خلاصۂ تفسیر
(اوپر جو بیان ہوا، وہ بنی نضیر کی جانوں کے ساتھ معاملہ تھا) اور (ان کے اموال کے ساتھ جو معاملہ ہوا، اس کا بیان یہ ہے کہ) جو کچھ خدا نے اپنے رسول کو ان سے دلوا دیا، سو (اس میں تم کو کوئی مشقت نہیں پڑی، چنانچہ) تم نے اس پر (یعنی اس کے حاصل کرنے پر) نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ (مطلب یہ کہ نہ سفر کی مشقت ہوئی، کیونکہ مدینہ سے دو میل پر ہے اور نہ قتال کی اور برائے نام جو مقابلہ کیا گیا، وہ غیرمعتدبہ تھا، کذا فی الروح۔ اس لئے اس مال میں تمہارا استحقاق تقسیم و تملیک کا نہیں، جس طرح مال غنیمت میں ہوتا ہے) لیکن خداتعالیٰ (کی عادت ہے کہ) اپنے رسولوں کو (اپنے دشمنوں میں سے) جس پر چاہے(خاص طور پر) مسلط فرما دیتا ہے (یعنی محض رعب سے مغلوب کردیتا ہے، جس میں کسی کو کچھ مشقت اٹھانی نہیں پڑتی۔ چنانچہ ان رسولوں میں سے حق تعالیٰ نے رسول عربیؐ کو اموال بنی نضیر پر اسی طرح مسلط فرما دیا، اس لئے اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے، بلکہ اس میں مالکانہ تصرف کرنے کا مکمل اختیار آپؐ کو ہی ہے) اور خدا تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے (پس وہ جس طرح چاہے دشمنوں کو مغلوب کرے اور جس طرح چاہے اپنے رسولوں کو اختیار اور تصرف دے اور جیسا اموال بنی نضیر کا یہ حکم ہے، اسی طرح جو کچھ خدا تعالیٰ (اسی طور پر) اپنے رسول کو دوسری بستیوںکے(کافر) لوگوں سے دلوادے (جیسا باغ فک اور ایک جزو خیبر کا اسی طرح ہاتھ آیا) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post