علم کا یہ تین حرفی لفظ اپنے اندر معانی کی ایک کائنات چھپائے ہوئے ہے۔ کہنے کو تو اس کی بہت سی قسمیں بتائی جا سکتی ہیں، لیکن حقیقت میں تو دو ہی قسمیں ہیں۔ علم دنیا اور علم آخرت۔ اس کی ایک قسم لفظ دعویٰ ہے۔ اس کی بہت سی قسمیں ہیں۔ اس کی ایک قسم کو چھوڑ کر باقی سب شیاطین کے ہتھیار ہیں، جو قسم اس سے ایک درجہ الگ ہے، وہ عدالت میں دعویٰ دائر کرنے کے معنی میں ہے، یہ بھی اگر غور کیا جائے تو ایک درجے میں مستثنیٰ ہے۔ کیونکہ عدالت میں مقدمہ بازی کی نوبت بھی نفس و شیطان کی کارروائی سے آتی ہے۔
آج کی گفتگو کا اصل موضوع ’’دعویٰ‘‘ ہے اور دعویٰ بھی وہ جو علم و معرفت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہو۔ عوام کو اعتقاد تو دلیل کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بس کسی کو غیر معمولی حرکتیں کرتے دیکھا، اس کے معتقد ہو گئے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ایسے لوگوں کے واقعات مواعظ میں بیان فرمائے ہیں۔ طوالت سے بچنے کیلئے اور بعض الفاظ کی تسہیل کیلئے احقر نے ادنیٰ سا تصرف کیا ہے۔
راقم نے جب اس وعظ کی تاریخ میں غور کیا تو عجیب اتفاق سامنے آیا۔ یہ وعظ 21 جمادی الثانیہ 1340ھ کو ضلع مظفر نگر کے قصبہ سروٹ میں مدرسہ محمودیہ میں ہوا ہے۔ اس طرح آج یعنی 12 رجب 1440ھ کو سو سال اور چند دن زیادہ ہوئے ہیں۔ اس وقت حضرت تھانویؒ کانپور میں مدرس تھے اور جوانی کے دور میں تھے۔ ان واقعات کو پڑھ کر ایک طرف تو اس زمانے کی کچھ جھلکیاں نظر آتی ہیں، دوسری طرف حضرت تھانویؒ کی قوت استدلال اور دینی علوم پر آپؒ کی عمیق نظر کا بھی کچھ اندازہ ہوتا ہے۔
عالم الغیب پر ایک دعویٰ:
فرمایا: کانپور میں ایک واعظ آئے۔ منبر پر بیٹھتے ہی انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ آج میں ایسی بات کہوں گا جو کسی نے نہ کہی ہو گی، وہ یہ کہ خدا عالم الغیب نہیں ہے۔ اس پر سامعین لاحول پڑھنے لگے۔ اس کے بعد واعظ صاحب کچھ دیر خاموش رہے، پھر انہوں نے یہ کہا کہ صاحبو! یہ بات سن کر آپ نے مجھے اپنے دل میں کافر و زندیق کہا ہوگا۔ مگر اس کی حقیقت سمجھنے کے بعد آپ کہیں گے کہ میری بات سچی ہے۔ بات یہ ہے کہ غیب کہتے ہیں پوشیدہ کو اور خدا تعالیٰ سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے تو حق تعالیٰ عالم الغیب کیسے ہو سکتے ہیں؟ ان کو تو جس چیز کا بھی علم ہے، وہ خدا کے سامنے ہے۔ آپ نے یہ نکتہ بیان کیا اور اپنے دل میں بڑے خوش ہوئے ہوں گے کہ میری بات سچی ہوگئی۔ مگر بندئہ خدا نے یہ نہ سوچا کہ اس نے قرآن کریم کے ایک لفظ عالم الغیب کو بے کار اور نکما بنا دیا۔ جب قرآن میں حق تعالیٰ کی صفت عالم الغیب موجود ہے تو اس کا انکار کیونکر جائز ہوگا۔ (یہ تو گویا حق تعالیٰ کی بیان کردہ صفت کا انکار ہے۔ خدا کی پناہ!)
اسے یہ کہنا چاہئے تھا کہ حق تعالیٰ کی جو صفت عالم الغیب ہے، وہ مخلوق کے اعتبار سے ہے۔ یعنی جو چیزیں مخلوق سے غائب ہیں، حق تعالیٰ کو ان کا بھی علم ہے۔ ورنہ حق تعالیٰ شانہ کے اعتبار سے علم کی ایک ہی قسم ہے۔ یعنی حضوری کا علم کہ رب تعالیٰ کے سامنے ہر شے حاضر ہے۔ یہود کا یہ مزاج تھا کہ ایسی باتیں بیان کرتے ہیں، جو عوام کو حیرت میں ڈال دیں۔ (اوپر یہود کے غلط طریقوںکا بیان تھا)
ایک شاہ صاحب کا مراقبہ:
گڑھی (بھارت) میں ایک شاہ صاحب آئے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی ان کی دعوت کرتا تو پہلے آپ مراقبہ کرتے تھے کہ اس شخص کی آمدنی حلال ہے یا نہیں۔ کسی کو کہہ دیتے کہ تیری آمدنی حلال نہیں ہے، اس لئے میں قبول نہیں کرتا اور کسی سے کہہ دیتے کہ ہاں! تیری آمدنی حلال ہے، میں دعوت قبول کرتا ہوں۔ لوگوں میں بڑی شہرت ہو گئی کہ بڑے پہنچے ہوئے بزرگ ہیں، جو حرام کا کوئی لقمہ نہیں کھاتے۔ بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ امیروں کی دعوت اس لئے قبول نہ کرتے ہوں کہ عام طور سے امیروں کی آمدنی میں شبہ ہوتا ہے۔ ان کی آمدنی میں اکثر گڑبڑ ہوتی ہے اور ایک شخص غریب اور خستہ حال ہے، اس کی آمدنی اکثر مزدوری کی یومیہ آمدنی ہوتی ہے، اس میں شبہ کم ہوتا ہے۔
اس لئے بعض لوگوں نے آپس میں طے کیا کہ اس شیخ کا امتحان کرنا چاہئے۔ چنانچہ وہ لوگ ایک کسبی (فاحشہ عورت) کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ تو اپنی تازہ آمدنی سے کوئی روپیہ ہمیں ایک دو دن کیلئے دے دے۔ اس عورت نے ایک روپیہ ان لوگوں کو دے دیا (واضح رہے کہ یہ سو سال پہلے کا روپیہ ہے، جو آج کے کئی سو روپے کے برابر ہوگا) انہوں نے یہ روپیہ ایک غریب مزدور کو دیا اور اس سے کہا کہ اس روپے سے تو شاہ صاحب کی دعوت کر دے۔
چنانچہ وہ مزدور گیا اور شاہ صاحب سے عرض کیا: حضور! آج میرے یہاں دعوت قبول کر لیجئے۔ شاہ صاحب نے حسب معمول مراقبہ کیا اور کچھ دیر بعد سر اٹھا کر کہا: سبحان اللہ ! تمہاری آمدنی میں بڑا نور ہے۔ بالکل حلال ہے، میں تمہاری دعوت منظور کرتا ہوں۔ جب وہ اس مزدور کے گھر گئے اور کھانا کھا چکے تو یہ لوگ بھی وہاں پہنچ گئے۔
ان لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہ شاہ صاحب مکار آدمی ہیں، ان کا مراقبہ وغیرہ سب ڈھونگ ہے۔ ان لوگوں نے شاہ صاحب کو پکڑ کے خوب مرمت کی اور کہا کہ او جھوٹے مکار! تجھے اس مراقبے میں نور نظر آ رہا تھا، یہ کھانا جو تو نے کھایا ہے، ایک کسبی عورت کی آمدنی سے تیار ہوا ہے۔ اس لئے عوام کی تعریف کی وجہ سے ہر کسی کا معتقد نہ ہونا چاہئے۔ کسی متقی پرہیزگار عالم سے پوچھ کر کسی پر اعتقاد کرنا چاہئے۔ (مواعظ اشرفیہ، ج۔۴، صفحہ۲۱۰)
یہ دور مادی علم کی ترقی کا اور دینی علم کے زوال کا دور ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم پانے والے دینی علوم سے ناواقف ہیں، ان کا رابطہ علمائے حق سے نہیں ہوا۔ بس عوام کی بھیڑ کو اپنے اعتقاد کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ راقم کے ایک دوست سید محمد طاہر نے سچ کہا:
’’علم داخل ہو گیا ہے بوجہل کے دور میں‘‘ (کرب سخن، صفحہ ۲۶)
حلال کی تفتیش:
گنگوہ میں حضرت مولاناؒ کے یہاں ایک شاہ صاحب مہمان ہوئے (غالباً حضرت گنگوہیؒ مراد ہیں)۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ صرف حلال روزی کھاتے ہیں۔ مشتبہ کھانا نہیں کھاتے۔ حضرت مولاناؒ کے گھر سے کھانا آیا تو واپس کر دیا اور فرمایا میں خالص حلال کھاتا ہوں، مشتبہ مال نہیں کھاتا اور مجھ کو معلوم نہیں یہ کھانا کیسا ہے؟ انہوں نے سمجھا ہوگا کہ حضرتؒ خود آ کر اس کھانے کی حقیقت بیان کریں گے کہ یہ کھانا فلاں قسم کی آمدنی سے تیار ہوا ہے اور ان کے شبہ کو دور فرمائیں گے۔ مگر حضرت مولاناؒ ایسے روگ نہیں پالتے تھے، جب کھانا واپس آ گیا تو فرمایا کھانا تو گھر میں رکھ لیا جائے اور ان شاہ صاحب سے کہہ دیا جائے کہ خانقاہ میں جو گولر کا درخت کھڑا ہے، اس کے پھل بالکل حلال ہیں، جس میں کوئی شبہ نہیں ہے، بس گولر توڑیں اور وہ کھائیں۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اگر سچا طالب حلال ہوتا تو ایسا ہی کرتا، مگر اس کو تو تنگ کرنا مقصود تھا۔ چنانچہ جاہلوں کو تنگ کرتا تھا اور وہ اس کی خوشامدیں کر کر کے اور تلاش کر کے اس کے لئے حلال کھانا لایا کرتے تھے۔ جب مولاناؒ کی طرف سے یہ جواب ملا تو بہت خفا ہوئے اور دوسرے ہی وقت وہاں سے چل دیئے۔
میرا بھائی، شیخ الاسلام:
ابھی میں یہ مضمون یہاں تک لکھ چکا تھا کہ اچانک ایک صبر آزما واقعہ پیش آ گیا۔ مفتی محمد تقی عثمانی سلمہ اللہ پر قاتلانہ حملہ عالم اسلام میں ہلچل بلکہ مسلمانوں کے دل و دماغ میں زلزلے کا باعث بنا ہوا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا واقعے کی رپورٹنگ اور اہل علم و دانش کے تجزیوں سے پُر ہیں۔ مجھے ایک عجیب تجربہ یہ ہوا کہ میں مذکورہ بالا مضمون ادھورا چھوڑ کر جمعہ کی نماز کیلئے چلا گیا۔ مسجد سے باہر آتے ہوئے میرے بیٹے فرید اشرف غازی سلمہ اللہ نے مجھے بتایا کہ چچا جان مفتی محمد تقی پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ یہ خبر سن کر مجھ پر جو اثر ہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہوا، اس کی غالباً وجہ یہ تھی کہ مجھے اس خبر پر یقین نہیں آیا۔ میں نے معمول کے مطابق کچھ پھل خریدے اور گھر آ گیا۔
جب اس واقعے کی تصدیق ہوئی اور تفصیلات سامنے آئیں تو دل و دماغ ٹھٹر سے گئے۔ اس وقت بھی رنج و غم کے بجائے زبان پر حق تعالیٰ کی رحمت اور قدرت پر شکر کے کلمات جاری ہو گئے، فون ملاتا رہا، مگر ان کا فون مصروف تھا۔ اپنے چھوٹے داماد سے معلوم ہوا کہ وہ سیکورٹی والوں کے کمرے میں ہیں۔ ٹی وی چینلز اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی بڑے واقعے کی خبر پہلے ہمارے چینل سے نشر ہو۔ اس جلد بازی میں وہ خبر کی تصدیق کئے بغیر ادھوری اور بعض چینل اپنا ’’اجتہاد‘‘ دکھانے کی کوشش میں بے سروپا خبریں نشر کر دیتے ہیں۔ چنانچہ کسی چینل نے یہ خبر اڑا دی کہ تقی عثمانی صاحب کی گاڑی پر نرسری کے علاقے میں حملہ ہوا ہے۔ غرض مختلف چینل اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے اور لوگ سخت الجھن کا شکار ہو گئے تھے۔ راقم نے یہ طے کیا تھا کہ عشاء سے پہلے وہاں جانا ان کی بے انتہا مصروفیت میں دخیل ہونا مناسب نہیں ہوگا۔
چنانچہ میرے چھوٹے داماد میری بیٹی کے ہمراہ گھر پر گاڑی لے کر آ گئے اور ہم نو بجے کے بعد ان کے گھر پر پہنچ گئے۔ سیکورٹی کی گاڑیاں بھی کھڑی تھیں۔ ان کے ڈرائنگ روم میں ہمدردوں کا ہجوم تھا۔ مجھے دیکھا تو کھڑے ہو کر معانقہ کیا، وہاں بھی زبان پر شکر کے کلمات جاری ہوئے۔ نہ واقعے پر افسوس کا اظہار ہوا اور نہ غم کا۔ الحمدللہ میرا بھائی، میرا شیخ الاسلام، میرا سرمایہ عالم اسلام ترو تازہ چہرے کے ساتھ اپنی حیرت انگیز داستان سنا رہا تھا۔ کسی ادا سے بھی یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ وہ ایک جان لیوا قاتلانہ حملے سے بچ کر آیا ہے۔ وہ سچ کہہ رہے تھے کہ حق تعالیٰ نے گولیوں کا رخ پھیر دیا تھا، میں ایک طرح کے حصار میں محفوظ تھا۔ گولیوں کی بارش ناکارہ ہو گئی تھی۔ حق تعالیٰ ان کو طویل عمر صحت و عافیت کے ساتھ رکھے اور اپنے دین کی خدمت لیتا رہے۔ 23 مارچ کے یوم استقلال کے موقع پر روزنامہ امت نے جو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا ہے، وہ دیکھنے کے قابل ہے۔ کچھ ہی دیر بعد صنوبر شہید کا جنازہ آ گیا۔ مفتی تقی عثمانی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اس طرح اس شہید کی نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت بھی حاصل ہو گئی۔ الحمدللہ۔ باری تعالیٰ اس واقعے میں شہید ہونے والوں کو جنت الفردوس کا اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post