شراب و دیگر منشیات، استغفر اللہ

0

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون نے شراب پر پابندی کا آئینی ترمیمی بل مسترد کردیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اقلیتوں کے نام پر شراب کی فروخت بند کی جائے۔ اس سلسلے میں آئین کے آرٹیکل سینتیس میں ترمیم کی جائے۔ ہمارے نام پر شراب کے پرمٹ نہ دیئے جائیں اور ہمارے مذہب کی توہین نہ کریں۔ مسیحی رکن شنیلہ روتھ بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مذہب میں بھی شراب حرام ہے۔ اس سے ہمارے خاندان تباہ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اس پر بڑا دلچسپ تبصرہ کیا کہ شراب کا پرمٹ بوٹا مسیح لیتا ہے، لیکن اسے پیتا محمد مسیح ہے۔ ایک رکن اسمبلی نے بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجنے کی تجویز پیش کی، جسے مسترد کر دیا گیا۔ بعض ارکان نے ہاتھ کھڑا کر کے بل کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کے تحت شراب پر پہلے ہی پابندی ہے۔ ایک رکن ملک فاروق اعظم نے بل پیش کرنے والے اقلیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار سے کہا کہ نیا پنڈورا بکس نہ کھولیں۔ آپ صرف ٹی وی پر آنے اور شہرت کے لیے شرارت کر رہے ہیں۔ بشیر ورک یہ نئی منطق لائے کہ شراب پر مکمل پابندی کا بل منظور ہوگیا تو عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہوگی۔ قائمہ کمیٹی میں شراب پر مکمل پابندی کے بل پر ہونے والی بحث اور اسے مسترد کیے جانے پر اہل وطن فاتحہ پڑھنے کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں۔ بل کی مخالفت کرنے والے مسلم ارکان کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایک غیر مسلم رکن رمیش کمار نے پابندی کا بل پیش کرتے ہوئے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ شراب ہمارے مذہب میں بھی حرام ہے۔ لہٰذا ہمارے نام پر اسے فروخت کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ہندوؤں کے نام پر شراب کے پرمٹ ہمارے مذہب کی توہین ہے۔ ایک ہندو رکن اسمبلی ان کے مذہب کے نام پر شراب کے پرمٹ اور فروخت کو اپنے مذہب کی توہین قرار دیتا ہے۔ لیکن مسلم ارکان کو غیرت نہیں آئی کہ وہ اس کی حمایت کرنے کے بجائے ڈاکٹر رمیش کمار کو محض ٹی وی پر آکر شہرت حاصل کرنے اور شرارت کرنے کا مرتکب قرار دے رہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ آئین میں شراب پر پہلے ہی پابندی ہے، لوگوں کو فریب دینے کے لیے ہے۔ قانون میں صرف غیر مسلموں کے لیے شراب کے پرمٹ جاری کرنے اور انہیں فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر مسلمان ارکان اسمبلی اس قانون کو کافی سمجھتے ہیں تو وہ اس امر کی ضمانت دیں کہ کسی مسلمان کو شراب فروخت نہیں کی جائے گی۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ارکان پارلیمان اور حکمران ٹولے سمیت اکثر بااختیار با اثر لوگ شراب کے عادی ہیں۔ وہ مسلمان ہیں اور قانون کے تحت انہیں شراب فروخت کرنے پر پابندی ہے تو جام کے جام لنڈھانے والوں کو آخر یہ شراب کہاں سے اور کیسے مل جاتی ہے؟ حقیقیت یہ ہے کہ ہر قانون اور ہر پابندی صرف غریبوں کے لیے ہے، مقتدر و مقبول طبقہ جو چاہیں حاصل کر سکتے ہیں۔ مسیحی رکن شنیلہ روتھ ہی نہیں، ہر مذہب کا حقیقی پیروکار یہی کہے گا کہ ان کے ہاں بھی شراب حرام ہے۔ شنیلہ روتھ کی یہ بات درست ہے کہ شراب کے پرمٹ غیر مسلموں کے نام پر جاری کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس کا سب سے زیادہ استعمال مسلمان کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص شراب پر مکمل پابندی کا مطالبہ کرتا ہے تو مسلمانوں کو ندامت کے ساتھ یہ کہہ کر اس کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ جو کام ہمیں ایمان اور سنجیدگی کے ساتھ خود کرنا چاہئے، اس پر آپ نے اگر شہرت اور شرارت کے لیے بھی یہ تجویز پیش کی ہے تو ہم اسے بسر و چشم قبول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس آئین میں شراب کی محدود پابندی کا حوالہ دینا اور مکمل پابندی کی صورت میں عالمی سطح پر بدنامی کا اندیشہ ظاہر کرنا بجائے خود شرارت ہے اور گناہ کی حمایت کا تاثر دیتا ہے۔ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجنا اسے ٹالنے اور سرد خانے میں ڈالنے کی حرکت یا سازش قرار دی جاسکتی ہے۔ اگر یہ ادارہ فرض شناس، فعال اور خود مختار ہوتا تو پاکستان میں شراب، جوا، سود اور فحاشی و بدکاری کہیں نظر نہ آتی۔ مذکورہ منکرات و فواحش کے باعث ہماری نسلوں کی نسلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ جو دشمن سے مقابلے میں ہماری قوت کو بہت کمزور کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگر رمیش کمار شراب پر مکمل پابندی کے ساتھ ہیروئن اور کوکین جیسی تمام نشہ آور اشیاء کی ممانعت کو بھی شامل کرلیتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن اس میں شاید انہیں اپنی جماعت کے لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ جس زمانے میں نبی کریمؐ کے ذریعے اسلام اپنی آخری تعلیمات و ہدایات کے ساتھ دنیا میں پہنچا، اس وقت تقریباً سارا عرب معاشرہ نشے کا عادی تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں شراب کی حرمت بیک وقت نازل کرنے کے بجائے تدریجاً بیان کی گئی۔ پہلے کہا گیا کہ شراب اور جوا کے فوائد کے مقابلے میں اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ شراب سے انسان کی عقل آؤٹ ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں اس کے اندر کی تمام برائیاں ابھر کر اوپر آجاتی ہیں، جو معاشرے میں زبردست خرابیاں پھیلاتی ہیں۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے ایک مرتبہ بھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا، اس کی وجہ؟ آپؓ کا جواب ہر مسلم و غیر مسلم کے لیے قیامت تک قول فیصل ہے کہ میں شراب کو شرف انسانیت کے خلاف سمجھتا تھا، اس لیے کبھی اس کے قریب نہیں گیا۔ قرآن حکیم نے دوسرے مرحلے میں یہ فرمایا کہ جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ۔ اس حکم کے بعد نماز کے اوقات میں بالخصوص عصر اور مغرب کی نمازوں کے دوران شراب نوشی ترک کر دی گئی۔ روایات کے مطابق اس کے بعد خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے یہ دعا مانگی کہ اے اللہ شراب کے بارے میں فیصلہ کن حکم نازل فرما دے۔ چنانچہ ایک آیت نازل ہوئی، جس کے تحت شراب، جوا، بت اور فال، سب کو شیطانی کام قرار دے کر ان سے مکمل علیحدگی کا حکم دیا گیا۔ نبی کریمؐ نے ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دیا ہے۔ شراب کی حتمی ممانعت کا حکم نازل ہوتے وقت مسلمانوں نے اس پر علمدرآمد کی یہ مثال قائم کی کہ حکم پہنچنے کے وقت جس کے ہاتھ میں شراب کا جام ہونٹوں کے قریب تک پہنچ چکا تھا، اس نے وہیں سے نیچے گرا دیا۔ ان کے مقابلے میں اسلام کے نام پر قائم کیے جانے والے ملک پاکستان کی ستر سال بعد آج بھی یہ حالت ہے کہ شراب اور دیگر منشیات کے عادی قوم پر مسلط ہیں اور وہ انہیں جاری و ساری رکھنے کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشنے میں لگے ہوئے ہیں۔ استغفر اللہ۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More