے سوہنے رب۔ تو نے میری دعائوں کو قبول کر لیا۔ تو نے اپنے گناہ گار کو مانگنے کا سلیقہ دے دیا۔ تیرا مجرم تیرے سامنے پڑا ہے۔ چاہے تو بخش دے چاہے دھتکار دے۔ میرا کام تو اس کو یہاں تک لانا تھا۔ اب تیرا اور تیرا بندے کا معاملہ ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More