لاریب ہم اپنی اس خوش نصیبی پر جتنا بھی ناز کریں، کم ہے کہ ہم شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم کے عہد میں جی رہے ہیں۔ دیوبند کا یہ فرزند بلاشبہ پوری امت کے ماتھے کا جھومر ہے۔ عالم اسلام کا سرمایہ افتخار ہے۔ طالبانِ علم کے لیے وجہ قرار ہے۔ سودی نظام کے پشتیبانوں کے قلب میں کھٹکتا مانندِ خار ہے۔ اندرون و بیرون ملک سر آنکھوں پر بٹھائے جانے کے باوجود سادگی جس کا شعار ہے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع علیہ الرحمۃ کے اس نور نظر پر تو علم و فضل خود بھی ناز کرتا ہے۔ جن کی رائے علمی دنیا میں فائنل اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ جنہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ ہر دور میں غیر متنازعہ علمی و دینی شخصیت رہے ہیں۔ مفتی صاحب نے ہمیشہ اپنے متوسلین، تلامذہ اور معتقدین کو راہِ اعتدال پر چلنے کا درس دیا۔ پرویز مشرف کے عہدِ سیاہ میں جب وطن عزیز علمائے کرام، دینی جماعتوں کے کارکنوں، دینی مدارس اور دین سے محبت رکھنے والے افراد اور رفاہی اداروں کے لیے عملاً گوانتا ناموبے بنا ہوا تھا، تب بھی مفتی صاحب ہر فورم پر دینی حلقوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ ہمیں یاد ہے کہ انہی دنوں مفتی صاحب دارالعلوم دیوبند کی تقریب ختمِ بخاری میں بطور مہمان خصوصی شرکت کے لیے بھارت تشریف لے گئے۔ وہاں بھی انہوں نے اپنے خطاب میں طلبہ و علماء کو یہی تلقین کی کہ جذباتی پن سے بچا جائے اور تصادم کی راہ پر چلنے سے گریز کیا جائے۔ ان چند الفاظ میں کتنی حکمت پنہاں ہے، کاش ہم سمجھ جائیں۔ مفتی تقی عثمانی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ ملک جب فرقہ واریت کی آگ میں جل رہا تھا۔ اہل بیتؓ اور اصحابِؓ رسولؐ کے نام پر گردنیں کٹ رہی تھیں۔ اس نازک دور میں بھی مفتی صاحب کی شخصیت کسی فرقہ وارانہ داغ دھبے سے پاک رہی۔ ہر طبقہ فکر میں ان کے لیے خاص احترام پایا جاتا ہے۔ ہم شاید اسکول کے آخری درجے میں تھے، جب ہمیں مفتی صاحب کی کتاب ’’تراشے‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا اور یہی ان سے ہمارا پہلا تعارف تھا۔ ہم نے پہلی بار مفتی صاحب کو 15 نومبر 2006ء کی صبح جامعہ اشرفیہ لاہور میں دیکھا، جب پرویز مشرف نے پارلیمان کے ذریعے حدود لاز آرڈی نینس 1979ء کو منسوخ کرا کے قانون تحفظ حقوقِ نسواں بنوایا تھا اور اس قانون سازی کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی ذمہ داری ایک مشہور میڈیا گروپ کو سونپی گئی، جس نے ’’ذرا سوچئے!‘‘ کے عنوان سے خوب مہم چلائی تھی۔ اُس روز اسی سلسلے میں تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کا جامعہ اشرفیہ میں نمائندہ اجلاس ہوا تھا، جس میں گفتگو کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا: ’’میں سات سال تک وفاقی شرعی عدالت اور بیس برس تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلنٹ بینچ کا رکن رہا ہوں۔ ان ستائیس برسوں میں کوئی ایک بھی کیس میری نظر سے ایسا نہیں گزرا، جس میں حدود لاز آرڈی نینس کی وجہ سے کسی خاتون کے ساتھ ناانصافی یا زیادتی ہوئی ہو۔ آپ میری اس بات کا میرے نام کے ساتھ کسی بھی فورم پر حوالہ دے سکتے ہیں‘‘۔
22 مارچ کو کراچی میں مفتی تقی عثمانی پر کیا گیا قاتلانہ حملہ دراصل پاکستان پر حملہ تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے گزشتہ چند روز میں خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کا عمیق جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس وقت افغانستان میں حالات تیزی سے کروٹ بدل رہے ہیں۔ غزنوی و ابدالی کے جانشینوں نے جہاں واحد عالمی سپر پاور امریکہ کو میدان جنگ کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی میز پر بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے، وہیں دوسری طرف بھارت کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے، جس نے افغانستان میں تین ارب ڈالر انوسٹ کر رکھے ہیں، جو اب ڈوبتے دکھائی دے رہے ہیں۔ افغانستان کا کنٹرول اس وقت عملاً طالبان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اعلان کر چکے ہیں کہ جن ممالک نے ان کی اجازت کے بغیر اشرف غنی حکومت سے ترقیاتی معاہدے کر رکھے ہیں، امن معاہدے کے بعد وہ معاہدے کالعدم قرار پائیں گے اور اس بات نے بھارت کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ متوقع افغان امن معاہدے پر بھارت،
اشرف غنی اور کسی حد تک امریکی سی آئی اے کو خاصے تحفظات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت، سی آئی اے اور کچھ پاکستانی قوم پرست حلقے اشرف غنی کو مسلسل مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ماہ اپریل میں ملک میں انتخابات کرا دیں تاکہ انتخابات کے بعد ملک میں بننے والی حکومت کو جواز کے طور پر پیش کرکے امن معاہدے کی راہ میں روڑے اٹکائے جا سکیں۔ اس سرگرمی پر طالبان بھی کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور وہ اس موقع پر اپنے ملک میں انتخابات کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن تیسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ امن معاہدے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے زلمے خلیل زاد کی یہ خواہش ہے کہ امن معاہدے کی صورت میں افغانستان میں جو عبوری سیٹ اپ بنے گا، اس کا سربراہ انہیں بنایا جائے۔ اس خواہش کا اظہار وہ طالبان کے نمائندہ وفد کے روبرو بھی کر چکے ہیں۔ زلمے خلیل زاد کا یہ کہنا ہے کہ طالبان انہیں بھلے کوئی حکومتی اختیار نہ دیں۔ سارے اختیارات اپنے پاس ہی رکھیں، لیکن متوقع عبوری سیٹ اپ کی سربراہی کا تاج اُن کے سر پر رکھا جائے تاکہ تاریخ میں یہ رقم ہو جائے کہ افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے بعد یہاں جو عبوری سیٹ اپ قائم ہوا، اس کی سربراہی زلمے خلیل زاد کو سونپی گئی۔ لیکن طالبان ایسی کوئی غلطی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیے فی الحال زلمے خلیل زاد کو اپنی یہ خواہش پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہی وہ ساری باتیں تھیں، جن پر مشاورت کے لیے طالبان کے نمائندہ وفد نے گزشتہ دنوں مفتی تقی عثمانی اور چند دیگر پاکستانی علمائے کرام سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آئندہ دنوں افغانستان میں جو نیا حکومتی سیٹ اپ بنتا دکھائی دے رہا ہے، وہ کم از کم پاکستان مخالف نہیں ہو گا۔ گزشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران ہمارے مغربی پڑوس میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریب کاری کی آگ بھڑکانے والی طاقتوں کے لیے یہی بات سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں 23 مارچ سے ایک روز پہلے مفتی تقی عثمانی صاحب پر قاتلانہ حملہ دراصل پاکستان کو چرکہ لگانے کی سعی نا مشکور تھی۔
28 مئی 1998ء کو واحد اسلامی جوہری طاقت بننے کے بعد استعماری قوتوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کئی نئے محاذ کھولے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے علاقائی حواریوں نے ایک طرف پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیا، جس سے امن و امان کی صورت حال کو شدید ضعف پہنچا۔ دوسری طرف یہاں توانائی اور خوراک کے بحران پیدا کیے گئے، تاکہ صنعتی شعبہ برباد ہو اور عوام روٹی کی خاطر باہم دست و گریباں ہوں۔ تیسری جانب یہاں مختلف زاویوں سے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کی بارہا کوشش کی گئی، جسے امریکی فخر سے غیر روایتی طریقہ جنگ کہا کرتے ہیں اور جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے اس غیر روایتی طریقہ جنگ کے ذریعے ہی عراق میں مزاحمتی تحریک کی کمر توڑی تھی۔ چوتھی جانب پاکستان کو سفارتی سطح پر بھی تنہا کرنے کی سعی کی گئی اور مختلف فورمز پر بھارتی قیادت فخریہ طور پر اس بات پر اظہار کرتی تھی کہ ہم نے پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ نواز شریف کے سابقہ دور میں ان مسائل پر بڑی حد تک قابو لیا گیا۔ گزشتہ دو تین برسوں سے امریکہ اور اسرائیل، بھارت کو مسلسل تھپکی دے رہے تھے کہ وہ پاکستان پر چڑھائی کرے۔ بالآخر گزشتہ ماہ بھارت نے پلوامہ حملے کو بنیاد بنا کر بالاکوٹ میں سرجیکل اسٹرائیک کی کوشش کی، جس کا پاک فضائیہ نے اگلے ہی روز اسے ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ ناصرف بھارت بلکہ پوری دنیا انگشت بدنداں رہ گئی۔ پاکستان نے نا صرف بھارت پر اپنی عسکری برتری واضح کی، بلکہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے دیگر بدخواہوں اور برادرانِ یوسف کو بھی پیغام بھیجا کہ ہمیں ترنوالہ نہ سمجھا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر پاکستان کے دوست ممالک کا سر بھی فخر سے بلند ہو گیا۔ اسی لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ 23 مارچ کو اسلام آباد میں پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرکے اقوام عالم کو پیغام دیا جائے کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔ چنانچہ اِمسال یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں ہونے والی افواج پاکستان کی پریڈ میں کئی دوست ممالک کو بھی دعوت دی گئی۔ وزیر اعظم ملائیشیا عزت مآب ڈاکٹر مہاتیر محمد اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے، جبکہ چین اور ترکی کے جنگی طیاروں نے اس تقریب میں شرکت کی اور فلائی پاسٹ میں حصہ بھی لیا۔ اسی طرح سعودی عرب، بحرین، سری لنکا اور برونائی دارالسلام کے کمانڈو دستوں نے بھی اس پریڈ میں پہلی بار شرکت کی۔ لیکن اس پریڈ میں پہلی بار ایک اور تبدیلی بھی نوٹ کی گئی۔ اس بار پاکستان نے وسط ایشیائی ملک آذربائیجان کو بھی یوم پاکستان کی قومی تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ چنانچہ آذربائیجان کے کمانڈو دستے نے بھی پریڈ میں حصہ لیا۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اس پریڈ میں آذربائیجان کو مدعو کیا جانا بھی دراصل برادرانِ یوسف کے لیے واضح پیغام تھا۔ علاوہ ازیں اس پریڈ میں سفارتی صف بندی مزید واضح ہو گئی۔ پریڈ میں پاکستان کی نسبت سعود ی عرب کے قومی پرچم کو پاکستانی پرچم سے کہیں بڑھ کر تکریم دی گئی۔ جب پاکستانی اور سعودی پرچم اسٹیج کے سامنے پہنچے تو خاتون انائونسر نے اردو، عربی، انگریزی اور چینی زبان میں اعلان کیا کہ حاضرین سعودی پرچم کے احترام میں اپنی نشستوں پر کھڑے ہوجائیں، جبکہ تقریب میں موجود باوردی مہمان سعودی پرچم کو سیلوٹ کریں۔ برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے لیے پاکستان کی طرف سے اس درجہ احترام و اکرام سے یقینا کئی بد خواہ پریشان ہوئے ہوں گے۔ ہماری اس قومی تقریب نے بھارت اور اسرائیل اور ان جیسے دیگر دشمنوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان کو تنہا نہ سمجھا جائے۔ لہٰذا اس شاندار تاریخی قومی تقریب سے ٹھیک ایک روز پہلے مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ دراصل پاکستان پر حملہ تھا۔ ذرا سوچئے کہ اگر خدا نخواستہ مفتی صاحب کو کوئی گزند پہنچ جاتی تو اندرون و بیرون ملک کیسا کہرام مچتا اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ حضرت مفتی صاحب کو سعودی عرب میں کس قدر عزت و احترام دیا جاتا ہے کہ ہماری اطلاعات کے مطابق سعودی حکومت تو انہیں کئی بار اپنی شہریت کی پیش کش بھی کر چکی ہے، لیکن مفتی تقی عثمانی اپنے وطن کی گلیاں چھوڑ کر کہیں اور جانے کو تیار نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں وہ عالم اسلام کے سب سے بڑے فقہی فورم مجمع الفقہ الاسلامی کے نائب صدر ہیں، جس کا ہیڈ کوارٹر مکہ مکرمہ میں ہے اور اس کے صدر مفتی اعظم سعودی عرب ہیں، لیکن عملاً تمام تر اختیارات نائب صدر مفتی تقی عثمانی کے پاس ہیں۔ باخبر حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ مفتی تقی عثمانی پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں ملک دشمن قوتوں کا ہاتھ کار فرما ہے، جس کے لیے کراچی کے ایک ایسے خونخوار بھیڑیے کو استعمال کیا گیا، جس کے منہ کو کافی عرصے سے علما و مشائخ کا خون لگا ہوا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ خطرہ ابھی بھی ٹلا نہیں ہے۔ دشمن قوتیں پاکستان کی مقتدر دینی و سیاسی شخصیات کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی بھی اوچھا وار کر سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حضرت مفتی تقی عثمانی اور دیگر دینی و سیاسی شخصیات کو فوری طور پر خصوصی حفاظتی پروٹوکول فراہم کیا جائے، کیونکہ افغانستان سے امریکہ کے بے آبرو ہو کر نکلنے کے دن جتنے قریب آئیں گے۔ پاکستان تیل و گیس جیسی قیمتی معدنیات کے حصول میں جتنا خود کفالت کی طرف بڑھے گا، عالمی سطح پر پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے مابین جتنی قربت بڑھے گی، اتنا ہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دشمن قوتیں اپنے تخریبی ونگز کو حرکت میں لائیں گی۔ باری تعالیٰ ہمارے ملک، قوم، دینی و سیاسی قیادت اور ہمارے بین الاقوامی دوستوں اور خیر خواہوں کی ہر طرح کے شرور سے حفاظت فرمائے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post