سرفروش

0

عباس ثاقب
مجھے اس کی بے بسی اور شکست خوردگی کی شدت کا بخوبی ادراک تھا۔ میں اس ہٹے کٹے، بااختیار اور بزعم خود اعلیٰ درجے کے لڑاکا پولیس افسر کو اپنے ہاتھوں سے خود کو بے آبرو کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ لہٰذا میں پوری طرح چوکنا تھا۔ اس کے ہاتھ انتہائی سست رفتاری سے حرکت کر رہے تھے اور شاید ان میں لرزش بھی تھی۔ اگر وہ کوئی عام شہری ہوتا تو میں اسے ہرگز اس طرح ذلیل نہ کرتا۔
اس نے اپنے کرتے کے نیچے ہاتھ لے جانے کے بعد ایک بار پھر رحم طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں لہراتی التجا نظر انداز کرتے ہوئے ڈپٹا۔ ’’کیا ہوا؟ ہاتھوں پر فالج گر گیا تمہارے؟ یا کہو تو یہ خدمت بھی میں انجام دے دوں؟‘‘۔
اس نے میرے لہجے میں موجود تضحیک برداشت کرنے کے لیے سر جھٹکا اور پھر اس کے ہاتھ حرکت میں آگئے اور اس نے ازار بند نکال کر میرے سامنے ایک سیٹ کی پشت پر ڈال دیا۔ تاہم اب وہ شلوار کو فرش پر گرنے سے بچانے کے لیے بائیں ہاتھ سے تھامے بیٹھا تھا۔
اس دوران میرا ذہن تیزی سے سوچ رہا تھا کہ اس ازار بند سے اس کے ہاتھ عقب میں کر کے کیسے باندھوں۔ دائیں ہاتھ میں پستول ہے۔ جسے میں ایک لمحے کے لیے بھی ہدف سے نہیں ہٹا سکتا۔ جبکہ صرف بائیں ہاتھ سے جگدیشن کو مضبوطی سے جکڑنا تقریباً ناممکن ہے۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ مجھے ایسا کرنے کے لیے اس کے جسم سے بالکل قریب ہونا پڑے گا۔ ورنہ وہ موقع ملتے ہی مجھ پر کوئی مہلک وار کر سکتا ہے۔
کوئی محفوظ طریقہ سمجھ میں نہ آنے پر میں نے اسے ازار بند سے باندھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اب مجھے اسے جکڑکر بے بس کیے بغیر اپنے سوالوں کے جوابات حاصل کرنے تھے۔ ویسے بھی شلوار سے ازار بند نکل جانے کے بعد نفسیاتی طور پر ہی سہی، وہ کسی حد تک تو بے بس ہو ہی گیا تھا۔ بس اب مجھے اسے اس حد تک دہشت زدہ کرنا تھا کہ یہ بلا چوں و چرا سچ اگلنے پر مجبور ہوجائے۔
میں نے بے چارگی کی تصویر نظر آنے والے اس شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’میں ایک بار پھر کہتا ہوں۔ یہ خیال ذہن سے نکال دو جگدیش جی کہ میں تم پر ذرا بھی رحم کھاؤں گا۔ لیکن مجھے تمہیں ذلیل کرنے کا بھی کوئی شوق نہیں ہے۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں۔ اگر تم میرے سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دینے کا وعدہ کرو تو میں تمہیں زندہ چھوڑ کر یہاں سے جا سکتا ہوں‘‘۔
اس نے میری بات غور سے سنی اور پھر کچھ توقف کے بعد جواب دیا۔ ’’تم تو کہہ رہے تھے کہ تم مجھے بس میں بندھا چھوڑ کر فوراً چلے جاؤ گے۔ میں نے ناڑا تمہارے حوالے کر دیا ہے۔ میرے ہاتھ باندھتے کیوں نہیں؟‘‘۔
میں نے اس کی بات سن کر قہقہہ لگایا۔ ’’تم نے مجھے بچہ سمجھ لیا ہے جگدیش جی۔ تمہیں بس میں بندھا چھوڑ کر جانے کی بات تو بغیر مزاحمت کے اندر لانے کے لیے کی تھی۔ اور ناڑے سے ہاتھ باندھنے کے بارے میں تمہاری دلچسپی اور بے تابی کی وجہ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ تم اسے مجھے مار گرانے کا بہترین موقع سمجھ رہے ہو۔ یہ چال بازی چھوڑو۔ اور اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو جو جو میں نے پوچھا ہے، جھٹ پٹ بتادو‘‘۔
اس نے اپنی مایوسی چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’یقین کرو میں پہلے ہی تمہیں سب کچھ سچ سچ بتا چکا ہوں۔ میں صرف شک کی بنیاد پر تمہارے پیچھے لگا ہوں۔ اگر تمہارے پاس کوئی ہتھیار نہ نکلتا تو میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ کر واپس روانہ ہو جاتا‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’مسٹر گوسوامی، یا جو بھی تمہارا اصل نام ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تم مجھے جس بات کا یقین دلانا چاہتے ہو۔ وہ کسی نوعمر دیہاتی لڑکے کو جھانسا دے سکتی ہے مجھے نہیں۔ اور تمہاری بدقسمتی یہ ہے کہ مجھے پورا یقین ہے کہ تم اچھی طرح پہچاننے اور یہ تصدیق کرنے کے بعد میرا دم چھلا بنے تھے کہ میں ہی تمہارا مطلوبہ شخص ہوں۔ لہٰذا خیریت اسی میں ہے کہ تم سچ سچ بتا دو کہ تمہیں میرے بارے میں اتنی ٹھوس مخبری کیسے ملی اور تمہیں میرے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟ تم میرے پیچھے پیچھے انبالے پہنچ کر کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟‘‘۔
اس نے اپنے لہجے میں کچھ جھنجھلاہٹ، کچھ شکایت لاتے ہوئے کہا۔
’’آخر میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں؟ میں نے جو بتانا تھا، بتادیا۔ اب تمہاری مرضی۔ مانو یا نہ مانو!‘‘۔
یہ کہہ کر اس نے اپنی بے نیازی ظاہر کرنے کے لیے شانے اچکائے۔ اس کے ساتھ ہی شلوار پر سے اس کی گرفت ختم ہوگئی اور وہ اس کے ٹخنوں کی طرف گرنے لگی۔ میں نے بے اختیار اس کی طرف سے نظریں ہٹالیں۔ میں نے کنکھیوں سے اسے شلوار سنبھالنے کے لیے تیزی سے جھکتے دیکھا۔ اس کی بوکھلاہٹ اتنی مضحکہ خیز تھی کہ مجھے ہنسی آرہی تھی۔ لیکن اچانک میری آنکھوں کے گوشے میں چمک سی لہرائی۔ میں نے چونک کر جگدیش کی طرف دیکھا۔ اگر مجھے ایک لمحے کی بھی دیر ہوجاتی تووہ اچھل کر اپنے دائیں ہاتھ میں موجود خنجر میری چھاتی میں گھونپنے میں کامیاب ہوجاتا۔
اس کے سر سے فضا میں بلند ہوتے ہاتھ میں چمک دار، تیز دھار ہتھیار کی جھلک پاتے ہی میں پھرتی سے پیچھے ہٹا۔ اور اس سے پہلے کہ وہ مجھ تک جھپٹنے کی کوشش ناکام ہوتے دیکھ کر مجھ پر خنجر پھینک کر مارتا۔ میں نے تاک کر اس کے دائیں شانے پر گولی چلادی۔ اگلے ہی لمحے اس کے جسم کو زور کا جھٹکا لگا اور وہ پیچھے کی طرف ڈھے گیا۔ میرا نشانہ بالکل ٹھیک بیٹھا تھا۔ وہ حلق پھاڑ کر چیخا اور خاصے زور سے عقبی سیٹ سے ٹکرایا۔ خنجر اس کے دائیں ہاتھ سے چھوٹ کر سامنے کی ایک سیٹ پر جا گرا تھا۔ جو میں نے فوراً اٹھاکر اپنے قبضے میں کرلیا۔ وہ نڈھال ہوکر لمبی عقبی سیٹ پر ڈھے گیا تھا۔ وہ اتنی اذیت میں تھا کہ اپنی برہنگی کا بھی اسے احساس نہیں رہا تھا۔ گولی شاید اس کی ہنسلی کی ہڈی چکنا چورکرگئی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More