پرسکون نیند (حصہ اول)

0

رات کافی ڈھل چکی تھی، نمرہ بے چینی سے بستر پر کروٹیں بدل رہی تھی۔ محلے میں ہونے والی شادی کے گھر لگے ہوئے لائوڈ اسپیکر سے ’’سوہنی دے نخرے بڑے سوہنے لگدے‘‘ اس کے کان کے پردوں میں سوراخ ڈال رہے تھے۔ چاروں طرف سے لڑکے لڑکیوں کے شور اور تالیوں کی آوازیں، بے ہنگم اور بے ہودہ گانوں نے اسے بے کل کر رکھا تھا۔ یہ مشغلہ کئی دن سے جاری تھا۔ مغرب کے بعد شروع ہونے والا یہ پروگرام گزشتہ ایک ہفتے سے اسے تکلیف دے رہا تھا۔
محلہ کی شادی میں اس کی شرکت کیلئے کارڈ آ چکے تھے۔ اس کارڈ کے ساتھ مہندی، مایوں، رسم حنا کے الگ الگ بلاوے تھے۔ نمرہ جس علاقے میں رہتی تھی، اس میں اس قسم کی تقریبات کے نام پر بے ہودگیاں آئے دن جاری رہتیں۔ یوں تو یہ غریبوں کی بستی تھی، مگر ان بے ہودہ اور غیر شرعی رسموں کے لئے ان غریبوں کے پاس بہت کچھ نکل آتا تھا۔ کسی کے گھر میں تقریب کی بھنک پڑتے ہی محلے کے لڑکے لڑکیاں اس گھر میں ڈیرا جما لیتے اور پورے ہفتے رات رات بھر گانے ناچنے کا پروگرام جاری رہتا۔ فجر کی اذان ہوتے ہی سناٹا چھا جاتا اور سب اپنے اپنے گھروں میں جا کر بے خبر سو جاتے۔ نمرہ گزشتہ کئی دنوں سے نہیں سو پا رہی تھی۔ اس کے ننھے ننھے بچے شور و غل سے بار بار بے چین ہو کر اٹھتے، مگر وہ کھڑکیاں دروازے بند کر کے اپنی احتیاطی تدابیر سے آوازوں کو گھر میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کر کے بچوں کو کسی نہ کسی طرح سلا دیتی۔ خود اٹھ کر تہجد ادا کرتی، ہنگامہ اور شور بند نہ ہوتا تو قرآن پاک کی تلاوت کرنے بیٹھ جاتی۔ اپنے بچوں اور تمام مسلمان بچوں کے لئے دعائیں کرتیں۔ ہر مسلمان ماں کی طرح وہ بھی اپنے بچوں کی بھلائی اور خیر خواہی کی متمنی تھی۔ پاکستان میں روشن خیالی اور آزادی کے نام پر انڈین ثقافت نے اپنا رنگ اچھی طرح جما لیا ہے۔ لڑکے لڑکیوں کا آزادانہ اور بے حجابانہ میلاپ، فیشن کے نام پر مختصر سے مختصر ستر پوشی اس کے روئیں روئیں میں لرزش پیدا کر دیتی تھی۔
یہ شادی کا ہنگامہ وجیہہ الدین صاحب کے گھر میں بپا تھا، ان کے بیٹے کی شادی ہو رہی تھی۔ پیشے کے لحاظ سے وہ سنار تھے، صرافہ بازار میں ان کی دکان تھی، سونے کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی وجیہہ الدین صاحب کے گھر میں ہُن برسنے لگا۔ کچھ برسوں پہلے وہ قناعت پسند سادہ مزاج آدمی تھے، مگر مال اور اولاد کے فتنے نے انسانوں کو کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ مال کو حاصل کرنے کے بے شمار ناجائز طریقے ہیں اور اولاد کے مستقبل کی خاطر انسان اس فتنے میں نہ چاہتے ہوئے بھی پھنس جاتا ہے۔ بظاہر تو وہ سنار تھے، مگر راتوں رات امیر بن جانے سے ان کے رہن و سہن کی تبدیلی نے لوگوں کو شک و شبہات میں مبتلا کر دیا۔ نوّے گز کے ادھورے سے مکان میں رہنے والے وجیہہ الدین صاحب نے آس پاس کے تین مکان منہ مانگے داموں خرید کر بنگلے نما طرز پر تعمیر کرا کے لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا۔ محلے کے سفید پوش لوگ احساس محرومی کی وجہ سے ان سے میل میلاپ سے گھبرانے لگے۔ دو سال پہلے اپنی دو بیٹیوں کو رخصت کرتے ہوئے وجیہہ الدین صاحب کے پاس دولہا کو سلامی دینے کے لئے بھی کچھ نہ تھا۔ محلے کے بزرگوں نے ان کی طرف سے دولہا کو گھڑی اور ہزار روپے دے کر ان کا بھرم رکھ لیا تھا۔ شاید یہی وہ بار احسان تھا، جس کی وجہ سے وجیہہ الدین روپے کی ریل پیل کے باوجود محلے چھوڑ کر کسی پوش علاقے میں نہیں گئے۔ سناروں کے بارے میں ایک عجیب سی مثل مشہور ہے کہ وہ اپنی ماں کے زیور سے بھی چوری کر لیتا ہے۔ مگر یہاں وجیہہ الدین کی دیانتداری کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اب وہ دو سو چالیس گز کے تین منزلہ بنگلے میں رہتے تھے۔ دروازے پر مسلح گارڈ ہر وقت ان کے گھر کی حفاظت کے لئے موجود رہتے تھے۔
نمرہ جب رات بھر کی بے کلی کے بعد صبح اٹھی تو جسم کے درد کی وجہ سے بخار سا محسوس ہونے لگا۔ وہ سنجیدگی سے سوچ رہی تھی، یہ سب تو اب پاکستانی معاشرت کا حصہ ہے، اسے اتنا پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ اب تو اسے
ان سب چیزوں کا عادی ہو جانا چاہئے۔ آج تو اسے مایوں میں جانا تھا۔ وہ عموماً ایسی تقریبات میں جانے سے گریز کرتی تھی۔ مگر آج کچھ سوچ کر اس نے وجیہہ الدین صاحب کے ہاں تقریب میں جانے کی تیاری شروع کر دی۔ مایوں کے کارڈ پر ظہر کے بعد میلاد اور قرآن خوانی کا بھی بلاوا تھا۔ سادہ سا سوٹ پہن کر بڑی سی چادر سے اپنے آپ کو لپیٹ کر وہ وجیہہ الدین صاحب کے ہاں پہنچی تو مختلف قسم کی پرفیوم کی تیز خوشبوئوں نے اس کا استقبال کیا۔ معطر بے فکرے نوجوان لڑکے لڑکیاں ہنستے قہقہے لگاتے ادھر سے ادھر پھر رہے تھے۔ بے فکری سے چمکتے دمکتے درخشاں چہرے، مترنم ہنسی کی آوازیں، لڑکوں کی فقرے بازیاں۔ یہ سب اب ہمارے پاکستانی معاشرے کی ثقافت کا حصہ ہیں۔
وجیہہ الدین صاحب کی دونوں بیٹیاں زیبا اور شائستہ اور ان کی بیگم شازیہ نے نمرہ کا استقبال کیا۔ انہیں یہ سادہ سی نوجوان لڑکی بہت بھلی لگتی تھی۔ اس کے رکھ رکھائو میں توازن اور شائستگی تھی۔ نمرہ اپنے تینوں بچوں کے ساتھ فرش پر بیٹھ گئی۔ ہال کمرے میں ہر طرف گیندے اور گلاب کے پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں۔ ایک طرف اسٹیج پر پیلی ریشمی چاندنی بچھی ہوئی تھی، جس پر خوبصورت آرائشی صوفے رکھے ہوئے تھے۔ شیشے کی میز پر کرسٹل کی پلیٹ میں گلاب اور گیندے کے پھول رکھے تھے۔ نمرہ یہ سب تیاری دیکھ رہی تھی۔ اچانک زیبا نے اس کے قریب آ کر کہا ’’نمرہ باجی اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو تھوڑا سا میلاد پڑھ دیں۔ ہماری میلاد پڑھنے والی آج شدید فلو میں مبتلا ہو گئی ہیں اور انہوں نے اس وقت معذرت کی ہے۔ پلیز باجی…‘‘
نمرہ شاید اسی موقع کی منتظر تھی۔ وہ ایسی محفلوں میں جہاں اسے کوئی سننا چاہے جی جان سے سنانا پسند کرتی تھی۔ اس نے مسکرا کر میلاد پڑھنے کی حامی بھری تو شائستہ اور زیبا نے فوری طور پر لڑکیوں کو اسٹیج خالی کرنے کا حکم دیا، جو ڈھول لئے گانے بجانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ نمرہ نے دیکھا کمرے میں بزرگ خواتین کی تعداد کم اور نوجوان فیشن زدہ لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ یہ تمام لڑکیاں محلے کی تھیں، مگر اس وقت فیشن زدہ چہروں کے ساتھ ان کو پہچاننا مشکل ہو رہا تھا۔ شائستہ اور زیبا نے نمرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر پہنچایا، یہ اس بات کی علامت تھی کہ اب کچھ سنجیدہ سی گفتگو ہونے والی ہے۔
نمرہ نے صوفے پر بیٹھ کر اپنے پرس میں سے چھوٹا قرآن مجید نکالا، جو وہ ہر وقت اپنے پرس میں رکھتی تھی۔ اس قرآن مجید کی وجہ سے اسے سفر میں بڑی آسانی ہو جاتی، لمبا سفر ہوتا تو طوالت پتہ نہ چلتی اور بڑی بڑی سورتیں اس نے عموماً بسوں کے سفر میں ہی یاد کی تھیں۔ راستے کی اکتاہٹ اور سفر کی تھکاوٹ کو دور کرنے میں تلاوت قرآن بڑا معاون ثابت ہوتی۔ اس نے ایک نظر کمرے میں فرش پر بیٹھی ہوئی خواتین پر ڈالی، جو ہر چیز سے بے نیاز ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھیں اور میلاد یا قرآن کے درس کو بے وقت کی راگنی سمجھ کر اہمیت دینے کو تیار نہیں تھیں۔
نمرہ بہت خوش لحن قاریہ تھی۔ اسکول اور کالج میں ہمیشہ قرأت پر انعامات حاصل کرتی رہی تھی۔ اس نے قرآن مجید کھولا، اس کی خواہش تھی کہ وہ اس قسم کی محفل میں سورئہ حجرات یا سورئہ نساء یا سورئہ نور یا سورئہ احزاب کی چند آیات تلاوت کرے۔ جس میں پردے کے احکامات کے ساتھ اخلاقی اور معاشرتی برائیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں جو محفل کا رنگ تھا، بے حجابی اور مختصر لباس کے جو نمونے وہ دیکھ رہی تھی، اس کے حوالے سے پہلے اس نے تعوذ اور تسمیہ کے بعد سورئہ حجرات کی درمیانی آیات کی خوش الحانی سے تلاوت کی۔ اس کی آواز کے حسن نے خواتین کے چہرے کے تنائو میں کمی کر دی۔ نوجوان
لڑکیاں جو اسے اسٹیج پر بیٹھے دیکھ کر کمرے سے بڑبڑاتی نکل گئی تھیں، آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے کمرے میں اپنے لئے جگہ بنانے لگیں۔ اس قسم کی محفل میں جس تقدس اور پاکیزگی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ تو وہاں موجود نہ تھی۔ کیونکہ نوجوان لڑکیاں جینز اور ٹی شرٹ یا سلیو لیس قمیضوں کے ساتھ ٹرائوزر میں ملبوس تھیں۔ سر پر حجاب یا دوپٹے نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ نمرہ کے لحنِ قرآنی نے ان کو ایسا مسحور کیا کہ وہ کوشش کے باوجود کمرے سے باہر نہ جا سکیں اور اپنے آپ میں چھپنے کی کوشش کرنے لگیں۔ اس نے خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے سورئہ حجرات کی تلاوت کے بعد ترجمہ اور تشریح بیان کرنا شروع کی:
’’ایمان والے مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں۔ ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگائو اور نہ کسی کو برے لقب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد فحش و فجور میں مبتلا ہو جانا برا ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔ اے ایمان والو بہت بد گمانیوں سے بچو۔ یقین مانو بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ کسی کی غیبت کیا کرو۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘
ترجمہ ختم کر کے نمرہ نے کمرے میں بیٹھی ہوئی خواتین پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور ان آیات کی تشریح بیان کی: ’’میری عزیز بہنو! ایک شخص کسی دوسرے شخص کا مذاق اسی وقت اڑاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اس سے بہتر اور اسے اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھتا ہے۔ حالانکہ خدا کے ہاں ایمان و عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں۔ اس کا علم صرف عالم الغیب کو ہی ہے۔ کسی کی ظاہری شکل و صورت اور بناوٹ کا مذاق اڑانا دراصل اس خالق حقیقی کا مذاق اڑانا ہے۔ اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو حقیر جاننا تکبر کی علامت ہے۔ اس لئے اس سے منع فرمایا گیا ہے۔ عورتوں میں یہ اخلاقی کمزوری بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ اس لئے عورتوں کا الگ ذکر کرکے انہیں بھی بطور خاص اس سے منع کیا گیا ہے۔ مردوں اور عورتوں کو الگ الگ مخاطب کر کے اس بات کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ اسلام اس قسم کی مخلوط محفلیں پسند نہیں کرتا، جس میں مرد عورتوں کا اور عورتیں مردوں کا مذاق اڑائیں۔ لوگوں کو حقیر سمجھنے اور ان کی تضحیک اڑانے کو کبر سے تعبیر کیا گیا ہے اور کبر خدا کو نہایت نا پسند ہے۔ عورتوں میں ایک اور اخلاقی کمزوری ہوتی ہے جو طعنہ زنی کہلاتی ہے۔ ایک دوسرے کو طعنہ دینا دراصل ایسی برائی ہے، جس کی قرآن نے کئی جگہ مذمت فرمائی ہے۔ دوسروں کی تحقیر کے لئے لوگوں کو برے القاب سے پکارنا منع ہے۔ یعنی اس طرح نام بگاڑ کر یا برے نام تجویز کر کے بلانا یا قبول اسلام اور توبہ کے بعد اسے سابقہ دین کے حوالے سے منسوب کرنا کافر، شرابی، جہنمی کہہ کر پکارنا گناہ ہے۔ میری پیاری بہنو! برا نہ مانئے گا، بد گمانی بھی ہماری اور آپ کی ایک برائی ہے۔ اہل خیر و اہل اصلاح و تقویٰ کے بارے ایسے گمان رکھنا جو بے اصل ہوں، تہمت اور افترا کے ضمن میں آتے ہیں۔ بدگمانی کو سب سے بڑا جھوٹ کہہ کر اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More