نصرت مرزا
کیوبک کینیڈا کی مسجد میں جنوری 2017ء کے حملے میں 6 مسلمان شہید ہوئے تھے، اس کے علاوہ کئی حملے جرمنی اور برطانیہ میں بھی ہوئے، جبکہ بھارت میں ایسے حملے ہونا روزمرہ کا معمول ہے۔ احمد آباد کی مسجد اور درگاہ کو زمین بوس کر دیا گیا تھا اور بابری مسجد کو بھی بی جے پی حکومت کے دور میں شہید کیا گیا، جس کا مقدمہ تاحال چل رہا ہے۔ بھارت کے مسلمان اس پر مقدمہ لڑ رہے ہیں اور وہاں کی سپریم کورٹ پنجائیت کے انداز میں کوئی مفاہمتی فارمولا تلاش کر رہی ہے۔
مگر نیوزی لینڈ کا کرائسٹ چرچ کا حملہ اپنی نوعیت کا بدترین حملہ ہے، جس میں 50 نمازی شہید ہوئے، جن میں 6 پاکستانی ہیں اور 20 دیگر ممالک کے مسلمان شہریوں کی حالت نازک ہے۔ دہشت گرد 28 سالہ آسٹریلوی باشندہ برینٹن ٹیرینٹ ایک مذہبی جنونی اور انتہائی درندہ صفت بتایا گیا ہے، وہ نہتے نمازیوں پر گولیاں برساتا رہا اور دو مسجدوں النور اور لین روڈ مسجد میں اپنی بزدلانہ سفاکی کا مظاہرہ کرتا رہا۔ النور مسجد میں 41 اور لین ووڈ مسجد میں 8 نمازیوں کو شہید کرکے جب اُس کے ہاتھوں سے بندوق چھین لی گئی تو جان کے خوف سے فرار ہو گیا، راہ گیر برقع پوش خاتون کو گولی مار کر بہادری کا بلا اپنے سینہ پر سجا لیا۔ نہ صرف یہ بلکہ سوشل میڈیا سے اپنی سفاکانہ کارروائی کو 15 منٹ تک دکھاتا رہا تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نیوزی لینڈ کی پولیس پندرہ منٹ تک کیا کرتی رہی؟ پھر اُس کی انٹیلی جنس اتنی کمزور تھی کہ اُسے یہ تک معلوم نہ ہو سکا کہ کوئی مذہبی جنونی اس کے ملک میں موجود ہے، کیونکہ اُس کا فیس بک اکائونٹ نفرت زدہ تحریروں سے بھرا ہوا ہے۔
وہ ایک مسجد سے دوسری مسجد اور دوسری سے تیسری کھلی جگہ جا پہنچتا ہے اور اُس کی حرکات و سکنات، اُس کی گاڑی، پھر مسجد سے نکل کر ایک خاتون کو مارنا، وہ سب کچھ فیس بک پر دُنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہے، مگر نیوزی لینڈ کی پولیس حرکت میں نہ آئی۔ شاید اُن کی ایسی امید نہ تھی اور وہ اس قسم کے حملے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے اور کوئی باشندہ مزاحمت بھی نہیں کر سکا، کسی کے دل میں رحم نہ آیا۔ گولیوں کی ترتراہٹ سے بھی کسی کے کان کھڑے نہ ہوئے۔
ایک سے دوسری مسجد اور تیسرا کھلے میدان پر پہنچے اور وارداتیں کرنے میں آدھ گھنٹہ ضرور لگا ہوگا، مگر وہاں کی ریاستی مشینری حرکت میں نہ آئی، البتہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے اس واقعہ کو دہشت گردی ضرور قرار دیا، جبکہ بی بی سی اور مغربی میڈیا اسے ہنگامہ قرار دیتا رہا۔ اس سفاح دہشت گرد کی زبان سے انتقام اور مسلمانوں کے خلاف الفاظ ادا ہوتے رہے۔ وہ صلیبی جنگوں کی باتیں کرتا رہا، اب برطانوی وزیر اعظم نے اسے دہشت گردی قرار دے دیا ہے، مگر برطانیہ میں بھی مسلمانوں پر حملے شروع ہوگئے ہیں۔
یہاں برسبیل تذکرہ یہ بات کہنا ضروری ہے کہ عمران خان کو بہادر شاہ ظفر اور ٹیپو سلطان کی مثالیں نہیں دینی چاہئے تھیں، شاید وہ اُن کے علم کے مطابق درست ہوں، اصل میں اُن کو صلاح الدین ایوبی کی مثال دینی چاہئے تھی، کیونکہ وہ فاتح رہے۔ بھارت کے معاملے میں ایک شہید اور دوسرا مغلوب ہوا۔
پاکستانی اس وقت شہادت کے بعد کامیابی کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں تو وہ کیس تو صلاح الدین ایوبی کا ہے، جنہوں نے اسلام دشمن طاقتیں جب اکٹھا ہوگئیں اور صلاح الدین ایوبی سے یہ کہا گیا کہ اب یہ جنگ بڑی ہوگئی ہے، اس سے کنارہ کشی اختیار کر لو تو انہوں نے کہا کہ نہیں، اچھا ہوا کہ سب دشمن یکجا ہوگئے ہیں اور مجھے اُن سے لڑنے میں آسانی ہوگی۔ انہوں نے جنگ لڑی اور جیتی۔
بہرحال نیوزی لینڈ کا مسلمان عبادت گزاروں پر حملہ انتہائی شرم ناک اور انسانیت سوز ہے اور حیوانگی و درندگی کی بدترین مثال ہے، مگر یہ آگ مغرب نے ایک خاص مقاصد کے لئے لگائی تھی اور اس پر ایک سے زیادہ منصوبہ جات، تصور اور نظریئے دیئے ہیں، جیسے ہنٹنگٹن کا تہذیبی تصادم کا نظریہ، صلیبی جنگ کا تصور، نیٹو قائم رکھنے کا عزم کہ ابھی مسلمان باقی ہیں، انتہا پسندی کا لفظ مسلمان کے ساتھ لگا کر اپنے لئے وقتی گنجائش پیدا کی۔ ورنہ تو مطلب مسلمان ہی تھے، مگر میں اِس کو اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو مجھے یہ لگتا ہے کہ عالمی امراء نے جن میں زیادہ تر صہیونی ہیں، عالمی جنگ یا محدود عالمی جنگ کا جو منصوبہ بنایا تھا، اس میں چار مرحلے رکھے تھے۔
ایک برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدہ ہونا، دوسرے مغربی یا عیسائی دُنیا سے تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر بے دخلی، تیسرے عالمی کساد بازاری اور چوتھے عالمی جنگ۔ سوال یہ ہے کہ عالمی امراء عالمی جنگ کیوں چاہتے ہیں؟ اُن کے خیال میں 1945ء کا عالمی نظام گل سڑ گیا ہے اور امریکہ کو کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں روس اور چین سے زیادہ خطرات پیدا ہوگئے، چین معاشی طاقت بن گیا ہے اور روس اور چین مل جائیں تو امریکہ کی ملٹری طاقت کا مقابلہ بھی آسانی سے کر سکتے ہیں، اس لئے وہ ایک نیا نظام وضع کرنا چاہتے ہیں، جو ایک بڑی جنگ کے بغیر ممکن نہیں ہے، اسی لئے وہ روس اور چین میں بھی دوری پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور کچھ تضادات، عزائم اور مفادات بھی دونوں ممالک کے ٹکراتے ہیں۔
امریکہ کو یورپی یونین سے بھی خطرہ لاحق ہے کہ وہ بھی امریکہ کے مد مقابل کھڑی ہو سکتی ہے۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو سکتی ہے کہ یورپ امریکہ کے سخت دبائو میں رہتا ہے، اتنا پاکستان بھی امریکہ کا دبائو برداشت نہیں کرتا، جتنا یورپ کے ممالک امریکہ کے دبائو کا شکار ہیں، اسی وجہ سے یورپ اور خصوصاً فرانس و جرمنی کی یہ خواہش ہے کہ وہ امریکی دبائو سے نکلیں۔ فرانس اور جرمنی صدیوں تک دشمن رہے ہیں، مگر امریکی دبائو کی وجہ سے انہوں نے اپنی دشمنی کو دوستی میں تبدیل کیا۔ اسی وجہ سے امریکہ پریشان ہے۔
یورپی یونین کو کمزور کرنے کے لئے امریکہ نے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالا، تاکہ یورپی یونین کسی جنگ کے بعد طاقت کا محور بن کر دُنیا کے افق پر نہ ابھرے۔ اس کے بعد امریکہ اِس جنگ کو پھیلانے کے لئے اور یورپی یونین میں مزید انتشار پیدا کرنے کے لئے تارکین وطن کو اپنے اپنے ملک واپس بھیجنے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے۔ مجھے نیوزی لینڈ میں مسلمانوں پر یہ حملہ پھر برطانیہ میں اِس کی ریہرسل سے یہ سلسلہ پھیلتا نظر آتا ہے۔ اسی منصوبے کی کڑی نظر آتا ہے اور یہ قاتل و دہشت گرد تارکین وطن کے خلاف باتیں کرتا رہتا تھا۔
اس کے بعد بڑی کساد بازاری کرائی جائے گی اور پھر جنگ کا عمل شروع ہوگا۔ دُنیا کے کئی حصوں میں جنگ کے بادل گھر کر آ چکے ہیں، جیسے جنوبی ایشیا میں جنگ کے بادل کافی گھنے ہوگئے ہیں، اس کے علاوہ جنوبی بحر چین کا خطہ جنگ کا ایک بڑا امکانی میدان ہے، تیسرے شام کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے، امریکہ شام سے عراق میں جا بیٹھا ہے اور وہاں سے اپنی شیطانی کارروائی جاری رکھے گا، جو عراق، سعودی عرب، شام، افغانستان اور دوسرے ممالک کو خطرے میں ڈالے رکھے گا اور جنگ کے امکانات کو بڑھاتا رہے گا۔
چوتھے یوکرائن کا معاملہ فی الحال ٹھنڈا پڑا ہے، مگر کوئی بھی واقعہ اِس محاذ کو بھی گرم کر سکتا ہے۔ پانچواں محاذ قطب شمالی ہے، جہاں بہت معدنیات و انرجی کے وسائل ہیں۔ وہاں روس، چین، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کی آبدوزیں موجود ہیں اور وہ قریبی ممالک کے فوجی عملے کو نظر بھی آتی ہیں، مگر وہ کچھ کر نہیں سکتے، کیونکہ یہ آبدوزیں ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں اور کسی بھی کارروائی کے لئے تیار رہتی ہیں۔ سو یہ جنگ کے سامان کئے ہوئے ہیں، ابتدا کہاں سے ہوگی یہ طے کرنا باقی ہے، ممکن ہے پالیسی سازوں نے یہ بھی طے کرلیا ہو، جس سے ہم واقف نہیں ہیں۔
اس وقت جنگ کے چار مرحلوں میں سے دوسرے مرحلے کو نیوزی لینڈ کا قتل عام کرکے مہمیز دی گئی ہے۔ برطانیہ میں واقعہ اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے اور یہ سلسلہ بڑھتا نظر آتا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post