’’بھارت کے بم اور ڈبل روٹی…‘‘

0

ہم بھی عجیب قوم ہیں، پڑوس میں بنیا ہاتھ میں بالن اور منہ میں مٹی کا تیل بھرے خونخوار نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہا ہے اور ہمیں ذرا بھی پروا نہیں، ہنسی مخول کر رہے ہیں، تاک تاک کر جگتیں مار رہے ہیں، ہماری اس بے پروائی پر سرحد پار بیٹھے بپن میاں کو پتنگیں نہیں لگیں گے تو اور کیا ہوگا؟ جب سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارت کے نیم فوجی دستے کے چالیس جوان خودکش حملے میں مارے گئے ہیں۔ بھارتی میڈیا نوکیلی کیلوں پر بیٹھ کر انگارے چباتے ہوئے ایک ہی مشن پر ہے کہ کس طرح پاکستان سے بدلہ لیا جائے۔ کیا زی ٹی وی اور کیا اے بی پی نیوز، کیا انڈیا ٹی وی اور کیا آج تک، بھارت کے آٹھ سو سے زائد نیوز چینلز کے ہر اینکر کی یہی کوشش ہے کہ وہ بھارتی آرمی چیف کے کان پر منہ رکھ کر پاکستان پر حملے کا حکم دے دے۔ بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف جس نفرت کی فصل کاشت کر رہا تھا، وہ زمین چیر کر منٹوں کے حساب سے بڑھی ہے۔ سیلانی کو اس نفرت کا احساس دبئی کے ورلڈ ٹریڈ سینٹرمیں ہوا، جہاں گلف فوڈ نمائش میں بڑی تعداد میں بھارتی بیو پاری اپنا سودا لئے پہنچے تھے۔ سیلانی جب ان سے ایک پاکستانی کی حیثیت سے ملتا تو ان کے سنولائے ہوئے چہرے کے عضلات تن جاتے اور گاہک کی صورت میں لکشمی دیوی کو آتا دیکھ کرآنے والی خیر مقدمی مسکان فوراً اڑن چھو ہو جاتی تھی۔ یہ سب بھارتی میڈیا کا کمال تھا، جس نے بھارتیوں کے سروں پر جنگی جنون سوار کرا دیا تھا۔ ان کی آنکھوں سے شعلے اور منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی۔ دوسری طرف پاکستانیوں کو پروا ہی نہیں تھی۔ سوشل میڈیا پر بھارتی تڑیوں بھری ویڈیوز بھر بھر کر وائرل کرتے اور جواب میں پاکستانی جگتیں مار رہے ہوتے تھے۔ سیلانی رات تک اس قسم کی درجنوں جگتیں وصول کر چکا تھا۔ کچھ تو ایسی تھیں کہ سیلانی بے ساختہ ہنس پڑا۔ سونے سے پہلے بھی وہ اپنے ایک گجر دوست کی تصویر دیکھ رہا تھا۔ وہ دور کی کوڑی لایا تھا۔ وہ بندوق اٹھائے گائے پر چڑھ بیٹھا تھا اور نیچے لکھا تھا:
’’گجروں کا لشکر
سب سے ہٹ کرآؤ بھارتیو! چلاؤ ناں ذرا اپنی گئو ماتا پر گولی…‘‘
سیلانی مسکراتے ہوئے سیل فون کی گھنٹی بند کر رہا تھا کہ ایک اور پیغام آگیا۔ سیلانی کے اس دوست نے تو کمال ہی کر دیا تھا۔ لکھا تھا:
’’دہلی اور ممبئی کی بہترین لوکیشن پر آج ہی اپنے پلاٹ کی بکنگ کے لئے رابطہ کریں، پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی…‘‘
سیلانی نے کچھ سوچ کر سونے کا ارادہ تھوڑی دیر کے لئے مؤخر کیا اور اس دوست سے پوچھنے لگا: ’’یار! تمہیں جنگ سے ڈر نہیں لگتا؟‘‘
تھوڑی دیر میں اس کا جواب آگیا: ’’سیلانی بھائی! ان چڑی ماروں سے کیا ڈرنا یار، میں تو کہتا ہوں دو دو ہاتھ ہونے دو، ہم بھی ساری حسرتیں نکال لیں گے، اچھا یہ بتائیں پلاٹ بک کرا رہے ہیں ناں!!‘‘
سیلانی ہنس پڑا اور فون ایک طرف رکھ کر لمبی تان کر سو گیا اور ایسا سویا کہ پھر صبح ہی اٹھا۔ اسے بھی یہ صبح ہی پتہ چلا کہ ساڑھے تین بجے کے قریب بھارتی طیاروں نے فضائی حدود عبور کیں اور بالا کوٹ میں پروں کے نیچے چھپائے بم پھینک کر پلٹ گئے۔ یہ بہت بڑی خبر تھی۔ سیلانی کی عادت ہے کہ صبح اٹھتے کے ساتھ ہی چائے پینا پسند کرتا ہے، لیکن آج وہ چائے شائے بھول کر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ اس نے خبر کی تصدیق کے لئے پاکستانی نیوز چینل لگائے۔ نجی نیوز چینلز پر بھارتی طیاروں کی در اندازی کی تصدیق ہوگئی۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارتی طیاروں نے مظفر آباد سیکٹر میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔ ایئر فورس کے طیارے ان کی جانب لپکے، جس پر وہ بالا کوٹ کے جنگل میں اپنا اسلحہ پھینک کر واپس فرار ہوگئے۔ کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوا۔ اب سیلانی نے بھارتی نیوز چینلز کا رخ کیا تو وہاں حسب توقع جشن کا سا سماں تھا۔ نیوز اینکر کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے بھارتی ناریوں کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں، بلکہ چری ہوئی تھیں۔ وہ چیخ چیخ کر بتا رہی تھیں کہ بھارتی طیاروں نے پاکستان میں گھس کر بالاکوٹ میں ’’آتنک وادیوں‘‘ کے کیمپ پر بمباری کی اور ایک ہزار کلو بارود برسا کر ان کا خاتمہ کر دیا۔
ایک اینکر چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی: ’’پاکستان کو آج بھارتی سینا نے جواب دے دیا، لڑاکو ویوان پاکستان میں گھسے اور انہوں نے آتنک وادیوں کے لانچنگ کیمپ ’’کھتم‘‘ کر دیئے… آج پاکستان کو بھارت کی طاقت کا اندازہ ہو گیا ہوگا، اسے سمجھ آگئی ہو گی اور یہی وہ ’’جبان‘‘ ہے، جو پاکستان سمجھتا ہے، میں ایک بار پھر بتا دوں کہ بھارتی لڑاکو ویوانوں نے پاکستان میں جیش محمد کا کیمپ کھتم کر دیا ہے اور اس وقت پاکستان میں ’’کھوف‘‘ پھیلا ہوا ہے۔ لوگ بوکھلائے ہوئے ہیں۔ پریشان ہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں جب ایک ہزار کلو کے بم گریں ہوں گے تو کیا ہوا ہوگا… یہ بڑی ’’کھبر‘‘ ہے، بہت بڑی ’’کھبر‘‘ہے۔ پاکستان کی حدود میں اسی کلومیٹر گھس کر بھارتی ایئر کرافٹس نے کارروائی کیا ہے اور اس ساری کھبر میں اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ بالا کوٹ، اسلام آباد سے سو سوا سو کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ اسلام آباد میں اس وقت بڑے ہی ’’کھوف‘‘ کا سماں ہے، لوگ پریشان ہیں، ان کی ہوائیاں اڑ گئی ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ ان کے ’’کھیال‘‘ میں بھی نہ تھا کہ ایسا ہو جائے گا…‘‘
سیلانی بھارتی پروپیگنڈے کا منجن بیچنے والی ناری کی چرب زبانی سے محظوظ ہو رہا تھا۔ ایک معروف صحافی کا کہنا تھا کہ بھارتی طیارے جیسے ہی پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے، پاکستان ایئر فورس کے طیارے تیزی سے ان کی جانب بڑھے، جس پر وہ وہیں اپنا اسلحہ پھینک کر چلے گئے… سیلانی یہ سب دیکھ رہا تھا کہ بیگم صاحبہ کمرے میں داخل ہوئیں اور سیلانی کی جانب بٹوہ اچھال دیا۔
’’ارے ارے…‘‘ سیلانی نے بٹوہ کیچ کیا اور سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’ڈبل روٹی لے آئیں۔‘‘
’’لاحول ولا قوۃ… وہاں انڈیا کے طیارے اندر گھس آئے ہیں اور آپ کو ڈبل روٹی کی پڑی ہے۔‘‘
’’پتہ ہے، سن رہی ہوں، آپ ٹینشن نہ لیں، جن کا کام ہے، وہ کرنا جانتے ہیں، آپ کا جو کام ہے، وہ کریں، جلدی سے ڈبل روٹی لے آئیں اور ہاں بران بریڈ لایئے گا۔‘‘
سیلانی نے مسکر اتے ہوئے کہا: ’’پڑوسیوں کا کچھ تو خیال ہونا چاہئے، ذرا سی ہی خوف زدہ ہو جاؤ، وہ اینکر کیسے چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ اسلام آباد والے خوف سے تھرتھرا رہے ہیں۔‘‘
’’ڈرتی ہے میری جوتی، جلدی کریں، ابھی ابرش جاگ جائے گی، رات بھی اس نے ٹھیک سے کھانا نہیں کھایا تھا۔‘‘
سیلانی مسکراتا ہوا کاندھے اچکا کر اٹھا اور رم جھم رم جھم برستی پھوہار میں چھتری کھولے باہر آگیا۔ باہر شہری تھرتھر کانپتے ہوئے اپنے اپنے کام پر جا رہے تھے۔ سڑک پر گاڑیاں رواں دواں تھیں۔ صبح کے وقت کھلنے والی دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ اخبار والا ایک دکان کے چھجے کے نیچے موٹر سائیکل لئے اخبار بیچ رہا تھا۔ گھروں میں دودھ دینے والا گوالا کنٹوپ پہنے تھرتھر کانپتا ہوا دودھ دے رہا تھا۔ جلد ہی سیلانی بھی کانپنے لگا۔ رات بھر سے ہونے والی بارش نے موسم یخ بستہ کر دیا تھا۔ ایسے ٹھنڈے یخ موسم میں بندہ سردی سے نہ کانپے تو کیا جون جولائی میں سی سی سی کرے…
سیلانی سوچنے لگا ویسے بھارتی میڈیا نے بس اتنا سچ کہا ہے کہ اسلام آباد کے شہری تھر تھر کانپ رہے، لیکن سردی سے… مر گئے ہمیں ڈرانے اور خوفزدہ کرنے والے۔ ہمارے آپس میں کیسے ہی شدید اختلافات ہوں، کسی بھی ادارے سے ناراضگی ہو، گلے شکوے ہوں، لیکن اپنی بقاء کی جنگ ہم خوب لڑنا جانتے ہیں اور جانتے ہیں جاگنے والے جاگ رہے ہیں۔ یہی تو اعتماد ہے۔ پھر لاشیں، لہو، آہیں اور کراہیں ہمارے لئے نئی نہیں ہیں۔ پندرہ برسوں میں ہم پر مسلط کی گئی لڑائی نے ہمیں خاصا سخت جان بنا دیا ہے۔ ہاں یہ سب بھارت کے لئے ضرور نیا ہوگا… سیلانی یہ سوچتے ہوئے چھتری کھولے تیزی سے آگے بڑھا۔ دکان سے ڈبل روٹی لے کر گھر کو پلٹا اور ڈبل روٹی ’’بے غم‘‘ کے حوالے کرکے بے فکر اور بے پروا بے غم کو مسکراتا ہوا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More