ادھرکئی دنوں سے عزیزم بلا ول بھٹو زرداری کو مدبر، قومی رہنما، مصلح قوم اور ایک محب وطن سیاستدان ’’بنانے‘‘ کی مہم شروع کی گئی ہے۔ بقراطی ثابت کرنے کیلئے موصوف اہم قومی امور پر ’’چشم کشا‘‘ تجزیئے بھی پیش کررہے ہیں۔ ان کے بیانات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ پیپلز پارٹی عالمی دہشت گردی کے حوالے سے مغربی دنیا کے بیانئے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ جو بادی النظر میں کچھ اس طرح ہے کہ پاکستانی فوج خاص طور سے آئی ایس آئی نے کچھ دہشت گرد پال رکھے ہیں جن کے لئے تزویراتی اثاثوں کی اصطلاح مغرب اتنی قدر شدت سے دہرا رہا ہے کہ پاکستانی دانشور بھی اب اسی لکیر کو پیٹنے لگے ہیں۔
پاکستانی فوج ملکی سیاست میں جو مداخلت کرتی ہے ہمیں بھی اس پر اعتراض ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قومی سلامتی سے متعلق انتہائی حساس امور کو نظر اندازکرکے موقع ملتے ہی فوج کو سنگسار کردیا جائے۔ فوج اور آئی ایس آئی ملکی دفاع کیلئے ایک قابل فخر قومی اثاثہ ہے۔ چند ہفتہ پہلے خدا کی مہربانی سے عسکری قوت اور انٹیلی جنس کے حسین امتزاج نے دشمن کے عزائم کو جس طرح ناکام بنایا ہے اس پر رب تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ ہندوستان، اسرائیل اور ان کے سرپرستوں نے سازش کا جو جال بنا تھا، اس کی تفصیلات پڑھ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آئی ایس آئی کی جانب سے دشمن کی چالوں کے بروقت ادراک، ہمارے ہوا بازوں کی شجاعت، عمدہ تربیت اور محدود اثاثوں کے شاندار استعمال سے موذی کا سر بھی پاش پاش ہوا اور لاٹھی بھی اگلی ضرب کیلئے محفوظ رہ گئی۔
یہاں امریکہ میں پاکستان دشمن مراکز دانش (تھنک ٹینکس) سے ہندوستانی مہم کی ناکامی پر جو تجزیاتی مواد سامنے آرہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس خوف ناک سازش کو ناکام بنانے میں دشمن کی نقل وحرکت اور اس کے عزائم کے بارے میں بروقت اور درست معلومات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جو ظاہر ہے کہ آئی ایس آئی کا کارنامہ ہے۔
اسی بنا پر قومی اہمیت کے یہ ادارے دشمن کے نشانے پر ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت مقدمات کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ نواز شریف کی سیاست کی بنیاد میں اور میرے پر تھی، اس لئے ان کے یہاں دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کا کوئی تصور ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی چونکہ خانوادہ بھٹو کا نام ہے، اس لئے پنگوڑے میں انگوٹھا چوستا بھٹو بھی قائد عوام ہے۔ یعنی بلاول زرداری پیپلز پارٹی کے بلاشرکتِ غیرے مالک ہیں۔
جب سے پلوامہ کا واقعہ ہوا ہے، بلاول نے ملک کے حساس اداروں کو اپنے نشانے پر لے لیا ہے۔ ان کی ہر تقریر اور گفتگو کا موضوع دہشت گردی کے خلاف مہم ہے۔ چند روز قبل انہوں نے سندھ میں پیپلز پارٹی کی جنرل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے تین نکاتی مطالبات کی ایک فہرست پیش کی ہے، جس کے مطابق:
٭… قومی سلامتی کے امور کی نگرانی کے لیے پارلیمنٹ کی مشترکہ قومی سلامتی کمیٹی بنائی جائے۔
٭… حکومت قومی ایکشن پلان پر عمل کرے۔
٭… کالعدم تنظیموں سے خود کو علی الاعلان الگ کرتے ہوئے وفاقی کابینہ میں شامل کالعدم تنظیموں سے گٹھ جوڑ کے حامل تین وزراء کو فوری ہٹایا جائے۔
وزیراعظم قومی سلامتی کونسل کے سربراہ اور وزیر دفاع، وزیر داخلہ و وزیر خزانہ اس ادارے کے رکن ہیں اور اس طرح کونسل میں پارلیمنٹ کی مؤثر نمائندگی موجود ہے۔ جہاں تک کابینہ کا تعلق ہے تو پارلیمانی نظام میں وزیروں کی نامزدگی و معزولی وزیر اعظم کا اختیار ہے اور اس ضمن میں اسے کسی سے مشورے یا اجازت کی ضرورت نہیں۔ سارے کے سارے وزیر پارلیمنٹ کے رکن ہیں اور وہ بلاول زرداری ہی کی طرح عوام کے نمائندے ہیں۔ منتخب عوامی نمائندوں کو بلاثبوت دہشت گرد قرار دینا مینڈیٹ کی توہین ہے۔
جن تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، ان میں سے کسی ایک پر بھی دہشت گردی کا الزام ثابت نہیں ہوا۔ جماعت الدعوۃ پر لگائی گئی پابندیوں کو عدلیہ ایک سے زیادہ بار غیر قانونی قرار دے چکی ہے، جبکہ لشکر طیبہ کے ذاکر لکھوی کو عدالت ہی نے عدم ثبوت کی بنا پر بری کیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور ملک کی لبرل لابی کا کہنا ہے کہ ان لوگوں پر امریکہ اور اقوام متحدہ نے پابندیاں لگائی ہیں۔ حالانکہ امریکہ کی پابندی کا یہ عالم ہے کہ ملا عبد الغنی برادر بدنام زمانہ دہشت گرد تھے۔ جنہیں فروری 2010ء میں بلاول زرداری کے والد کی حکومت نے امریکی سی آئی اے کی مدد سے گرفتار کیا تھا۔
اس وقت کے مشیر داخلہ عبد الرحمن ملک نے ’’انسانیت کے اس دشمن‘‘ کی گرفتاری پر خوب شادیانے بجائے۔ آج کل یہ ’’دہشت گرد‘‘ قطر کے امن مذاکرات میں طالبان کے وفد کی قیادت کر رہا ہے اور زلمے خلیل زاد اس کی شیریں بیانی اور امن کیلئے ملا برادر کے عزم سے بے حد متاثر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں ملا صاحب اب بھی ایک دہشت گرد ہیں، لیکن اب وہ امریکہ کی Good Books میں ہیں کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ یہ قوم اقوام متحدہ کے کہنے پر کسی کو دہشت گرد نہیں مانتی، جب تک پاکستان کی عدالتیں اس کی تصدیق نہ کر دیں۔ عمران خان نے بھی ان جماعتوں پر محض نوبل انعام کی لالچ میں پابندی لگائی ہے۔
پاکستا ن کی صرف ایک جماعت ماضی میں دہشت گرد ونگ چلاتی رہی ہے۔ وہ ہے پیپلز پارٹی۔ جس نے 1980ء میں اپنے بانی کے نام پر الذو القفار قائم کی۔ اس تنظیم کے سربراہ بلاول کے بڑے ماموں میر مرتضیٰ بھٹو اور شریک چیئرمین ان کے چھوٹے ماموں شاہنواز بھٹو تھے۔ الذولفقار نے پی آئی اے کے طیارے کے اغوا اور پاکستانی فوج کے ایک افسر میجر طارق رحیم کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا یہ دہشت گرد ونگ یونیورسٹی اور کراچی کے کالجوں کے کئی طلبہ کے قتل میں ملوث رہا ہے۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد بینظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور ان کے حکم پر دہشت گردی کا سارا ریکارڈ تلف کر دیا گیا۔ ماضی کے یہ دہشت گرد اب بیرونی اشاروں پر پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post