تثلیث سے توحید تک

0

ان ساری ذہنی مشکلات کے باوجود کیتھولک چرچ میں اطمینان کے کچھ سامان بھی تھے اور میں بعض اوقات اس ماحول میں خاصی خوشی بھی محسوس کرتی تھی، تاہم پورے ایک برس تک میری حالت خاصی گومگو کی سی رہی۔ میری ملاقات پر وٹسٹنٹ عقائد کے کچھ لوگوں سے ہوئی، جن کی مذہب کے بارے میں گرمجوشی اور خلوص کیتھولک لوگوں سے کم نہ تھا۔
انہوں نے مجھے ایسا راستہ بتایا جو کیتھولک عقائد کا ہو بہو متبادل بھی تھا اور بائبل کی تعلیمات پر مبنی تھا اور جس میں چرچ آف انگلینڈ کا ساابہام بھی نہیں تھا، وہ صرف یسوع کو نجات دہندہ سمجھتے تھے، اگرچہ میں ان کے عقیدے کی سادگی سے بہت متاثر ہوئی، مگر میں اس امر سے اتفاق نہ کرسکی کہ محض عقیدہ ہی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بہرحال کئی طرح کے شکوک و شبہات کے باوجود میں رومن کیتھولک عقیدے پر پھر بھی قائم رہی۔
میں اس وقت اسلام کے بارے میں کچھ نہ جاتنی تھی۔ اخبارات کے مضامین سے صرف اتنی خبر ضرور تھی کہ اسلام غلامی کا قائل ہے اور اب تک عرب ملکوں میں یہ مکر وہ کاروبار جاری ہے۔ تعدد ازدواج کی صورت میں عورت پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ حیوانات کو بے دریغ کاٹ کر کھایا جاتا ہے اور منشیات کی تجارت پر کوئی پابندی نہیں۔ اسکول کے زمانے میں صلیبی جنگوں کے بارے میں بھی پڑھا تھا، جن میں مسلمانوں کو پر لے درجے کے سفاک اور بے رحم بتایا گیا تھا۔
ان سارے تعصبات کے باوجود میں نے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عقائد کے درمیان قلب و ذہن کی کھینچا تانی نے میرے اعصاب کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا اور میں بیمار رہنے لگی تھی۔ حل صرف ایک ہی تھا کہ میں جلد از جلد صداقت کو پالوں اور یکسوئی حاصل کروں۔ اس کے لئے میں نے قرآن کریم کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے خدا تعالیٰ سے صراط مستقیم کی دعا کی۔ پھر فرض کرلیا کہ میں دور کے کسی سیارے کی مخلوق ہوں۔ عیسائیت کے بارے میں کچھ جانتی ہوں نہ اسلام کے بارے میں۔ ذہن میں جتنے تعصبات تھے، وہ جھٹک دیئے اور راہ حق کو پانے کے لئے قرآن کریم کے مطالعے میں محو ہو گئی۔
میں نے قرآن کریم کی صورت میں بلاشبہ ایک متبادل تو پالیا، مگر ذہن مختلف سوالوں سے بھر گیا۔ کیا واقعی یہ خدا کی طرف سے وحی ہے یا محمدؐ نے کسی ذریعے سے بائبل کی تاریخی کہانیوں کو سنا اور خدا کے حوالے سے اپنے الفاظ میں بیان کر دیا؟ خدا مجھے معاف کرے، حضور اکرمؐ کے بارے میں طرح طرح کے وساوس اور خیالات دل میں پیدا ہونے لگے کہ کیا وہ واقعی خدا کے پیغمبر ہیں؟ اگر ہیں تو کیا دلیل ہے؟
ان بے ہودہ سوالات کے جواب کے لئے میں نے حضرت محمدؐ کی زندگی اور کردار کے بارے میں جاننے کی ضرورت محسوس کی۔ اس کے لئے میں نے مسلم اور غیر مسلم مصنفین کی کتابیں حاصل کیں۔ پتہ چلا کہ انہوں نے کسی انسانی ذریعے سے یہودی اور عیسائی تاریخ کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ پڑھنا لکھنا جانتے ہی نہ تھے، اس لئے انہوں نے براہ راست بائبل کا مطالعہ بھی نہیں کیا تھا۔ اب اگر فرض کیا جائے کہ انہوں نے قرآن کی ساری معلومات یہودی اور عیسائی علماء سے معلوم کی تھیں تو نہ ناممکن ہے کہ زبانی گفتگو کو اتنی شرح و بسط سے یاد رکھا جائے اور پھر انہیں کتابی صورت میں مرتب بھی کر لیا جائے۔ فرض کیا اگر یہ صورت ممکن بھی ہوتی تو یہ کھیل دوسرے لوگوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا تھا اور پھر خود یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے قرآن کی مخالفت بالکل بے تکی حرکت تھی، دراصل کچھ لوگوں نے اس طرح کے الزمات عائد کرنے کی کوشش بھی کی، مگر کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے یہ الزامات دم توڑ بیٹھے۔
بہر حال مکمل اطمینان ہونے پر میں نے اسلام قبول کر لیا اور اس پر خدا کا شکر ادا کرتی ہوںکہ مجھے دین فطرت کی دولت نصیب ہوگئی۔ میری بے چین روح کو آخرکار قرار آہی گیااور مجھے عیسائیت کے مختلف فرقوں کی بھول بھلیوں سے میرے رب نے نجات دے دی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More