تابعینؒ کے ایمان افروز واقعات

0

حضرت محمد بن واسع ازدیؒ کا تعلق بنوامیہ کے امراء میں سے صرف حضرت یزید بن مہلب اور حضرت قتیبہ بن مسلم باہلیؒ کے ساتھ ہی نہیں رہا، بلکہ ان کے علاوہ بھی کئی ایک گورنروں اور سربراہوں کے ساتھ ان کے تعلقات رہے، ان میں سے زیادہ نمایاں اور قابل رشک تعلقات بصرہ کے گورنر بلال بن ابی بردہ کے ساتھ رہے۔
ایک دن محمد بن واسع ازدیؒ اون کی موٹی کھردری اور پھٹی پرانی قمیض پہنے گورنر کے پاس آئے۔ گورنر بلال نے پوچھا:
’’حضرت! ایسی پھٹی پرانی قمیض پہننے کی آپ کو کیا ضرورت ہے؟۔ کیا کوئی ایسی مجبوری ہے؟‘‘
انہوں نے گورنر کی بات سنی ان سنی کردی اور اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے دوبارہ کہا کہ حضرت کیا بات ہے آپ مجھے جواب کیوں نہیں دیتے؟
فرمایا: ’’یہ بات بھی پسند نہیں کہ اپنے آپ کو زاہد (دنیا کا چھوڑنے والا) بتاؤں کہ میں نے جان بوجھ کر یہ پہنا۔ اسی طرح مجھے یہ بھی اچھا نہیں لگتا کہ اپنے رب کی ناشکری کر کے اپنے رب کی شکایت کروں (کہ اس نے مجھے اتنا اچھا لباس نہیں دیا کہ میں پہن سکوں، یہ ناشکری بیان کرنے کا انداز مجھے پسند نہیں)۔‘‘
یہ دونوں انداز مجھے پسند نہیں، اس لیے خاموشی اختیار کی اور فرمایا: میری ایسی کوئی ضرورت نہیں، جس کا سوال میں لوگوں سے کروں۔ ہاں اپنے مسلمان بھائی کی ایک ضرورت آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
’’اگر آپ اسے خدا کی توفیق سے پورا کردیں تو قابل تعریف ہوں گے اور اگر پورا نہ کر سکیں تو پھر بھی آپ سے کوئی شکوہ شکایت نہیں، بلکہ آپ کو مجبور سمجھا جائے گا۔‘‘
گورنر بلال نے کہا: ہم اسے ضرور پورا کریں گے۔ ارشاد فرمائیے اسے کیا ضرورت ہے؟
آپ نے وہ ضرورت بتادی جسے اسی وقت پورا کردیا گیا۔
گورنر بلال نے پوچھا: موت اور تقدیر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
فرمایا: ’’قیامت کے روز رب تعالیٰ موت اور تقدیر کے متعلق سوال نہیں کرے گا، بلکہ ہر ایک سے اس کے اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘
گورنر یہ جواب سن کر شرمندہ ہوا اور خاموش ہوگیا۔
ابھی وہ اپنی جگہ پر ہی بیٹھا تھا کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا۔ گورنر نے حضرت محمد بن واسعؒ کو کھانے کی دعوت دی۔ انہوں نے دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے بڑا ہی زور لگایا، لیکن آپ کھانے کے لیے تیار نہ ہوئے۔
گورنر بلال کو غصہ آگیا کہ اتنی عاجزی سے ان کو دعوت دے رہا ہوں اور یہ انکار کر رہے ہیں تو ناراض ہوکر کہا:
’’میرے خیال میں آپ ہمارے کھانے سے کوئی لقمہ اٹھانا مکروہ سمجھتے ہیں۔‘‘
فرمایا: ’’امیر صاحب! یہ بات نہ کہیں، یہ بات بالکل نہیں‘‘ پھر ارشاد فرمایا:
اے امراء بنی امیہ! تم میں سے جو بہتر ہیں، وہ ہمیں اپنی اولاد اور خاندان سے بھی زیادہ عزیز ہیں، کھانے کی مجھے طلب نہیں، ورنہ ضرور آپ کے ساتھ کھانا کھالیتا۔
قاضی کا عہدہ قبول نہ کرنا
حضرت محمد بن واسع ازدیؒ کو کئی مرتبہ قاضی بننے کے لیے پیشکش کی گئی، لیکن آپ نے ہمیشہ اس عہدے کو قبول کرنے سے سختی سے انکار کیا اور اس انکار کی وجہ سے اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرنا گوارا کرلیا۔
ایک مرتبہ بصرہ کی پولیس کے سربراہ محمد بن منذر نے انہیں اپنے پاس بلایا۔ آپ تشریف لے گئے۔ اس نے
کہا: عراق کے گورنر نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں آپ کو قاضی کے منصب پر فائز کروں۔
آپ نے فرمایا: ’’(مجھے یہ عہدہ پسند نہیں) میں معافی چاہتا ہوں مجھے اس عہدہ سے دور رکھیں، رب تعالی آپ پر کرم کرے۔‘‘
اس نے دو تین مرتبہ مطالبہ دہرایا اور انہیں مجبور کیا کہ قاضی کا منصب سنبھال لیں، لیکن آپ نے بڑی سختی سے اس کا انکار کیا، پولیس کے سربراہ نے تنگ آکر کہا:
’’خدا کی قسم! آپ کو یہ عہدہ قبول کرنا پڑے گا، ورنہ میں آپ کو سرعام تین سو کوڑے لگا کر رسوا کروں گا۔‘‘
آپ نے بڑے اطمینان سے فرمایا: ’’میرے ساتھ یہ سلوک کرنا پسند کرتے ہیں تو بڑی خوشی سے شوق سے پورا کیجئے۔ میرے نزدیک دنیا کی تکلیف آخرت کی تکلیف سے کہیں بہتر ہے۔‘‘
پولیس کا سربراہ یہ جواب سن کر شرمندہ ہوا اور انہیں ادب و احترام اور حسن سلوک سے رخصت کیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More