’’ترکوں کے دیس میں‘‘

0

’’اسلام بول‘‘
دیو مالائی کہانیوں کے کسی بڑے سے عفریت جیسے پرندے کی طرح ترکش ایئر لائن کے بوئنگ نے استنبول کے کمال اتاترک ایئرپورٹ کے گرد چکر لگایا اور عثمانیوں کی زمین چومنے کے لئے بے تابی سے نیچے اترنے لگا۔ جہاز نیچے اتارنے کے لئے جتنا پائلٹ بے قرار تھا، اس سے زیادہ بے چینی تو مسافروں کو تھی۔ جن میں سیلانی سرفہرست تھا اور افسوس کر رہا تھا کہ اس بار اسے کھڑکی کے ساتھ والی نشست کیوں نہ ملی۔ وہ طیارے سے تیرتے بادلوں اور خلیج باسفورس کے کنارے آباد اسلامی اور رومی تہذیب و تمدن کے کھرے گواہ استنبول کی تصاویر کیوں نہ بنا سکا۔ جہاز نے ہوائی اڈے کے گرد طواف کیا اور پھر کسی ایلچی کی طرح بادشاہ کے سامنے کورنش بجا لانے کے سے انداز میں جھکتا چلا گیا۔ طیارے کے اترنے سے جتنی خوشی سیلانی کو تھی، شاید وہ مسافروں کی خدمت پر مامور ترک فضائی خادماؤں کو بھی نہ ہو، جنہیں جگ رتوں کے عادی مسافروں نے ذرا بھی آرام کرنے نہ چھوڑا تھا۔ یہ ستم سیلانی سے بھی ہوا تھا۔ اس نے بڑی کوشش کی کہ پلکیں جوڑ کر سو جائے، لیکن طیارے کی نشست میں بندہ پیر پھیلا سکتا ہے، نہ کمر سیدھی کر سکتا ہے۔ کراچی سے استنبول کی پرواز لگ بھگ ساڑھے پانچ گھنٹوں کی ہے۔ صبح سویرے ساڑھے چھ بجے کی پرواز کے لئے نصف شب تین بجے ہوائی اڈے پر حاضری دینا ہوتی ہے اور تین بجے پہنچنے کے لئے دو بجے تو گھر سے نکلنا ہی پڑتا ہے۔ پوری رات آنکھوں میں کٹ جاتی ہے، تب کہیں جا کر بندہ منزل مقصود پر پہنچتا ہے، اب ان ساڑھے پانچ گھنٹوں کے سفر میں جب آس پاس سب مسافر اپنی اپنی نشستوں پر آڑھے ترچھے ہو کر سو رہے ہوں اور ایک آپ ہوں، جو بٹر بٹر دائیں بائیں دیکھ کر منہ بنا رہے ہوں تو کیا حال ہو۔ اگرچہ طیارے میں مسافروں کے سامنے والی سیٹ کی پشت پر اسکرین میں بہت ساری دلچسپیاں تھیں۔ فلمیں،کارٹون اور موسیقی سننے اور دیکھنے کا مختلف زبانوں میں پورا پورا انتظام تھا، بس نہ تھا اپنی اردو کا۔
طویل سفر کے بعد منزل پر پہنچنے کی خوشی میں بوئنگ جیسے ساری تھکان بھول گیا ہو، وہ تیزی سے رن وے پر جھپٹا اور پھر جیسے پھسلتا چلا گیا۔ طیارے کی لینڈنگ ہموار نہیں تھی، لیکن شکر ہے کہ طیارہ بخیر و عافیت اتر گیا۔ طیارے کے رکتے ہی مسافروں نے بالائی خانوں سے سامان ایسی عجلت میں نکالنا شروع کیا، جیسے سب سے پہلے باہر نکلنے پر موٹر سائیکل کا انعام ان ہی کا منتظر ہو۔ ہم پاکستانی ہمیشہ ہی ایسی بھیڑ چال کا سا ثبوت دیتے ہیں اور اپنی جگ ہنسائی کا موقع مفت میں فراہم کرتے ہیں۔ سیلانی کے پاس ایک لیپ ٹاپ اور بیگ کے سوا کچھ نہ تھا۔ بیگ اس نے فضائی کمپنی کے حوالے کر دیا تھا، اس لئے وہ اطمینان سے بیٹھا رہا۔ جب سامنے والی بھیڑ چھٹی تو وہ فضائی خادمہ کی خالصتاً پیشہ ورانہ الوداعی مسکراہٹ سمیٹ کر طیارے کی سیڑھیاں اتر کر نیچے آگیا۔ وسیع و عریض ہوائی اڈے پر سرخ دم والے ترکش ایئر لائن کے طیارے تازہ دم ہو رہے تھے۔ استنبول میں دنیا کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ بن رہا ہے، جو کتنے ہی برسوں تک ترکی کی فضائی ضروریات کے لئے کافی ہوگا۔ دیکھتے ہیں طیب اردگان کب اس کا افتتاح کرتا ہے۔
طیارے کے قریب ہی مسافروں کو ہوائی اڈے تک لے جانے کے لئے بس تیار تھی اور غالباً سیلانی ہی کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے سوار ہوتے ہی بس چل پڑی اور سیدھا ہوائی اڈے کی عمارت کے سامنے جا رکی۔ سیلانی اور شیر خان انقلابی سب مسافروں کے ساتھ نیچے اترے اور اپنا سامان لینے کے لئے گیارہ نمبر کے لیگیج کاؤنٹر پر پہنچ گئے۔ سامان آنے میں کچھ وقت لگا۔ یہ وقت سیلانی نے ہم وطنوں کی بے تابی اور اشتیاق کا جائزہ لینے میں گزارا۔ ترکی پہنچتے ہی کسی بھی پاکستانی مرد کے دل میں پہلی خواہش کسی ترک حسینہ سے شادی کی ہوتی ہے اور اگر وہ شادی شدہ ہو تو سرد آہوں سے استنبول کا درجۂ حرارت مزید گرانے لگتا ہے۔ خدا نے ترکوں کو بڑی فیاضی سے نوازا ہے۔
امیگریشن حکام نے سیلانی کا پاسپورٹ چیک کیا۔ اس کا سامان اسکریننگ مشین سے گزارا اور ترکی میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ شیر خان انقلابی کے ساتھ ایئر پورٹ کے لاؤنج سے باہر نکلنے پر استنبول کی سردی نے سرگوشی کی کہ سیلانی میاں! میں ابھی گئی نہیں ہوں، خیر منا رکھئے گا۔ سیلانی نے مسکرا کر کہا کہ جانا تو پڑے گا، آپ کے ویزے کی مدت ختم ہو رہی ہے، گرمیاں آنے اور ترکوں کی خوشحالی لانے کو ہیں۔ ترکی سیاحت کے اعتبار سے دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے، جہاں سیاح جیبیں بھر کر آتے ہیں، یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں، کروڑوں میں ہے۔ 2018ء کے صرف ایک مہینہ جولائی میں یہاں چھپن لاکھ سترہ ہزار سیاح آئے تھے۔ دنیا کے دس بڑے سیاحتی ممالک میں ترکی شامل ہے، جو اس کی معیشت اٹھانے میں بڑا کام آتا ہے۔ گرمیوں میں تو یہاں یہ عالم ہوتا ہے کہ ہوٹلوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔
سیلانی کے دوست شیر خان انقلابی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور باہر قطار میں کھڑی پیلی ٹیکسیوں میں سے ایک میں بنا مذاکرات کئے بیٹھ گیا۔ اس کی اس بے احتیاطی سے سیلانی کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ اس نے دبے لفظوں میں شیر خان سے کہا کہ یار پہلے کرایہ تو طے کر لیتا، یہ اگر اپنے لاہور کا ٹیکسی ڈرائیور نکلا تو… لیکن شیر خان نے کہا کہ فکر نہ کر، یہ ترک ہے، دیکھنا کتنا مناسب بل بنتا ہے۔ راستے میں ڈرائیور سے گپ شپ نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ ترکی زبان ہی جانتا تھا اور سیلانی کو ترکی کا ایک ہی لفظ آتا ہے اور وہ ہے ’’کاردش‘‘ یعنی بھائی۔
استنبول کی ہموار سڑکوں پر ٹیکسی جیسے پھلستی جا رہی تھی۔ بلند وبالا اور شاندار عمارتیں ترکوں کی تعمیراتی صلاحیتوں کا اظہار اور صاف ستھرے فٹ ہاتھ، گرین بیلٹ ان کی نفاست وسلیقہ مندی کی گواہی دے رہی تھیں۔ سیلانی نے دو برس پہلے ترکی کو جتنا صاف ستھرا چھوڑا تھا، آج بھی ویسا ہی تھا۔ تقریباً سارے ہی مناظر بھی ویسے ہی تھے۔ چھوٹی بڑی عمارتوں پر سفید چاند ستارے والا سرخ پرچم ترکوں کی وطن سے محبت کا اعلان کر رہا تھا۔ یہاں گھروں، دکانوں اور دفاتر میں قومی پرچم لگانا روایت سی ہے۔ اس بار بس ذرا فرق یہ تھا کہ سرخ پرچموں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے پوسٹر ہورڈنگز پر طیب اردگان دایاں ہاتھ سینے پر رکھے مسکراتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے ساتھ اسی کے عمر کے کوئی اور صاحب بھی تھے، جنہیں سیلانی نہیں جانتا۔ کچھ اور لوگ بھی تھے، جن کی مسکراتی تصاویر نمایاں تھیں۔ دراصل ترکی میں بلدیاتی معرکہ ہونے جا رہا ہے اور یہ بلدیاتی انتخابات بڑے ہی اہم ہیں۔ استنبول تو طیب اردگان کا گھر اور اسلام پسندوں کا گڑھ ہے۔ استنبول کو استنبول طیب اردگان ہی نے بنایا ہے۔ یہ استنبول کے میئر رہ چکے ہیں اور انہوں نے میئر رہتے ہوئے خدمت اور محبت کی جو مثالیں قائم کیں، اس کا بدلہ ترکوں نے فوج کے ایک گروہ کی جانب سے بغاوت کے موقع پر انہیں جوتے مار ادا کر دیا۔ یونہی تو استنبولی گن شپ ہیلی کاپٹروں کے سامنے نہیں آگئے تھے۔ ایسے ہی تو وہ ٹینکوں کے سامنے جا نہیں لیٹے تھے کہ کچلنا ہے تو کچل دو، لیکن طیب اردگان کی محبت نہیں کچل سکو گے۔
ٹیکسی فراٹے بھرتی ہوئی استنبول کے قدیم علاقے ’’فاتحی‘‘ میں سلطان سلیم کی مسجد کے پیچھے ایک عمارت کے سامنے پہنچ کر رک گئی۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ڈیش بورڈ پر لگے میٹر سے کرائے کی پرچی نکالی اور ستر لیرے کی رقم لے کر سلام کرتا ہوا کسی اور مسافر کے لئے چل پڑا۔ سیلانی فوراً ستر لیروں کو پاکستانی کرنسی میں تولنے لگا۔ 1890 روپے مناسب رقم تھی۔ ایسی لگژری کار میں اگر کراچی ایئرپورٹ سے ڈیفنس جایا جاتا تو کم و بیش ڈھائی ہزار بل بننا تھا۔ ٹیکسی سے سامان لے کر شیر خان نے سامنے چار منزلہ عمارت کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ شیر خان کے داخل ہوتے ہی چھت پر لگا بلب جل اٹھا۔ اس قسم کے بلب یہاں عام ہیں، جس میں لگے سنسر بندے کے قدم رکھتے ہی اسے جلا دیتے ہیں اور اس کے گزرنے کے بعد بند بھی کر دیتے ہیں۔ بجلی بچانے کے لئے یہ بہترین طریقہ ہے۔ توانائی کے بحران سے گزرنے والے پاکستان میں اس قسم کے بلبوں کی اشد ضرورت ہے اور یہ کوئی راکٹ سائنس بھی نہیں۔ حکومتی سطح پر اس کا اہتمام کیا جائے تو اچھی خاصی بجلی بچ سکتی ہے۔
یہ ایک پرانی عمارت تھی۔ شیر خان کا فلیٹ چوتھی منزل پر تھا۔ یہاں پہنچ کر اسے جوتے اتارنے پڑے۔ ترک جاپانیوں کی طرح اپنے گھر میں جوتے لے کر داخل نہیں ہوتے۔ یہ فلیٹ اگرچہ پاکستانیوں کے پاس تھا، لیکن وہ بھی ترکوں کے رنگ میں رنگے ہوئے لگ رہے تھے۔ جوتے اتار کر سیلانی شیر خان کے پیچھے پیچھے ایک چھوٹے، مگر صاف ستھرے فلیٹ میں داخل ہو گیا، جہاں سامنے فخر خان مسکراتے ہوئے بازو وا کئے منتظر تھا، لیکن سیلانی اس کے پیچھے بڑی سی کھڑکی میں دیکھ رہا تھا۔ سامنے سمندر کے شفاف پانی سے سورج کی کرنیں اٹکھیلیاں کر رہی تھیں۔ کیا ہی خوبصورت منظر تھا!۔ شاخ زریں، خلیج باسفورس جسے انگریزGOLDEN HORN کہتے ہیں، سامنے تھی اور ایک بیس اکیس سالہ نوجوان کی بہادری، ذہانت اور عزم و ہمت کے ترانا گنگنا رہی تھی۔ یہی وہی خلیج ہے، جسے قیصر روم نے فولادی زنجیر ڈال کر بحری جہازوں کے لئے علاقۂ ممنوع قرار دے رکھا تھا اور قسطنطنیہ کے گرد دنیا کی مضبوط ترین چہار دیواری بنا کر اسے ناقابل تسخیر بنا چکا تھا۔ خلیج کے اس پانی کی اک اک لہر گواہ تھی کہ قیصر روم نے قسطنطنیہ کی حفاظت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، لیکن اکیس سالہ سلطان محمد بھی خالی ہاتھ لوٹنے نہ آیا تھا۔ اس نے سینتالیس دن کے محاصرے کے بعد ایک تھکی ہوئی سپاہ کے ساتھ عجب کام کر دکھایا۔ اس نے خلیج باسفورس میں داخل ہونے کے لئے درخت کٹوا کر تختے بنوائے۔ لشکر میں موجود جانور ذبح کرکے ان کی چربی تختوں پر ملی اور خلیج کے ساتھ پہاڑی پر یہ تختے بچھا کر ایک ڈھلان سی بنا دی، پھر اس پھلستی ڈھلان پر کشتیاں چڑھا دیں۔ عثمانی رسوں کی مدد سے ان کشتیوں کو کھینچ کر اوپر لے گئے اور فولادی زنجیر بائی پاس کرکے یہ کشتیاں خلیج میں ڈال دیں۔ خشکی پر کشتیاں چلانے کا یہ عجیب واقعہ شاید چشم فلک نے پہلی بار دیکھا تھا۔ صبح ہوئی تو میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ قیصر روم کا ناقابل شکست قلعہ تسخیر ہو چکا تھا۔ سلطان محمدؒ نے29 مئی1453ء کو قسطنطنیہ فتح کر کے اسے ’’اسلام بول‘‘ بنا دیا تھا… سیلانی تاریخ کی سرگوشیوں سن رہا تھا۔ اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ فخر بھائی بازو پھیلائے اسے خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ سیلانی ان کی آواز پر چونکا اور خجالت مٹانے کے لئے مسکراتا ہوا آگے بڑھ کر آدھے ترک اور نصف پاکستانی کے گلے سے لگ گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More