’’کوفتہ جی یوسف‘‘
فخر السلام نے گرمجوشی سے مہمانوں کا استقبال کیا اور کمرے میں بٹھا کر جلدی سے باورچی خانے میں چلا گیا۔ شیر خان دوران پرواز خوب لمبی تان کر سویا تھا، اس لئے ہشاش بشاش تھا، وہ کہنے لگا ’’ہاں بھئی سیلانی! کیسا لگا ہمارا شوگا؟‘‘
’’شوگا؟‘‘ سیلانی نے وضاحت طلب نظروں سے دیکھا۔
’’یہ فلیٹ اور کیا، ترکی میں فلیٹ کو شوگا کہتے ہیں۔‘‘
شیر خان انقلابی کا شوگا بہترین جگہ پر تھا، تقریباً ڈھائی کمروں پر مشتمل اس چھوٹے سے فلیٹ کے دو کمروں کی کھڑکیاں خلیج باسفورس کی طرف کھلتی تھیں، چوتھی منزل پر واقع اس فلیٹ سے خلیج کا نظارہ لاجواب تھا، خلیج میں جب کوئی کشتی چلتی تو پیچھے پانی پر لکیر سی بناتی چلی جاتی، شفاف پانی میں رنگ برنگی کشتیاں بڑی ہی بھلی لگتی تھیں۔ یہ علاقہ استنبول کے قدیم ترین علاقوں میں سے ہے، جسے فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتحؒ کے نام سے فاتحی کہا جاتا ہے۔ یہاں جہاں مسلمانوں کی شان و شوکت کی داستان سنانے والے پرشکوہ مساجد کے بلند مینار ہیں تو قسطنطنیہ کی یاد دلاتے ہوئے عیسائیوں کے چند ایک گرجا گھر اور قسطنطنیہ کی شکست پر رنجیدہ شہر کی فصیل کے آثار بھی ہیں۔ شہر کی یہ فصیل اس وقت کی فصیلوں کی طرح نہیں۔ یہ اتنی چوڑی ہے کہ اس پر گھوڑا دوڑایا جا سکتا ہے۔ اس میں شگاف ڈالنا بڑا ہی مشکل تھا۔ سلطان فاتح نے واقعی بڑی ہمت دکھائی تھی۔ اس سے پہلے سات سو برسوں تک قیصر روم کا قسطنطنیہ مسلمانوں کے لئے لوہے کا چنا بنا رہا تھا۔
فخر السلام خان تھوڑی دیر میں کمرے میں اس طرح داخل ہوا کہ اس کے ہاتھوں میں ناشتے کی ٹرے تھی۔ فرائی کی ہوئی سبز اور عرفا شہر کی سرخ مرچ، مشروم، ڈبل روٹی، زیتون کا تیل، شہد اور انڈہ آملیٹ پر مشتمل ناشتہ دیکھ کر دوبارہ بھوک لگ گئی۔ ترک مرچ کی صرف شکل خوف ناک ہوتی ہے۔ اس کا ذائقہ اپنی شملہ مرچ کا سا ہی ہوتا ہے۔ ڈٹ کر ناشتے کے بعد شیر خان تو کمر سیدھی کرنے کے لئے لیٹ گیا اور سیلانی شوگے کا جائزہ لینے لگا۔ یہ چھوٹا سا فلیٹ تھا، جیسے کراچی کے قدیم علاقوں پاکستان چوک، برنس روڈ، رنچھوڑلین پر فرنگی دور کی یاد دلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے فلیٹ ہیں۔ ترکی میںکوٹھیوں، بنگلوں کا رواج نہیں۔ نوے فیصد ترک فلیٹوں میں رہتے ہیں۔ ان کے فلیٹوں کے کمرے چھوٹے، لیکن صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ یہاں جوتے فلیٹ سے باہر اتارے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص جوتوں سمیت اندر داخل ہونا چاہے اور سامنے اسکارف پہنے کوئی ترک اماں اپنے پوتوں نواسیوں کے لئے سوئٹر بننے میں مصروف ہو تو اسے جوتے پڑ بھی سکتے ہیں۔
شوگے میں سیلانی کی ملاقات دو اور پاکستانی نوجوانوں سے ہوئی۔ ان میں شاہوار انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے استنبول میں ہے اور دوسرے ایک نوجوان عالم دین احمد رضا ہیں، جو دو تخصص کرنے کے بعد یہاں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ یہ دونوں نوجوان اسکالر شپ پر ہیں۔ ترکی مسلم دنیا میں سب سے زیادہ یونیورسٹیاں رکھنے والا ملک ہے۔ صرف استنبول میں ڈیڑھ سو جامعات ہیں۔ یہ پوری دنیا سے قابل اور اہل دماغوں کو اسکالر شپ دے کر اپنے یہاں پڑھنے کے لئے بلاتے ہیں۔ یہ دراصل امت کو جوڑنے کی وہ کوشش ہے، جس کا آغاز کبھی اسلام آباد میں اسلامی یونیورسٹی سے ہوا تھا۔ اس زمانے میں بڑی تعداد میں ترک نوجوانوں نے پاکستان کا رخ کیا تھا اور واپسی پر ’’امہ‘‘ کا ایک ہمہ گیر تصور لے کر ترکی میں متحرک ہوگئے۔ آج یہاں خاموشی سے بڑے بڑے کام کر رہے ہیں۔
ناشتے کے بعد ملک نثار احمد بھی بمشکل شوگے پر پہنچ گئے۔ لاہور کے نثار احمد بھی شیر خان انقلابی کی بے قاعدہ ٹیم کا حصہ ہیں۔ ان کا لاہور میں کاسمیٹکس کا کاروبار ہے۔ یہ شیر خان کی تحریک دلانے پر ہی ترکی میں مصنوعات تلاش کرنے پہنچے تھے۔ شیر خان انقلابی ترکوں کا عاشق ہے۔ وہ کہتا ہے مجھے آج کے ترک میں بڑی صلاحیت نظر آتی ہے۔ یہ قوم سینکڑوں برس حکمرانی کر چکی ہے اور آج بھی یہ امت مسلمہ کو سلطان محمد فاتح دے سکتی ہے۔ شیر خان کی شدید خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح ترکی اور پاکستان قریب آجائیں۔ ایک دوسرے کے دست و بازو بن جائیں۔ وہ کہتا ہے ایسا ہوگیا تو امت کے ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا۔
ملک نثار اپنے ساتھ خوب سردی بھی لایا تھا۔ جب سیلانی نے استنبول میں قدم رکھا تھا تو موسم اتنا سرد نہیں تھا۔ چمکدار دھوپ ترکوں کو سردیوں کے جانے اور سیاحت کے سیزن کے آغاز کی خوشخبری سنا رہی تھی۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے موسم نے یو ٹرن لیا اور ایسی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں کہ سیلانی کو لگ پتہ گیا۔ یہاں مشہور ہے کہ استنبول کے موسم اور لڑکی کے مزاج کا پتہ نہیں چلتا۔ سیلانی استنبول کا رنگ بدلتا موسم تو دیکھ ہی رہا تھا، لیکن استنبول کی لڑکیوں کے مزاج کے بارے میں ظاہر ہے اس کی معلومات صفر ہی ہونی تھیں۔ اس میں شاہوار نے وقتاً فوقتاً اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ نیک سیرت اور صالح نوجوان بمع بیگم کے یہاں موجود ہے۔ وہ سیلانی سے کہنے لگا: سیلانی بھائی! ان لڑکیوں کی جینز پر نہ جائیں، یہی لڑکیاں آپ کو کسی مسجد کی پچھلی صفوں میں نماز پڑھتے ہوئے بھی مل سکتی ہیں۔ یہ واقعی ماڈرن تو ہیں، لیکن مادر پدر آزاد ہو جانے والی ماڈرن نہیں۔ ان کا پورا فیملی سسٹم ہے۔ شادی کے معاملے میں اس کے چاچے مامے اچھی طرح جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ شاہوار کی اس بات پر سیلانی نے اسے گھور کر دیکھا اور مصنوعی غصے سے کہا ’’اوئے یہ سب بتانے کا مطلب کیا ہے؟‘‘ جس پر وہ ہنس پڑا ’’آپ خود سمجھ دار ہیں۔‘‘
پہلے دن ڈٹ کر ناشتے کے بعد دوپہر کو کھانے کی طلب نہیں ہوئی۔ رات کو فخر السلام خان یہاں کے مشہور ریستوران کوفتہ جی یوسف پر لے گئے۔ ایک بڑے سے پلازہ کے گراؤنڈ فلور پر بنا یہ ریستوران کوئی ریستوران تھا!!! سیلانی کی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی سیٹھ رئیس کے پتر کا ولیمہ ہو رہا ہو۔ بلامبالغہ کوئی ہزار لوگ تو میزوں کے آس پاس پڑی کرسیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں اندر داخل ہوتے دیکھتے ہی ایک نوجوان مسکراتا ہوا آگے بڑھا اور شستہ ترکی میں کچھ کہنے لگا۔ غالباً وہ خوش آمدید کہہ رہا تھا اور پوچھ رہا تھا کہ آپ کتنے افراد ہیں تاکہ اسی حساب سے بیٹھنے کا انتظام بھی کیا جائے۔ جواب میں سیلانی کا ہونق چہرہ دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ ترکی اس کے قریب سے نہیں گزری۔ اب اسے نے پوچھا:
’’عربی… انگلش؟‘‘
پھر خود ہی ایک لڑکی کو اشارے سے بلایا اور شیر خان کے ٹولے کو اس کے حوالے کردیا۔ اس بی بی کی انگریزی بھی سیلانی جیسی گلابی ہی تھی۔ آرڈر دیا جاتا تو کیا دیا جاتا۔ وہ تو بھلا ہوا فخر السلام کا، جسے ترکی آتی ہے اور اردو سے زیادہ آتی ہے۔ اس نے اسے جانے کیا کچھ لانے کو کہہ دیا۔ وہ آرڈر نوٹ کرنے کے بعد مسکراتی ہوئی چلی گئی اور سیلانی سوچنے لگا کہ یوسف صاحب کے کوفتے کیسے ہوں گے؟ اور بھلا ترکوں کو کیا پتہ کوفتہ کس بلا کا نام ہے۔ سچی بات ہے اس کا دل تو ترکی کھانا کھانے کو چاہ رہا تھا، کوفتے تو پاکستان میں کھاتے رہتے ہیں۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں ترکی کوفتوں کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک نوجوان ویٹر ان کے سامنے دو بڑے بڑے چوکور برتن میں سلاد اور پانچ پلیٹوں میں سرخ ٹماٹروں کی چٹنی قسم کی کوئی چیز رکھ کر چلا گیا۔ شیر خان نے میز پر پڑی ہوئی زیتون کے تیل کی بوتل اٹھائی اور سلاد پر تقریباً انڈیل دی اور ساتھ ہی سیلانی سے مخاطب ہوا ’’سیلانی! یہ بالکل مفت ہے، عیش کرو عیش، کیا اپنے پاکستان میں کہیں ایسی عیاشی ہے؟‘‘
’’کیا مطلب یہ سلاد، زیتون وغیرہ مفت ہیں!‘‘
’’یہ بھی مفت ہیں اور آخر میں چائے بھی مفت ملے گی۔‘‘
اپنے پاکستان میں بھی مفت سلاد دی جاتی ہے، مگر تھڑا ہوٹلوں پر، لیکن وہ بھی پیاز کے چند لچھوں اور ایک آدھ ہری مرچ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ کم از کم سیلانی نے تو نہیں دیکھی۔ یہاں تو سلاد ہی اتنی تھی کہ اسی سے پیٹ بھر جاتا اور سلاد بھی بھرپور تھی۔ ٹماٹر، کھیرا، سلاد کے پتے اور سر کے والی مرچیں، اوپر سے زیتون کا خالص تیل… سیلانی کو بھوک لگ رہی تھی۔ وہ سلاد سے انصاف کرنے لگا۔ اتنے میں ویٹر پانچ پلیٹوں میں پانچ پانچ کباب کی ٹکیاں رکھ کر لے آیا۔ ہمارے یہاں اس طرح کے کچے قیمے کے کباب بنتے ہیں۔ کبابوں کے ساتھ، دوسری پلیٹ میں گوشت کے پارچے، ڈبل روٹی، دہی، لسی کے گلاس اور سبز رنگ کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں بھی تھیں۔ کبابوں میں مرچ بالکل بھی نہیں تھی، لیکن کچھ تو وہ لذیذ اتنے تھے اور کچھ بھوک بھی زوروں کی تھی، اس لئے پتہ ہی نہیں چلا اور پلیٹ خالی ہو گئی۔ یہاں لوگ روٹی نہیں کھاتے، روٹی کا کام ڈبل روٹی سے لیتے ہیں اور یہ کام یہاں کی بلدیہ نے بڑا آسان کر رکھا ہے۔ یہاں کی بلدیہ صرف کچرا نہیں اٹھاتی، سڑکیں نہیں دھوتی، بلکہ وہ عوام کو سستی اور صاف ستھری ڈبل روٹیاں بھی فراہم کرتی ہے اور صرف یہی نہیں، بلکہ شہر میں بہترین مقامات پر بلدیہ کے ریستوران بھی ہیں، جہاں بہت مناسب قیمت میں نہایت صاف ستھرا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک ہماری بلدیہ ہے، جس سے شہر کا کچرا تک نہیں اٹھایا جاتا۔ سیلانی کا عمران خان کو مفت مشورہ ہے کہ کراچی، لاہور، پشاور اور بڑے شہروں کے میئروں کو کان پکڑ کر ترکی لایا جائے اور کہا جائے کہ دیکھو یہ بھی بلدیہ ہے۔
شیر خان نے بتایا کہ یہاں مختلف علاقوں میں بلدیہ کے چھوٹے چھوٹے کیبن ہیں، جن پر بلدیسی کے لفظ سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کھوکا بلدیہ کی ملکیت ہے، وہاں سے یہ اپنی پسند کی ڈبل روٹی خرید لیتے ہیں۔ ترکوں کی ڈبل روٹیاں ہمارے یہاں ملنے والی ڈبل روٹیوں کی طرح نہیں ہوتیں۔ یہ کیک کی شکل سے لے کر فٹبال کی شکل اور لمبی مچھلی کی سی صورت میں ملتی ہیں۔ کئی اقسام کی ڈبل روٹیاں ہوتی ہیں۔ کباب اور گوشت کے پارچے چٹ کرنے کے بعد چھوٹی چھوٹی سبز بوتلیں بہت کام آئیں۔ یہ سوڈا واٹر کی بوتلیں تھیں، جنہیں ترکی مادین سو کہتے ہیں۔ یہ کھایا پیا ہضم کرنے والا کام کرتی ہیں۔ مادین یہاں بہت پیا جاتا ہے۔ سیلانی نے بھی بوتل خالی کر دی، جس کے بعد اسے یاد آیا کہ ابھی تک کوفتے نہیں آئے۔ اس نے یہ بات شیر خان سے کہی تو وہ ہنس پڑا۔
’’یہی تو کوفتے تھے، جو کھائے ہیں، یہاں کبابوں کو کوفتہ کہا جاتا ہے۔‘‘
کھانے کے بعد شیر خان نے کوفتہ جی یوسف کے برانچ منیجر کو بھی بلالیا اور لگا کرنے گپ شپ۔ اس نے بتایا کہ کوفتہ جی یوسف کی ترکی میں 67 برانچیں ہو چکی ہیں۔ اس نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ صرف اس ریستوران پر اوسطاً یومیہ دس ہزار لوگ کھانا کھانے آتے ہیں۔ تعطیل کے دنوں میں آنے والوں کی تعداد دگنی ہو جاتی ہے۔ بشک شہر استنبول کے اس ریستوران میں سولہ سو کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ منیجر نے بتایا یوسف جی کی 67 برانچوں میں 80 ہزار ملازم کام کرتے ہیں اور یوسف جی کا ہدف ہے کہ ترکی میں سو برانچیں مکمل کرنے کے بعد وہ ترکی سے باہر قدم نکالے گا۔ منیجر نے بتایا کہ ’’یوسف جی‘‘ نے گوشت، سبزیوں، دودھ، لسی کے لئے اپنا فارم ہاؤس بنا رکھا ہے، اسے کسی اور سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے نرخ سب سے کم ہیں اور پھر یوسف جی نے منافع کی شرح بھی کم کر رکھی ہے۔ صرف پانچ فیصد نفع پر وہ سارا کاروبار کر رہا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ ترکوں کو حلال اور اچھا کھانا کھانے کو ملے۔ منیجر نے یہ ساری باتیں کھڑے کھڑے کہیں اور باوجود اصرار کے کھانے میں شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ ڈیوٹی کا وقت ہے۔ ہم یہاں بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے۔
کوفتہ جی کے منیجر کے جانے کے بعد شیر خان کہنے لگا کہ سیلانی! یہ ہوتے ہیں نظریاتی لوگ، دیکھو صرف پانچ فیصد نفع پر کام کر رہا ہے اور سلاد، چٹنیاں، زیتون کا تیل، چائے بالکل مفت، جب بندے کی نیت صاف ہو تو خدا ہاتھ کیوں نہ پکڑے، یہ بات ہمارے تاجروں کی سمجھ میں نہیں آتی، وہ نفع کے نام پر کھال اتارنا شروع کر دیتے ہیں، اس نے نفع کم کرکے اپنے کسٹمر بڑھا لئے ہیں۔ یہ ’’یوسف جی کوفتہ‘‘ اب فوڈ بزنس میں پوری بلا بن چکا ہے۔ کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اس نے۔ میری کوشش ہے کہ یہ پاکستان میں بھی برانچ کھولے تاکہ فاسٹ فوڈ کے نام پر الٹی سیدھی چیزیں کھلانے والوںسے دو دو ہاتھ ہوں اور قوم کو بھی صاف ستھرا اچھا کھانا کھانے کو ملے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post