اُنیسسو ستر تک بھی ملائیشیا کا حال یہی تھا کہ پورے ملک میں اتنی یونیورسٹیاں تھیں جنہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا۔ ملک کے جو نوجوان استطاعت رکھتے تھے وہ انٹر (STPM) کرنے کے بعد انجینئرنگ، میڈیکل یا کسی دوسری فیلڈ کیلئے مختلف ملکوں کا رخ کرتے تھے۔ وہ حصول تعلیم کیلئے زیادہ تر جنوبی انڈیا کے کالجوں میں داخلہ لیتے تھے، جہاں کا موسم ملائیشیا کے موسم سے مطابقت رکھتا ہے۔ کچھ طلباء آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی جاتے تھے، یہ ملک ان کیلئے انگلینڈ سے قریب اور خاصے سستے تھے۔ حصول علم کیلئے کچھ لوگ کراچی بھی آتے تھے، خاص طور پر مرچنٹ نیوی کیلئے۔ ملائیشیا مرچنٹ نیوی کے اوائلی افسران پاکستان میرین اکیڈمی کے گریجویٹ ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے ڈائو میڈیکل کالج اور این ای ڈی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ ایسی ہی ایک ملئی طالبہ ڈاکٹر زرینہ بنت شیخ محمد دائود کا احوال آئندہ کے صفحات پر بیان کروں گا، جس نے DOW سے MBBS کیا اور سکھر سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک کلاس میٹ ڈاکٹر افتخار عباسی کے ساتھ شادی کی۔
اسّی کی دہائی میں بھی میرے ملئی لیکچرر دوست ابراہیم معروف اپنی بیٹیوں ایمی مرئین اور جنیتہ کو میرے ساتھ پاکستان بھیجنے کا ارادہ رکھتے تھے، تاکہ وہ میری بیٹیوں کے ساتھ ڈائو میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کر سکیں۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ مجھے اپنی تین سالہ مدت مکمل کر کے پاکستان لوٹنے کے بجائے مزید ملائیشیا میں ٹھہرنا پڑا۔ ملائیشیا اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان نئے سمجھوتے کے تحت میں مزید دس برس تک ملائیشیا میں تدریس کے فرائض انجام دیتا رہا۔ میرے بچوں کو بھی ملائیشیا ہی میں تعلیم حاصل کرنا پڑی۔ حقیقت یہ ہے کہ 1991ء تک ملاکا میں رہنے اور پھر وہاں سے رخصت ہونے کے وقت تک پوری ریاست میں کوئی انٹرنیشنل اسکول نہیں تھا۔ وہاں کے چیف منسٹر نے ہم غیر ملکی اساتذہ کیلئے لولا لنگڑا انتظام کر لیا تھا۔
آج دنیا ہی بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔ ملاکا میں قائم ہونے والے اعلیٰ معیار کے انٹرنیشنل اسکولوں میں نہ صرف ملاکا میں رہائش پذیر فارنرز کے بچے پڑھتے ہیں، بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں کے لوگ بھی اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے ملایا ریاست یا ملائیشیا کے دوسرے شہروں میں بھیجتے ہیں کیونکہ ایسے معیاری اسکول ملائیشیا کے ہر بڑے شہر میں کھل گئے ہیں۔
مختلف فیکلٹیز کے کالج اور یونیورسٹیاں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ ان کا تعلیمی معیار اور ڈسپلن اس قدر سخت اور بلند ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں کے طلباء اعلیٰ تعلیم کیلئے یہاں آتے ہیں۔ یہاں کی حکومت بھی ہر قسم کی تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس سلسلے میں 2008ء میں ملاکا میں Complementary Medicine کالج قائم کیا گیا، جس سے ہمارے دوست اور میزبان ڈاکٹر عطا محمد تالپور وابستہ ہیں۔ ہم پہلے ہی دن ڈچ دور کی سرخ عمارتیں دیکھنے کے لئے گئے تھے تو وہیں جالان کوبو روڈ پر واقع ’’ملاکا کالج آف کامپلیمنٹری میڈیسن‘‘ بھی گئے۔ اسی سڑک کی دوسری جانب جونکر اسٹریٹ کا آغاز ہوتا ہے جہاں تامل میتھادسٹ چرچ ہے۔ اس گرجا گھر کی نہ صرف عمارت خوبصورت ہے بلکہ اسے یونیسکو کی جانب سے World Heritage Site بھی قرار دیا گیا ہے۔
اس کلیسا گھر کو 1908ء میں Kubu Methodist Church کے نام سے تعمیر کیا گیا جس میں عبادت کے لئے تامل اور چینی آتے تھے۔ اس کے بعد جالان تینگکوا پر 1954ء میں جیسے ہی چینیوں کا نیا چرچ تعمیر ہوا تو اس کا نام تامل چرچ رکھا گیا۔ اب اس میں انگریزی اور تامل زبانوں میں سروس ہوتی ہے۔
ملاکا کے MCCM میڈیکل کالج کے متعلق بتاتے ہوئے ڈاکٹر عطا نے آگاہ کیا کہ یہ ملائیشیا کا اپنی نوعیت کا واحد کالج ہے، جہاں ایلوپیتھی کے ساتھ قدرتی دوائوں کے متعلق بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ کالج ملائیشیا کی وزارت تعلیم اور MQA ’’ملائیشینک والی فکیشن ایجنسی‘‘ کی جانب سے منظور شدہ ہے۔ اس کالج کا اپنا ایک Organic فارم اور نیچرو پیتھی سینٹر بھی ہے۔ یہ کالج اس خیال کے تحت قائم کیا گیا کہ ملائیشیا کے 70 فیصد لوگ آج بھی روایتی اور دیسی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عطا نے یہ بھی بتایا کہ اس کالج میں فی الحال سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کورس شروع کئے گئے ہیں جس کے سلیبس اور کورس کی تیاری میں اس کا بڑا اور اہم کردار ہے۔ ڈپلوما کورس کے لئے ہر طالب علم کے لئے چھ سیمسٹر (تین سالہ) اور مزید چھ ماہ کی کلینیکل ٹریننگ لازمی ہے۔
مختلف سیمسٹرز کے مختلف موضوعات اس طرح ہیں :
پہلا سیمسٹر:
اناٹومی۔ بایوکیمسٹری، نیوٹریشن اور ہربس، فزیالوجی اور ملئی زبان۔
دوسرا سیمسٹر:
اینوٹومی، پیتھالوجی، مائکرو بیالوجی وغیرہ۔
تیسرا سیمسٹر:
نیچرو پیتھی، یوگا سائنس، کمیونٹی میڈیسن وغیرہ۔
چوتھا سیمسٹر:
میڈیکل ایتھکس، فورنسک میڈیسن، اسلام، قدرتی علاج کا فلسفہ۔
پانچواں سیمسٹر:
ہائیڈرو تھراپی، روزے کے فوائد، گائناکالوجی، بزنس اور قانون وغیرہ۔
چھٹا سیمسٹر:
Manipulative تھیوری، انڈسٹریل ٹریننگ وغیرہ۔
میں نے ڈاکٹر عطا سے کہا کہ وہ جس کالج میں ملازمت کرتے ہیں وہ بہترین لوکیشن پر واقع ہے۔ چاروں طرف تامل چرچ جیسی تاریخی عمارتیں، سامنے ملاکا کی مشہور ’’جونکر اسٹریٹ‘‘ اس سے کچھ آگے پرتگالیوں کی عمارتیں… یہ وہ علاقہ ہے جسے دنیا بھر کے سیاح دیکھنے کی حسرت رکھتے ہیں۔ ملاکا میں رہائش کے دوران اکثر میں اس سڑک ’’جالان کوبو‘‘ سے ہو کر ’’جالان تنگکرا‘‘ پر آتا تھا اور وہاں واقع قدیم مسجد ’’تنگکرا‘‘ کے قریب سے گزر کر اپنے رہائشی علاقے مسجد تاناح کی طرف جاتا تھا۔ میں فرصت کی گھڑیاں اسی جونکر اسٹریٹ پر گزارتا تھا، جس کی رونقیں آج بھی برقرار ہیں۔ یہاں کی اکثر دکانیں چینیوں کی ہیں۔ اس لئے یہ علاقہ چائنا ٹائون کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یہاں عام طور پر نوادرات اور ماضی بعید کی نایاب چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔ اس جونکر اسٹریٹ پر مشرق بعید کے لوگوں اور یورپ کے سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔
چینیوں کے عقیدے کے مطابق وہ اپنے عزیز و اقارب کی تدفین کے وقت کاغذ سے بنے جہاز، کاریں، گھر حتیٰ کہ نوکر چاکر نذر آتش کرتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق اس طرح یہ تمام چیزیں اگلے جہان میں آنجہانی کو مل جاتی ہیں۔ اس سڑک پر ایسی کئی دکانیں نظر آتی ہیں جہاں چینی کاریگر آرڈر کے مطابق رنگین کاغذوں سے مختلف چیزیں تیار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ یہاں میں نے کسی چینی سیٹھ کے آرڈر پر بیس فٹ طویل ہوائی جہاز تیار ہوتے ہوئے دیکھا تھا جس میں نہ صرف اس کے بیٹھنے کے لئے آرام دہ سیٹ بلکہ آرام کرنے کے لئے کاغذی بستر، نوکر چاکر، ایئر ہوسٹس اور پائلٹ بنائے جا رہے تھے۔ اس ذکر پر یاد آیا کہ میرے انگریز کلیگ کیپٹن کیرو نے بتایا تھا کہ ہانگ کانگ میں چینی لوگ تابوت بھی مختلف اشکال کے بنواتے ہیں۔
’’ہانگ کانگ میں ماہر امراض قلب کے ایک ڈاکٹر کا انتقال ہوا تو اسے خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک دل کی شکل کا تابوت تیار کیا گیا اور ڈاکٹر کی لاش اس میں رکھی گئی۔‘‘ کیپٹن کیرو نے بتایا۔ ’’یہ دیکھ کر میرا ایک ہم وطن سرجن دوست ملازمت چھوڑ کر واپس اپنے ملک چلا گیا تھا۔ حالانکہ وہ اس سے پہلے ہانگ کانگ میں جینے مرنے کی باتیں کرتا تھا۔‘‘
’’وہ ہانگ کانگ سے کیوں چلا گیا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
کیپٹن کیرو نے ہنستے ہوئے بتایا۔ ’’اس لئے کہ وہ گائناکالوجسٹ تھا۔‘‘
شام ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر عطا کا کالج بند ہو چکا تھا، لیکن چند طالب علم لائبریری میں موجود تھے۔ ڈاکٹر عطا مجھے اپنے آفس میں لے گئے اور چائے کا آرڈر دیا۔ ہم نے منہ ہاتھ دھو کر چائے پی اور فریش ہو کر جونکر اسٹریٹ اور کوبو روڈ کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے۔ سڑک کے بیچوں بیچ ایک اسٹیج بنا ہوا تھا جو رنگین بلبوں اور پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عطا نے بتایا کہ یہاں غروب آفتاب کے بعد موسیقی کا پروگرام ہوتا ہے اور کئی نئے گلوکار اور مزاحیہ فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کبھی کبھی نامور فنکار اور کرتب دکھانے والے بھی آتے ہیں۔
’’سنیچر اور آج کے دن جوہر بارو سے ماسٹر ہو بھی آتا ہے جو تیس سیکنڈ میں اپنی انگلی کی مدد سے چار ناریلوں میں سوراخ کرتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر عطا نے بتایا۔
’’واقعی؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ ’’میں نے بھی اخبار میں پڑھا تھا کہ اس کرتب کے سبب اس کا نام گینز بک میں آ چکا ہے۔‘‘
’’انکل! اس سے اکثر ہماری ملاقات ہوتی رہتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر عطا کے بیٹے میر غلام محمد نے بتایا۔
ہم کافی دیر تک جونکر اسٹریٹ پر ٹہلتے رہے۔ جب ہم وہاں سے روانہ ہونے لگے تو غلام محمد نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے خوشی سے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔
’’انکل! ماسٹر ہو آ گیا ہے۔‘‘
وہ چرچ کے قریب ایک دکان کے چبوترے پر بیٹھا تھا۔ اس کی نظر ڈاکٹر عطا پر پڑی تو اٹھ کر آگے بڑھا اور پرجوش انداز سے ملا۔ ڈاکٹر عطا نے ہمارا تعارف کرایا۔ اس کا پورا نام ’’ہو سوی پوہ‘‘ ہے اور عام طور پر ’’ماسٹر ہو‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کی عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی۔ ناریل ایک انتہائی سخت پھل ہے۔ وہ خربوزے یا تربوز جیسا نہیں، جس میں کوئی انگلی سے سوراخ کر سکے۔
’’آپ یہ کام کسی جادو کے زور سے کرتے ہیں یا یہ نظر بندی (illusion) ہے؟‘‘ میں نے مسٹر ہو سے پوچھا۔
پہلے تو وہ میری بات پر ہنسا پھر بولا ’’ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں نے چینی مارشل آرٹ کے ذریعے اپنی انگلی میں اس قدر قوت پیدا کر لی ہے کہ اب وہ ناریل جیسی انتہائی سخت چیز میں بھی آسانی سے داخل ہو سکتی ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ وہ نہ صرف انگلی سے ناریل میں سوراخ کر سکتا ہے بلکہ کچھ دوسرے کرتب بھی دکھا سکتا ہے۔ مثلاً جلتی ہوئی اسٹک کو منہ میں ڈال کر بجھانا۔ اس کے علاوہ نشانے بازی کا شو بھی کرتا ہے۔ یعنی ایک چوبی تختے کے سامنے کسی شخص کو کھڑا کر کے اس پر خنجر پھینکتا ہے جو تختے میں اس طرح پیوست ہوتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھڑے ہوئے شخص کو خراش تک نہیں آتی۔
ماسٹر ہونے اپنے کرتب دیکھنے کی دعوت دی۔ لیکن اس کے شو میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا، اس لئے ہم نے انتظار کرنے کے بجائے اس سے اجازت چاہی۔ وہاں سے روانہ ہو کر ہم بندر ہیلیر کے علاقے میں جالان PM3 پر واقع ماہ کوٹا پلازہ میں آ گئے، جہاں ڈاکٹر عطا کے ذاتی بزنس ’’سندھ ہیلتھ کیئر‘‘ کا آفس ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post