کیا کیا دیکھنا چاہئے؟ (پہلا حصہ)

0

آج کل جو ہمارے لوگ ملائیشیا کی سیر کو آتے ہیں، اگر ان سے پوچھا جائے تو وہ کوالالمپور کے بعد فوراً لنگکوی جزیرے اور گنتنگ ہائی لینڈز کا نام لیتے ہیں۔ ملائیشیا کی حکومت بھی ان مقامات کی خوب تشہیر کرتی ہے۔ یہ مقامات بھی دیکھنے کے لائق ہیں۔ میں ان کا مختصر احوال آئندہ تحریر کروں گا، لیکن سچ تو یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان، انڈیا، ایران اور عرب ملکوں سے یہاں آتے ہیں، ان کے دیکھنے کے لیے ملا کا جیسا تاریخی شہر بہترین ہے۔ یورپی اور امریکی سرد ملکوں کے گہما گہمی والے شہروں سے آنے والے لوگوں کے لیے لنگکوی جیسے خاموش جزیرے اور ٹھہری ہوئی زندگی پرلطف ثابت ہوتی ہے۔ معلوم نہیں کیوں ہمارے لوگ کوالالمپور ایئر پورٹ پر اتر کر اسی شہر کی بے شمار دلچسپیوں، اردگرد کے اپوح، سریمبان اور ملاکا جیسے خوبصورت شہروں اور دیہی زندگی کے ملٹی اسٹائل کے قصبے اور گائوں دیکھنے کے بجائے ایک دور دراز کے جزیرے لنگکوی کا رخ کرتے ہیں، جو بالکل تھائی لینڈ کی سرحد پر واقع ہے؟ اس فاصلے کو یوں سمجھئے، جیسے کراچی اور جیکب آباد کے درمیان ہے۔
ملائیشیا کے تاریخی شہر ملاکا کی کچھ قابل دید عمارتوں اور مقامات، خاص طور پر مسجدوں اور مندروں کا مختصر احوال میں اس سے قبل تحریر کر چکا ہوں۔ یہاں آنے والا ہر ٹورسٹ سب سے پہلے شہر کے پرانے اور مرکزی حصے میں آتا ہے، جہاں ڈچ دور حکومت کی قدیم اسٹرابری رنگ کی سرخ عمارتیں واقع ہیں۔ یہ عمارتیں Stadthuys بھی کہلاتی ہیں۔ ملاکا بلکہ پورے جنوب مشرقی ایشیا میں ڈچوں کی یہ عمارتیں سب سے زیادہ قدیم قرار دی جاتی ہیں۔ ان کی تعمیر 1650ء میں ہوئی اور انہیں آج تک اصل حالت میں رکھا گیا ہے۔ یہ عمارتیں دراصل ڈچ گورنرز کی رہائش گاہیں تھیں۔ آج ان عمارتوں کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ عمارتوں کے سامنے انگریز دور کی نشانی وکٹوریا فائونٹن بھی ہے۔ اس حصے پر سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے، جسے ’’ڈچ اسکوائر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کسی قریبی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں تو ٹہلتے ہوئے یہاں تک آ سکتے ہیں۔ اگر آپ کی رہائش دور ہے تو بس کے ذریعے 5 نمبر اسٹاپ پر اتر کر یہاں پہنچ سکتے ہیں۔ ملاکا میں رہائش کے دوران میرے پاس کوئی بھی مہمان آتا تو میں اسے ان سرخ عمارتوں میں ضرور لے آتا تھا۔ ملاکا میں بسوں اور ٹیکسیوں کے علاوہ رکشہ بھی چلتے تھے، لیکن اب غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی کے لیے ان رکشوں کو خوب سجایا گیا ہے۔ کوئی ان میں بیٹھ کر سفر کرے یا نہ کرے، لیکن فوٹو ضرور بنوایا جاتا ہے۔ میں اس وقت بھی فیس بک پر ان رکشوں میں سندھ یونیورسٹی کی دو پروفیسر، شاعرہ کی تصاویر دیکھ رہا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حال ہی میں یہاں سے ہو کر گئی ہیں۔ ایک فلاسفی ڈپارٹمنٹ کی سربراہ پروفیسر امر سندھو اور دوسری کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ پروفیسر عرفانہ ملاح ہیں۔
ڈچ اسکوائر پہنچ کر آپ دوسری بھی کچھ چیزیں دیکھ سکتے ہیں، جو وہیں قریب ہی واقع ہیں۔ مثلاً کرائسٹ چرچ ملاکا، میری ٹائم میوزیم، سینٹ پال ہل، جسے A-Famosa بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بادشاہی محل، منارا ٹیمنگ ساری… اسی میٹر بلند مینار کی ایک منزل، جہاں سے پورے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ملاکا کے دو بڑے شاپنگ سینٹر ’’داتاران پہلوان میگا مال‘‘ اور ’’ماہ کوٹا پریڈ شاپنگ سینٹر‘‘ بھی یہیں واقع ہیں۔ اگر آپ پتایا (تھائی لینڈ) جیسے ساحل دیکھنا چاہتے ہیں تو ملاکا سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر تنجنگ بدارا اور پینگکلان بالا جیسی خوبصورت، صاف ستھری بیچز چلے جائیے، جہاں سی فوڈ کے ریسٹورنٹ ملیں گے اور جاپانی، یورپی گورے یہاں کے موسم اور سمندری لہروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نظر آئیں گے، لیکن مجھے معلوم ہے کہ ہمارے لوگ محض ساحلوں سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ایسا ہوتا تو ان کے لیے کراچی میں منوڑا، کلفٹن، سی ویو، ہاکس بے اور سینڈس پٹ میلوں تک سمندر موجود ہے۔
ہمارے لوگوں کے لیے تھائی لینڈ کے ساحلی شہر اس لیے زیادہ کشش رکھتے ہیں کہ وہاں جسم فروشی کی باقاعدہ انڈسٹری قائم ہے۔ اب جا کر ایڈز اور اس جیسے دیگر موذی امراض کے خوف اور ہمارے ہاں عورتوں میں تعلیم اور شعور آنے کے سبب تھائی لینڈ یاترا کرنے والے مردوں کا راستہ رک گیا ہے، جبکہ جہاز چلانے والے ایام میں جب بھی ان شہروں میں آنا ہوتا تو ساحلوں پر یورپی نظر آتے اور تنگ گلیوں میں واقع قحبہ خانوں اور مساج گھروں کے اردگرد ہمارے ہاں کے لوگ منڈلاتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ بہرحال اگر کسی کو سمندر اور ساحل دیکھنے ہیں تو ان کے لیے نہ صرف ملاکا میں کئی ایسے مقامات ہیں بلکہ ملائیشیا کی دیگر ریاستوں میں بھی سمندر کنارے ساحلی بستیاں موجود ہیں، کیونکہ ملائیشیا کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ہے۔ پیرلس، کیداح، پینانگ، پیراک، سلینگور، نینگری سیمبیلان اور ملاکا ریاستیں ’’ملاکا اسٹرائٹ‘‘ کے کنارے پر واقع ہیں۔ کیلنتان ترینگانو اور پہانگ جنوبی چینی سمندر کے کنارے پر ہیں۔ بالکل آخری سرے پر جوہر ریاست ہے، جسے دونوں سمندر چھوتے ہیں۔ ادھر فلپائن کی سمت جو مشرقی ملائیشیا ہے، اس کی دونوں ریاستوں (صباح اور سراواک) کو جنوبی چینی سمندر چھوتا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More