خطائے پدر!

0

ایک حاکم نے تیل فروخت کرنے والے ایک لڑکے سے دریافت کیا کہ ایک ’’من‘‘ تلوں سے کتنا تیل نکلتا ہے؟ اس نے جواب دیا: دس سیر، پھر پوچھا: دس سیر تلوں میں؟ اس نے جواب دیا: ڈھائی سیر، حاکم نے پھر پوچھا: ڈھائی سیر تلوں میں؟ اس نے جواب دیا: ڈھائی پاؤ۔
بہت سے سوالوں کے بعد آخر میں اس سے کہا کہ دین کے بارے میں بھی کچھ واقفیت ہے؟ وہ بولا: میں دین کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہوں، حاکم ناراض ہوا اور حکم دے دیا کہ اس کو قید خانے میں بند کردو۔
اس نے قید خانے میں جانے سے پہلے حاکم سے کہا کہ میرے ابا جان کو بھی قید خانے میں بند کردو، کیونکہ اس نے دنیاوی کاروبار تو مجھے سکھا دیا، لیکن دین سے مجھے بے خبر رکھا، چنانچہ دونوں کو قید خانے میں بند کردیا گیا۔
آخرت کا صلہ!
جنگ حنین میں حضرت ابو سفیانؓ بھی شامل تھے، لڑائی کے دوران آپؓ کی آنکھ کا ڈیلا نکل گیا۔ یہ حضور اکرمؐ کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا: خدا کے رسولؐ! دشمن کے وار نے میری یہ حالت کر دی۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہاری یہ آنکھ درست کردوں اور تمہاری تکلیف بھی ختم ہو جائے گی اور اگر تم آخرت کی جزا چاہتے ہو تو ذرا صبر کر لو، رب تعالیٰ آخرت میں تمہیں اس کا بہترین بدلہ دیں گے۔ حضرت ابوسفیانؓ نے ڈیلا پھینکا اور عرض کیا:
خدا کے رسولؐ! مجھے اس آنکھ کی روشی سے کہیں زیادہ آخرت کا صلہ عزیز ہے۔ (مخزن اخلاق)
بیماری کا انوکھا علاج!
حضرت ابن مبارکؒ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کی کہ حضرت! سات سال سے میرے جسم پر ایک پھوڑا نکلا ہوا ہے، ہر طرح کا علاج کر چکا ہوں، لیکن یہ درست نہیں ہو سکا۔
آپؒ نے فرمایا: جاؤ ایسی جگہ کنواں کھودو، جہاں پانی کی ضرورت ہو، وہاں پانی جاری ہوگا اور خدا تعالیٰ نے چاہا تو آپ کا یہ پھوڑا ختم ہو جائے گا۔ اس شخص نے اس طرح ہی کیا اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ وہ تندرست ہوگیا۔
یہ واقعہ علامہ منذریؒ نے امام بیہقیؒ کے حوالے سے نقل کیا، پھر منذریؒ فرماتے ہیں کہ اس طرح ایک واقعہ ہمارے علاقے میں بھی ہوا۔
خلیفہ کا تواضع
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو ان کے عادل ہونے کی وجہ سے ’’عمر ثانی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک شب کو حضرت رجاء بن حیوہؒ ان کے مہمان بنے۔ دوران گفتگو چراغ کی لو جھلملانے لگی، پاس ہی آپؓ کا خادم سویا ہوا تھا، رجاء بن حیوہؒ نے فرمایا کہ کیا خادم کو اٹھا دوں، عمر بن عبد العزیزؓ نے فرمایا:
ان کو آرام کرنے دو، رجائؒ نے دوبارہ کہا کہ میں چراغ کو درست کر دیتا ہوں، فرمایا مہمان سے کام لینا مروت کے خلاف ہے، پھر خود اٹھے اور برتن سے زیتون کا تیل لیا اور چراغ ٹھیک کرکے پھر فرمایا: میں جب اٹھا تھا، تب بھی عمر بن عبد العزیز تھا اور اب بھی عمر بن عبد العزیز ہوں۔
رب تعالیٰ میزبان بنے!
ایک اعرابی ملتزم کے پاس کھڑا یوں دعا کر رہا تھا: یا الٰہی! آپ کے جو حقوق مجھ پر ہیں وہ مجھے بخش دیجئے اور لوگوں کی جو ادائیگیاں مجھ پر لازم ہیں، انہیں اپنے ذمہ لے لیجئے، آپ ہر مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور میں بھی مہمان ہوں، لہٰذا آج کی رات جنت میں میری مہمان نوازی کیجئے۔ (عیون الاخبار 285 ج 2)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More